سہارنپور/احمد رضا ) گزشتہ تین سال اور چھ ماہ کی مدت میں اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، مغربی اتر پردیش اور دہلی کے علاقوں میں زلزلوں کا اثر دیکھا جارہاہے مگر مرکزی سرکار آنیوالی تباہی کی آہٹ سے بے خبر بیٹھی ہے گزشتہ ہفتہ ان علاقوں میں فجر کے بعد اور بعد نماز ظہر دو ہلکے جھٹکہ محسوس کئے گئے مگر اسکے بعد بھی کوئی تفتیش یا جانچ کی ضرورت ہی کسی نے محسوس نہی کی اتراکھنڈ کی پہاڑیوں پر لگاتار زلزلوں کے جھٹکہ کبھی بھی خطرناک صورت حال شکل لے سکتے ہیں اسلئے ضرورت ہے بہتر حفاظتی بندوبست کی! پچھلے ہفتہ اتراکھنڈ، ہماچل اور مغربی یوپی کے کچھ اہم شہروں میںپھر سے زلزلوں کی آہٹ ہونےکے نتیجہ میں ان علاقوں میں بسنے والے کروڑوں افراد کو چند لمحات کے لئے بد حواسی کے عالم میں گھروں سے باہر نکلنے اور اپنے مستقبل کی بابت سوچنے کو مجبور کر دیاہے؟ اتراکھنڈ، ہماچل، مغربی یوپی ، جمنانگر، جگادھری ( ہریانہ ) کے بہت سے علاقوں میں ان زلزلوں کا کافی زیادہ اثر دیکھنے کو ملا مگر کسی کے جانی نقصان کی اطلاع نہی ہے عام رائے کے مطابق اس زلزلہ کی تیزی ری ایکٹر پیمانہ پر سرکاری طورپر ساڑھے تین اور چارکے قریب آنکی جارہی ہے! گزشتہ سال این سی ایس کے ڈائریکٹر مسٹر ونیت گہلوت نے ایک چینل کو بتایا کہ اس طرح کے زلزلوں کا آنا عام ہے مگر جس تیزی سے یہ زمین آج کانپی نظر آتی ہے اسنے یہ ظاہر کر دکھایاہے کہ ابھی سے ہوشیار رہنے کی خاص ضرورت ہے اب لاپرواہی تباہی کا باعث بن سکتی ہے ! قابل غور ہے کہ گزشتہ تین سالوں میںنیپال اور ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں آئے خطرناک زلزلہ کو مرکزی سرکارنے بہت ہلکے میں لیاہے ان زلزلوں کو آج تین سال بیت رہے ہیں مگر سرکاریں آج بھی تماشائی بنی ہیں! قدرت سے چیڑ چھاڑ ہم سبھی کو کافی مہنگی پڑسکتی ہے قدرت سے چھیڑ چھاڑ اور قدرت کے ساتھ مزاق کرنے والوں کے لئے نیپال میں آنے والازلزلہ ایک نمونہ ہے اسی درمیان یاد ہوگا کہ دہلی کے آس پاس چھ ماہ میں ایک درجن سے زیادہ جھٹکے محسوس کئے جارہے ہیں جو مستقبل کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ ہمارے پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی کھنن ، پہاڑوں کی کھدائی ، پہاڑوں پرغیر قانونی تعمیرات اور غیر قانونی ہرے پیڑوں کا کٹان یہ تمام وجوہات کسی بھی وقت کسی بھی بڑے زلزلہ کا سبب بن سکتے ہیں وقت رہتے مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں کو ہوش میں آنابیحد ضروری ہے؟ سبب بڑے زلزلوں کا خطرہ گزشتہ ۰۸۹۱ سے لگاتار ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے مگر حکام بالخصوص صوبائی سرکار یں اور مرکزی سرکار اس خطرے سے جان بوجھ کر آنکھیں پھیرے بیٹھی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس خطرے سے بچنے کے لئے ٹھوس اقدام کریں گزشتہ دنوں نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے وارنینگ دی ہے کہ تراکھنڈ جیسی تباہی ہماچل اور اُتر پردیش کے چند علاقوں میں کبھی بھی آ سکتی ہے ۔ این ڈی ایم اے نے ہماچل سرکار کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ صوبہ میں کبھی بھی ایک بڑا زلزلہ آ سکتا ہے اور ایسے میں شملہ سمیت صوبہ کے تین اضلاع میں کبھی بھی خوفناک تباہی مچ سکتی ہے ۔ اتنا ہی نہیں این ڈی اےم اے کے مطابق ہماچل میں پگھلنے والے گلیشئر سے بنی نئی جھیل بھی بڑی تباہی کی دستک دے رہی ہے ۔ ویسے تو یہاں ہر ۰۵ سال میں زلزلہ آتا ہی ہے ۔ پچھلا زلزلہ ۲۰۹۱ میں آیا یعنی۳۱۱ سال پہلے تو قدرت نے ہمیںبخش دیا رحم دکھایا لیکن انسان نے ہماچل کی راجدھانی شملہ پہاڑ پر کنکریٹ کا جنگل کھڑا کر دیا ۔ ایسے ہی کنکریٹ کے جنگل اُتراکھنڈ میں بارش ، باڑھ اور زمین کھسکنے کی وجہہ سے منہدم ہوتے نظر آئے تھے ۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ہماچل اور اُتراکھنڈ پر زلزلہ کا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ گزشتہ دنوں ہماچل کی صوبائی سرکار و این ڈی ایم اے کے افسروں کے بیچ ہوئی میٹنگ میں اس بات پر حکام نے زبردست زلزلہ کے بابت بڑی تشویش ظاہر کی ۔ این ڈی ایم اے کے مطابق راجدھانی شملہ ، سندرنگر اور دھرمشالہ پر زلزلہ کا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ یہ زلزلے کے لحاظ سے سب سے زیادہ حساس علاقے میں آتے ہیں ۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے ہماچل سرکار نے بھی لوگوں کو چوکنا رہنے کیلئے کہا ہے لیکن آخر سرکار پہاڑوں پر اس اندھادھند تعمیرات کا کیا کرے گی ۔ صوبہ پر دوسرا بڑا خطرہ گلیشئر سے پگھلنے والی جھیل ہے ۔ این ڈی ایم اے کی مانین تو ہماچل کے بالائی علاقے میں اس وقت ایسی جھیلیں ہیں جو کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہیں اور یہ پہلے سے موجود ندیوں اور کانوں سے مل کر بھاری تباہی مچا سکتی ہیں اس سے قبل بھی این ڈی ایم اے اتراکھنڈ اور اُترپردیش کی سرکار کو وارننگ دے چکے ہیں مگر این ڈی ایم اے کے حکام کی وارننگ کو آج تک صوبائی سرکاروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے واضع کریں کہ اُترا کھنڈ کی راجدھانی میں واقع وزیرِ اعلیٰ اور گورنر کے بنگلے حساس زلزلہ والے زون میں کافی پہلے سے شامل ہیں اگر شملہ میں تباہی مچتی ہے تو پھر دہرادون ، ہردوار اور میرٹھ سے لے کر تباہی کی دستک دہلی تک سنائی دیگی وقت رہتے اگر مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں نے جلد ہی قدرت کے ساتھ اور جنگلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو سختی کے ساتھ کنٹرول نہیں کیا تو کیدارناتھ جیسے حادثات عام بات ہوکر رہ جائے گی ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر قانونی کٹان اور کھنن کو قابو کیا جائے اور ان پر مستقل طور پر پابندی عائد کی جائے تاکہ ہماچل ، اُتراکھنڈ ، اُترپردیش اور دہلی کو آنے والی آفات سے بچایا جا سکے !