زندہ سلامت رہنا جہاں بڑی آزمائش ہے

0
0

[

محمد اعظم شاہد
حماس اور اسرائیل کے درمیان چھ ہفتوں سے جنگ جاری ہے۔ غزہ پٹی اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کے باعث کھنڈر اور قبرستان میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ عام فلسطینی شہریوں کو ڈھال بنا کر حماس اسرائیل پر حملے کرتا رہتا ہے۔ یہ الزام اسرائیل لگا تارہا ہے۔ اس لیے حماس کو ختم کرنے اور اس کے جنگجوؤں سے نمٹنے اور غزہ پٹی پر ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے اسرائیل بے دلی اور بے رحمی کے ساتھ با ئیس لا کھ فلسطینیوں پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔
غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا پر زمینی اور فضائی حملوں کے باعث یہ ہسپتال اس جنگ میں فلسطینی شہدا کی اجتماعی قبر بن گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامی امریکہ کی انٹیلی جنس ر پورٹ کے مطابق حماس اس اسپتال کے نیچے سرنگ کے ذریعے اپنی جنگی کارروائی کر رہے ہیں۔ اسی لیے اس اسپتال کا چاروں طرف محاصرہ کرتے ہوئے اسرائیل نے الشفا اسپتال جو دوائیوں اور ایندھن کی قلت سے دو چار تھا، اب یہاں علاج مزید مشکل بن گیا ہے۔ زخمیوں کا علاج بہت بڑا آزمائشی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اس اسپتال کے احاطہ میں چاروں طرف اسرائیلی فوج کی موجودگی اور کارروائی کے نتیجے میں جنگ میں شہید ہونے والوں کی لاشیں تدفین کے لیے باہر لے جانے میں بھی دشواری در آئی ہے۔ میتوں کے انبار لگے ہیں۔ حماس سے مقابلہ کرنے کی پاداش میں بے قصور عام فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی ظلم وستم کی فوری روک تھام کے لیے جنگ بندی کی عالمی ا پیل اسرائیل پر بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔ حماس کی گرفت سے 200 راسرائیلی یرغمالوں کی فوری رہائی کے لیے اسرائیلی متاثرہ خاندانوں کے بے حد اصرار پر بھی اسرائیلی وزیر اعظم نتین یا ہو پر کوئی اثر ہوتا نہیں لگ رہا۔ نیتن یا ہو بار بار اس جاری جنگ کا مقصد بیان کرتا رہا ہے کہ حماس کی فوجی طاقت کا پوری طرح وہ صفایا چاہتا ہے اور غزہ پٹی پر حماس کی حکومت کا خاتمہ اس کا ہدف ہے۔ اس کے بعد اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
جنگ میں جس طرح کی ممکنہ تباہی ہو سکتی تھی، اس سے کہیں زیادہ بربریت کا اسرائیل نے حماس کے ساتھ جوابی کارروائی کرتے ہوئے مظاہر ہ کیا ہے۔ غزہ کے زیادہ تر اسپتال اسرائیل کے جنگی جملوں سے بند ہو چکے ہیں۔ ضروری اشیاجیسے کھانے پینے کی چیزیں، ایندھن، پینے کا شفاف پانی ،بجلی اور دوائیوں کی قلت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ غزہ میں پینے کا شفاف پانی اور پاکی صفائی سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں فی کس تین لیٹر پانی روزانہ مہیا ہے، جس میں ایک شخص کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ مجبور ہو کر لوگ سمندر کا کھارا پانی پی رہے ہیں۔ شمالی غزہ میں مچی جنگ کی تباہی سے مقامی فلسطینی جنوبی حصے کا رُخ کر رہے ہیں۔ نہ سواری کا انتظام اور نہ ہی سفر کے دوران کسی تحفظ کا یقین۔ بچے، خواتین اور بوڑھے میلوں کا طویل سفر پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ اب تک جنگ میں تیرہ ہزار سے زائدفلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں چالیس فیصد سے زیادہ یعنی پانچ تاچھ ہزار بچے شامل ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ غزہ کی آبادی میں ستاون لوگوں میں سے ایک فردیا تو بمباری میںہلاک ہو گیا ہے۔ یا پھر زخمی ہو کر زندگی اور موت کے درمیان جینے پر مجبور ہے۔ فضائی حملوں کے بعد بے رحمانہ زمینی حملوں میں شدت کے بعد غزہ میں بسے فلسطینی اسپتالوں یا پھر مدارس میں پناہ گزین ہیں۔ ان پناہ گزین کیمپوں میں انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں ہر روز پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ کئی مجبور و بے سہارا لوگ یہاں رات میں سیدھے لیٹ کر سونے سے بھی قاصر ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے انتباہ دیا ہے کہ خواتین اس جاری جنگ میں بری طرح متاثر ہیں۔ غزہ میں اقوام میں متحدہ کی راحت شاخ نے بتایا کہ 55 ہزار حاملہ خواتین کی حالت بری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ روزانہ 180 زچگیاں متوقع ہیں۔ اسی دوران در کار متعلقہ دوائیوں کی قلت بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بمباری کے وحشت ناک شور و غل سے کئی خواتین کے حمل ساقط ہورہے ہیں۔ قبل از وقت مولود بچوں کی نگہداشت کے لیے ان کیوبیٹر س کی عدم کارکردگی اور مولود بچوں کی تیمارداری کے لیے بھی معقول انتظام نہ ہونے کے باعث سنگین اور مایوس کن نتائج رو نما ہونے لگے ہیں۔ بمباری کا شکار مسمار عمارتوں کے ملبے میں گمان کیا جارہا ہے ہے کہ تین ہزار افراد دفن ہیں۔ نہ راحت کاری ممکن ہو سکتی ہے اور نہ ہی راستے ہموار ہیں۔
مصر سے لگی سرحد رفاہ سے ایندھن کی رسد ہر دن چھ ہزار لیٹر کی پابندی سے غزہ پہنچ رہی ہے جبکہ پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے روزانہ چھ لاکھ لیٹر ایندھن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسرائیل نے حماس کی انتہا پسندی کے خاتمے کے نام پر غزہ میں جو تباہی مچائی ہے دو تاریخ انسانی اور جنگی حملوں کا ایک تاریک باب ہے۔ عرب ممالک کی مصلحت پسندی محض مشاورتی اعلانات اور خدمت ایک تماشا بن گیا ہے۔ امریکہ کی دوغلی پالیسی اور اسرائیل کی حمایت کے درمیان عالمی سطح پر جنگ بندی کا مطالبہ بھی اس جاری جنگ کے شور میں گم ہوتا رہا ہے۔ میڈیا میں اس جنگ کی تباہ کاری سرخیوں میں ہوا کرتی تھی۔ اب ضمنی خبروں میں اس کا شمار ہونے لگا ہے۔ اخبارات کے صفحہ اول سے نکل کر اس جنگ کی ہو لناکی کی خبریں اندرونی صفحات پر منتقل ہونے لگی ہیں۔ مگر جن اخبارات کو بے قصور فلسطینیوں سے ہمدردی ہے۔ وہاں شہر میں ترجیحا ًصفحہ اول پر ہی نمایاں ہیں۔ مگر اب اسرائیل کی مخالفت کرنے والوں پر بھی کئی ممالک بشمول سعودی عرب پابندیاں بڑھنے لگی ہیں۔ جنگ بندی کب اور کیسے ممکن ہوگی یہ سوالیہ نشان بن گیا ہے!!
azamshahid1786@gmail.com cell: 9986831777

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا