- پروفیسرشہاب عنایت ملک
- 94191-81351
رسانہ عصمت ریزی اورقتل نے جس طرح دنیا کی پوری انسانیت کودہلاکررکھ دیااس کی مثال اس سے قبل ملنامشکل ہوجاتی ہے ۔اس شرمناک واقعہ نے نہ صرف برصغیر کے عوام کودہلاکر رکھ دیابلکہ مغربی ممالک میں بھی اس کی گونج سنائی دی۔یہاں تک کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس واقعہ کونہ صرف شرمناک قراردیابلکہ مجرموں کوکیفرکردارتک پہنچانے کی بات بھی کی۔ صدرجمہوریہ ہند اوروزیراعظم ہند کے علاوہ اس واقعہ کی مذمت ہراُس شخص نے کی جس کے اندرضمیر نام کی کوئی چیزموجودتھی۔ رسانہ گائوں کے سانجی رام نے یہ فعل انجام دینے کیلئے جس متبرک مقام کاانتخاب کرکے معصوم کی عزت کوتارتارکروایا اُسے سن کرانسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس درندے کا اپنے بچائومیں ہندوایکتامنچ کاقیام عمل میں لانا اور اُس کے جلسے میں ہندوستان کے قومی جھنڈے کااستعمال کرنادنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کے منہ پر بدنماداغ بھی ہے جسے لاکھ چاہنے کے باوجود اب دھویانہیں جاسکتاہے ۔واقعہ کومذہبی رنگ دینااورپھرچندشرپسندوں کاسانجی رام کے حق میں کھڑا ہونادوسری شرمناک حرکت ہے ۔کرائم برانچ کی دیانتداری ،ایمانداری اورجانفشانی کی داددینی پڑتی ہے جس نے اس کیس کوٹھنڈے بستے میںجانے سے بچالیاورنہ دیکھاجائے تو جس طرح سے اس کیس پرسیاست ہورہی تھی اُسے دیکھ کریہ کہناپڑتاہے کہ یہ لرزہ خیزداستان داستان ہی بن کررہ جاتی ۔اگرکرائم برانچ نے کسی بھی دبائو میں آکرکام کیاہوتا ۔اس لرزہ خیزداستان کی مذمت ہراُس ذی حس شخص نے کی جس نے یہ قیامت خیزداستان سنی ۔یہی وجہ ہے کہ کشمیرسے لے کرکنیاکماری تک عوام نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج بلند کیں لیکن گوجربکروال قبیلے کے سیاسی رہنمائوں کی ایک بات سمجھ سے بالاترہے کہ انہوں نے اس کیس میں خاموشی اختیارکرکے نہ صرف گوجربکروال طبقے میں کئی طرح کے وسوسوں کوجنم دیا بلکہ عام لوگ بھی اب یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ ان رہنمائوں نے اس درندگی پر کیوں مجرمانہ خاموشی اختیارکی۔ چاہے وہ اپوزیشن سے وابستہ گجرسیاسی رہنماہوں یاحکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈر۔اس کیس میں ان کا رول صفرہی رہا۔ موجودہ اسمبلی میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے ممبران کی تعداد8کے قریب ہے جس میں دوایم ایل اے کابینہ درجہ کے وزیر ہیں۔اس کے علاوہ دودرجن سے زیادہ گجررہنمائوں کی تعدادایسی ہے جوسابقہ وزیر یاسابقہ ایم ایل اے یا ایم ایل سی رہ چکے ہیں۔ ان میں بعض کا تعلق حکمران جماعت کے دونوں دھڑوں سے کافی قریبی ہے۔ ابتدا میں جب رسانہ میں یہ شرمناک واقعہ پیش آیا توکسی بھی گجر رہنمانے لواحقین سے اظہار افسوس جتانے کے لیے رسانہ گائوں جانے کی تکلیف ہی گوارہ نہیں کی۔گوجرسماجی کارکنان چودھری طالب اورچودھری نزاکت کھٹانہ نے جب اس شرمناک واقعہ پروائویلامچایا تویہ خبراخبارات کی شہ سرخی بننے لگی اوراس واقعہ پر جب اخبارات نے زیادہ تحریرکرناشروع کیا توریاستی کابینہ کے وزیرچودھری ذوالفقاراورعبدالغنی کوہلی ابتداء میں تعزیت پرسی کے لیے اس بچی کے اہل خانہ سے ملنے رسانہ گائوں چلے گئے۔بعدمیں چودھری ذوالفقارنے بچی کے لواحقین کی ملاقات وزیراعلیٰ سے کروائی۔ وزیراعلیٰ نے لواحقین کومتاثرہ کنبے کوانصاف دلانے کایقین دلواتے ہوئے اس کیس کی تفتیش کرائم برانچ کی ایک خصوصی ٹیم کوسونپی۔اس کے بعدچودھری ذوالفقاراورعبدالغنی کوہلی پردے سے غائب ہوگئے ،ان کی آواز بھی سنائی نہیں دی ۔انہوں نے نہ توکسی قسم کااحتجاج کیا اور نہ ہی حکومت پر اس طرح کادبائوبنایاجسے کم ازکم میں یہاں مثال کے طورپرپیش کرتا۔حالانکہ دونوں لیڈران اپنے اپنے حلقے سے گجر ووٹوں کی ایک کثیرتعدادسے ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی حال اُن ممبران اسمبلی کابھی رہا جونیشنل کانفرنس اورکانگریس سے وابستہ ہیں۔ ان ممبران میں میاںالطاف احمد ،جناب اعجازخان، چودھری اکرم، چودھری قمر،جاویدرانا،ممتازخان وغیرہ کے اسمائے گرامی اس لیے قابل ذکر ہیںکیوں کہ انہیں اسمبلی تک پہنچانے میں گوجرووٹوں کاایک بہت بڑاہاتھ رہاہے ۔اسمبلی کے انتخابات میںیہ تمام لیڈرسوسائٹی کوگجر،پہاڑی کے نام پربانٹنے کاموجب توبن جاتے ہیں لیکن جب اس طبقے کی فلاح وبہبوداورمسائل کامسئلہ ہوتاہے تو یہ رہنماچپ سادھنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہی ۔الیکشن کے دورمیں ان گوجررہنمائوں کوگوجروں کی تہذیب ،زبان ان پرہورہی زیادتیاں تویادآتی ہیں اوران باتوں کوالیکشن کامدعا بناکراپنااُلوسیدھا توکرتے ہیں لیکن غریب گجرآج بھی وہیں ہے جہاں وہ آج سے ستربرس پہلے تھا ۔ا ن موقعہ پرست گوجررہنمائوں نے اپنے اوراپنے بچوں کے لیے غیرقانونی طورپردولت کے انبار توکھڑے کرلئے ہیں لیکن معصوم آصفہ کے شرمناک واقعہ پر جومجرمانہ کرداران رہنمائوں نے ادا کیاوہ کئی طرح کے سوالات کھڑے کردیتاہے ۔اگرپوری دنیااس شرمناک واقعہ پرماتم پرستی کرسکتی ہے توکیاوجہ ہے کہ گوجرقوم کے یہ رہنمااس درندگی پرچپ ہی سادھ لیتے ہیں۔ اگرا س واقعہ کوان رہنمائوں کے رحم وکرم پرچھوڑا گیاہوتاتو عین ممکن ہے کہ یہ رہنمااس واقعہ کوبھی بیچ ڈالتے۔ گجرلیڈروں کی اس حرکت نے یہ ثابت کردیاہے کہ ان کے سینے میں اپنی قوم کے لیے دل بالکل بھی نہیں دھڑکتاہے وہ ان کا استحصال صرف اورصرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہی کرتے ہیں ۔ایسے نام نہاداورخودغرض لیڈروں سے خبرداررہنے کی مستقبل میں بے حدضرورت ہے ورنہ یہ لیڈراس قوم کامزیداستحصال کرکے اپنے ذاتی خزانوں کومزید بھرکراس قوم کی جہالت،پسماندگی ،غربت اور بے روزگاری میں مزیداضافے کاسبب بھی بنیں گے ۔یہی نہیں زبان ،رسم ورواج ،کلچراورتہذیب کاراگ الاپ کر یہ رہنماووٹ توحاصل کرلیں گے لیکن گجرقوم کی خوشحالی کے لیے یہ رہنما کسی بھی قسم کی جنگ لڑنے کوتیارنہیں ہیں۔ کیوں کہ انہیں یہ بات معلوم ہے کہ قوم اگرخوشحال ہوجائے تو وہ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے میں ناکامیاب رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ گجرطبقے کی جہالت ان کے مزاج کوسوٹ کرتی ہے ایساہونے سے وہ اپنی روٹیاں آسانی سے سینک سکیں گے۔ آصفہ عصمت ریزی کے کیس میں گجرقوم کے بعض پڑھے لکھے طلباء کو ان کی اس مکاری کاکسی حدتک پتہ چل چکاہے اسی لیے طلباکایہ طبقہ گجرسیاست دانوں سے اس کیس پر چپ رہنے کی وجہ باربارپوچھ رہاہے ۔ طلباء کایہ طبقہ آج اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ ان کے رہنماان کااستحصال کرکے اپنی بڑی بڑی دکانیں توچمکاتے ہیں لیکن جب انہیں ان لیڈران کی ضرورت ہوتی ہے تووہ اس طرح غائب ہوجاتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ان رہنمائوں کی چُپ کی پالیسی اس پچھڑی قوم کے لیے نقصان کاسبب ہی بنتی ہے۔رسانہ عصمت ریزی اورقتل میں اگرگوجرطبقے کے یہ تمام لیڈر پہلے سے ہی ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکراحتجاج کرتے تویقینا حالات یہ رُخ اختیارنہ کرتے ۔آج کیس کوجومذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے وہ شرپسندعناصر شاید آج سرنہ اُٹھاپاتے اگرگوجراوربکروال لیڈران میں آپسی اتحاد نام کی کوئی چیز موجودہوتی ۔