زراعت کے ذریعے بااختیارہوتی دیہی خواتین

0
0

 

 

تانیہ
چورسو، اتراکھنڈ

ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کئی سطحوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مختلف اسکیمیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں زراعت ہی وہ شعبہ ہے جہاں خواتین سب سے زیادہ بااختیار ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک کا زرعی نظام مردوں کے مقابلے خواتین کے کندھوں پر زیادہ ٹکا ہوا ہے جسے انہوں نے کامیابی سے سنبھالا ہے۔ جبکہ مرد زیادہ تر ہل چلانے اور کھاد اور بیج پھیلانے کا کام کرتے ہیں، عورتیں گھاس ڈالنے سے لے کر پکنے تک فصل کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ فصل کے تیار ہونے تک بچوں کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اس دوران وہ ہر روز گھر کے تمام کام بہت اچھے طریقے سے مکمل کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے کام کو معاشرے میں کبھی عزت نہیں دی گئی۔ خواتین کسانوں کو اکثر مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔اتراکھنڈ کے دیہی علاقے چورسوگائوں کی خواتین کسان بھی خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک مثال ہیں۔ ریاست کے باگیشور ضلع میں واقع گڑڑ بلاک کے اس گاؤں کی زیادہ تر خواتین گھریلو کام کے ساتھ ساتھ زراعت سے متعلق کام بھی بخوبی انجام دیتی ہیں۔ اس حوالے سے 30 سالہ خاتون کسان سنگیتا دیوی کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی پوری آمدنی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اس لیے خاندان کی خواتین مردوں کے ساتھ مل کر زرعی کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہم خواتین فصل کے پکنے تک اس کی ضروری دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر کے تمام اہم کام مکمل کرتی ہیں اور پھر سارا دن کھیتوں میں گھاس صاف کرنے میں گزارتی ہیں اور پھر شام کو گھر واپس آ کر کھانا پکاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے اجتماعی کام سے فصل اچھی ہوتی ہے اور ہمیں پورے سال کے لیے اناج ملتا ہے۔
وہیں 48 سالہ بھاگا دیوی پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں کہ ہم خواتین خود انحصار ہیں۔ ہم کسی کی محتاج نہیں ہیں۔ معاشرہ سمجھتا ہے کہ عورتیں کچھ نہیں کر سکتیں، انہیں ہمارا کام دیکھنا چاہیے۔ زراعت سے متعلق تمام کام ہم خود کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری معاشی حالت بہت اچھی ہے۔ ہمیں کبھی بھی بازار سے سبزیاں یا اناج خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ کہتی ہیں کہ گاؤں کی تقریباً تمام خواتین کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ جہاں مرد صرف اناج اگانے کے ذمہ دار ہیں وہیں خواتین بھی اناج کے ساتھ سبزیاں اگانے کی ذمہ دار ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ہم خواتین گھر کے سارے کام مکمل کرکے دوپہر کا کھانا بنا کر کھیتوں میں جاتی ہیں اور پھر واپس آکر رات کا کھانا بھی تیار کرتی ہیں۔ تاہم بھاگا دیوی خواتین کے تئیں معاشرے کے دوہرے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم دیہی خواتین زراعت میں مردوں سے زیادہ کردار ادا کرتی ہیں لیکن پھر بھی ہمارے کام کو مردوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے ۔ اگر خواتین زرعی کام سے مکمل طور پر منہ موڑ لیں تو یہ کام ٹھپ ہو جائے گا۔ اس سے زراعت میں ہمارا کردار ظاہر ہوتا ہے لیکن پھر بھی معاشرے کی نظر میں ہمارا کام اہم نہیں ہے۔بھاگا دیوی کے الفاظ کو آگے بڑھاتے ہوئے 40 سالہ جانکی دیوی کہتی ہیں کہ ہم خواتین زراعت کے شعبے میں اتنا ہی حصہ ڈالتی ہیں جیسا کہ ہم گھر کو خوبصورت بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ہم صبح اٹھ کر نہ صرف گھر کا کام مکمل کرتے ہیں بلکہ جانوروں کے لیے چارے کا بندوبست بھی کرتے ہیں اور کھیتوں میں جاتے ہیں۔ کئی بار خراب موسم کے باوجود ہمیں کھیتوں میں جانا پڑتا ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو کھیتوں میں جڑی گھاس فصل پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے اور فصل کے خراب ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خواتین کسی بھی حالت میں زرعی کام نہیں چھوڑ سکتیں۔
جانکی دیوی کے ساتھ بیٹھی 38 سالہ بھاگولی دیوی کہتی ہیں کہ اگرچہ معاشرہ ہم خواتین کے کام کو نہیں سمجھتا، لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ ہم زرعی کام سے منہ موڑ لیں کیونکہ یہی ہماری روزی روٹی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہم غریب ہیں، ہماری معاشی حالت ایسی نہیں کہ بازار سے غلہ خرید کر کھا سکیں۔ صرف اتنی زمین ہے جس پر اناج یا سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں اور سال بھر خوراک فراہم کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گاؤں کے زیادہ تر مرد پیسہ کمانے کے لیے کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ دیگر کام بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ زراعت پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ مرد صرف کھیتوں میں ہل چلانے اور فصلوں کی کٹائی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔بیج بونے سے لے کر کٹائی تک کے عرصے میں خواتین فصل کی مکمل دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ گھاس پھوس اور کیڑوں کے حملے سے بچانے کے لیے ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی طرح فصلوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بھاگولی دیوی پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں کہ اگرچہ سماج زراعت کے شعبے میں خواتین کے تعاون کا احترام نہیں کرتا، لیکن یہ معاشرہ اچھی طرح جانتا ہے کہ زراعت کا کام ہم خواتین کے بغیر ادھورا ہے۔ اگر خواتین یہ کام چھوڑ دیں تو زرعی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ فصلیں خراب ہو جائیں گی کیونکہ مرد ہل چلانا جانتے ہوں گے لیکن صرف عورتیں ہی فصلوں کو کیڑوں سے بچا سکتی ہیں اوروہ ایسا بخوبی کر رہی ہیں۔
درحقیقت زراعت کے شعبے میں خواتین جس طرح کا حصہ ڈالتی ہیں وہ حیرت انگیز ہے۔ بھلے ہی معاشرہ ان کے کام کو بہت اہم نہیں سمجھتا، لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ زراعت کی اصل ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ وہ نہ صرف زراعت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہیں بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہیں کہ دیہی خواتین اس شعبے میں بہت مضبوط ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ ان کی بااختیاریت کو قبول کرے اور انہیں مردوں کے برابر مزدوری ادا کرے۔ مصنفہ سمترانندن پنت یونیورسٹی کے طالبہء ہیں (چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا