- کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ!
گذشتہ ماہ کے اوآخرمیںسپریم کورٹ میں ہندوستان میں موجودروہنگیاپناہ گزینوں کوبے دخل کئے جانے کے معاملے پرہوئی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے انہیں جبری ملک بدرکرنے کے عمل پرروک لگاتے ہوئے عرضی دہندگان کے الزامات پرحکومت سے جواب طلب کیااورآئندہ تاریخ سماعت7مارچ مقرر کی جواب قریب ہے، سپریم کورٹ میں روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملہ کی سماعت میں مرکزی حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ کسی بھی پناہ گزیں کو ملک سے باہر نہیں کیا گیا ہے، حکومت نے کہا کہ ایسی کوئی ناگہانی صورتحال پیدا نہیں ہوگئی ہے کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کو کوئی حکم جاری کرنا پڑے، ایگزیکٹیو اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کررہی ہے ، اس معاملہ میں سفارتی پہل جاری ہے،مرکزی حکومت کی جانب سے عدالت میں داخل کئے گئے اس جواب پر سپریم کورٹ نے کہا کہ امید ہے کہ کوئی بھی روہنگیا پناہ گزیں ملک سے باہر نہیں نکالا گیا ہے، عدالت نے کہا کہ بعد میں وہ یہ طے کریں گے کہ جو ملک میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں ، انہیں واپس بھیجا جائے یا نہیں، لیکن سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے دیگر پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے سلسلہ میں بھیجی گئی درخواستوں کا جواب دینے کیلئے کہا ہے، سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی اگلی سماعت 7 مارچ کو ہوگی،عظیم جمہوریت کی عظیم عدالت میں معاملہ چل رہاہے،مرکزی حکومت سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، اُدھرپڑوسی ملک بنگلہ دیش بھی اپنے ملک میں موجود لاکھوں روہنگیاپناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کیلئے ہندوستان سے مددمانگ رہاہے، ایک تازہ اپیل میں بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ نے ہندوستان سے گذارش کی ہے کہ وہ میانمارپردبائوبڑھائے تاکہ وہ اپنے شہریوں کی واپسی کیلئے اقدامات اُٹھائے،لیکن اِدھرجموں شہرمیں اِن دِنوں روہنگیامسلمانوں کی آڑمیں مسلم بستیوں کی جانب تیکھی نگاہوں سے دیکھاجارہاہے اورایک پرامن ماحول اوربھائی چارے کوبُری نظرلگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، بدقسمتی سے اس میں کچھ مقامی پرنٹ والیکٹرانک میڈیابھی پیش پیش ہے، میڈیاکاکام سماج کوآئینہ دکھاناضرورہے لیکن فیصلہ صادرکرنانہیں، جس اندازمیں رپورٹنگ کی جارہی ہے اس کیلئے اشتعال انگیزطریقہ اپنایاجارہاہے، اورباربارمسلمان…مسلمان…بٹھنڈی، سنجوان، سدھڑا،نروال وغیرہ علاقوں کونشانہ بنایاجارہاہے یعنی مسلم بستیوں پرطنزکیاجارہاہے،سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت کی سفارتی کوششوں پراعتمادہوناچاہئے، ہرکوئی روہنگیاپناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کاخواہاں ہے، اورخود بھی یہ لوگ اپنے وطن جاناچاہتے ہیں ، لیکن ایسے سازگارحالات بننے چاہئے کہ یہ واپس جاسکیں،اب ’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ ‘والاطرزاپناتے ہوئے کچھ شرپسندعناصرجموں میں اقلیتی بستیوں کوبرداشت نہیں کررہے ہیں تویہ انتہائی شرمناک اورجاہلوں کی دنیامیں جینے والی بات ہے،امن وامان ، بھائی چارے کومضبوط کرنے کیلئے مل جل کررہنے کادرس دیاجاناچاہئے، کسی مذہب کے ماننے والوں یاکسی مخصوص بستی کے تئیں سماج میں غلط تاثرپیداکرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے، اس طرح کی بوکھلاہٹ سے ہاتھ کچھ آنے والانہیں البتہ ایسے شرپسندوں ونفر ت کے بیج بونے والوں کیلئے خودبخود زمین تنگ ہوجائے گی اورانہیں اس معاشرے میں جینے کامزہ نہیں آئیگا۔محبت کاپیغام عام کیاجائے،مصیبت زدگان کوانسانیت کی نگاہوں سے دیکھاجاناچاہئے…ناکہﷺٓؒٓ حقارت کی نظروں سے۔