راہل کی یاترا فرقہ پرستوں کی بوکھلاہٹ میں اضافہ کا باعث

0
0

کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو' - Lazawal

محمد اعظم شاہد(بنگلور)

آر۔ایس۔ایس کی بنیادی فکر کے مطابق بی جے پی اپنے خفیہ ایجنڈے کو عملی طور پر ملک میں مسلط کرنے کی کوششوں میں روز اوّل ہی سے مصروف کار ہے۔پورے ملک پر ایک ہی پارٹی کی حکومت،ایک قائد،ایک دھرم، ایک زبان،ایک تہذیب کے چلن کو آہستہ آہستہ بتدریج عام کرنے نئے نئے فتنے آئے دن آزمائے جاتے رہے ہیں۔ آر۔ایس۔ایس نے اپنی اولاد بی جے پی کو ہدایت دی ہے کہ ملک میں کانگریس کا صفایا کردیا جائے۔ اسی لیے بی جے پی اپنے منصوبوں کا کئی بار اعلان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ کانگریس مکت بھارت چاہتی ہے،اور کانگریس کا فیملی رول(اقربا پروری) پر مسلسل تنقید کرتی رہتی ہے۔2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مایوس کن نتائج پر بھی سیاسی لن ترانیاں ہوتی رہیں۔پھر کانگریس پارٹی کے اندورنی خلفشار کو لے کر بھی راہل گاندھی کو Underestimateکرتے ہوئیانہیں ناتجربہ کار کہا گیا۔اور جانے کیا کیا کچھ۔بہرحال کانگریس مضبوط اپوزیشن کے زمرے میں نہ رکھتے ہوئے یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ پارٹی ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔مگر کامیاب اپوزیشن کی طرح کانگریس نے اپنی کارکردگی سے کیا ثابت کیا ہے نہیںیہ الگ معاملہ ہے۔اتنا توضرور ہوتا رہا ہے کہ سونیا گاندھی،پرینکا گاندھی اور راہل نے مسلسل بی جے پی حکومت کے ایک طرفہ طرز حکومت کی خامیوں کو عوام کے روبرو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔ ملک کے مسائل سے بی جے پی اور بالخصوص مودی کی بے نیازی اور چشم پوشی کو بے نقاب کرنے میں متحرک کانگریس ہی ان دنوں واحد اپوزیشن پارٹی ہے۔ کبھی ممتا بنرجی،کبھی اسٹالن،کبھی نتیش کمار اور کبھی کبھی اکھلیش یادواور لالو پرساد یادو مودی کی آمرانہ Dectetorialطرز حکومت پر بے باک طور پر بیانات دیتے آئے ہیں۔الگ الگ وقتوں میں اپوزیشن کے اتحاد کی باتیں ہوتی رہی ہیں، مگر ٹھوس اقدامات ابھی تک ہونے سے رہے ہیں۔بی جے پی اپوزیشن کے عدم اتحاد کا فائدہ بٹورتی رہی ہے۔ملک میں کثرت سے ہرخاص و عام کو مذہب کے نام پر اپنا ہم نوا بنانے والی بی جے پی نے کانگریس کے خلاف اپنا محاذ کھول رکھا ہے۔آئے دن بے سر و پیر کی باتیں یہ اڑاتی رہتی ہے۔بی جے پی کاپالتومیڈیا اور اس کا آئی ٹی سیل دن رات کانگریس کو بدنام کرنے میں مصروف رہتا ہے۔بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہل گاندھی کے ساتھ لوگوں کا ہجوم ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ہر عمر کے لوگ راہل سے یاترا کے دوران والہانہ طور پر مل رہے ہیں۔کئی لڑکیاں بھی ان میں شامل ہیں۔جو اسکول اور کالج کی طالبہ ہیں، جو گرم جوشی سے راہل کا استقبال کرتی نظر آرہی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر یہ منظر دیکھے جارہے ہیں۔ راہل ہر ایک ملنیوالے سے تپاک سے مل رہے ہیں۔ ملنے والوںکے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر،ان کا حسن سلوک دیکھ کر، بی جے پی کے پیٹ میں درد ہونے لگا ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کی خواتین اور پارٹی ترجمان نے بے ہودہ الزامات لگانے شروع کیے ہیں کہ راہل گاندھی لڑکیوں پر جھپٹ پڑتے ہیں۔اس نیچ ذہنیت کا کیا ماتم کریں۔ کیچڑ میں رہنے والوں کو ہر چیز گندی لگتی ہے۔ راہل کی بھارت جوڑو یاترا سے بی جے پی واضح طور پر بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔اس لیے امیت شاہ کو بھی راہل کا ٹی شرٹ یا پھر شوز پر بیان دینا پڑرہا ہے۔اس پارٹی کے بڑے چھوٹے تمام لیڈروںکو اب صرف ایک ہی ایجنڈا ہاتھ لگ گیا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کو کسی نہ کسی طرح آڑیہاتھوں لیں۔ اس یاترا پر طنز کرتے ہوئے بی جے پی حامی کہنے لگے ہیں پہلے”کانگریس جوڑو،پھر بھارت جوڑو ”کے بارے میں سوچنا۔اب کون سی سیاسی پارٹی دودھ کی دھلی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنی کم ستم ہے۔ اگر کوئی پارٹی جنتا جناردھن کا کلیان نہ کرے تو نہ کرے مگر ان کی زندگی میں نئی الجھیں پیدا نہ کرے۔بھارت جوڑو یاترا کے کیا نتائج سامنے آئیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔مگر اتنا تو ضرور ہے کہ کانگریس اب اس یاترا کیحوالے سے مسلسل سوشیل میڈیا اور خبروں کی سرخیوں میں ہے۔اور یاترا کے اختتام تک رہے گی۔ کانگریس کی یہ حکمت عملی منصوبہ بند طریقے سے کی گئی ہے کہ بھارت واسیوں میں اس قدیم سیاسی پارٹی کی ساکھ کو بحال کرنے اس نوعیت کی یاترا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مہاتما گاندھی کی بھارت چھوڑوتحریک ہماری تاریخی حصول آزادی کا حصہ رہی ہے۔اسی طرح لال کرشن اڈوانی کی ”رتھ یاترا” اداکار سیاست دان سنیل دت کی بھارت جوڑو یاترا اور ممبئی سے پنجاب کی یاترا، سابق وزیر اعظم چندرشیکھر کی بھارت یاترا کی طرح راہل گاندھی کی یاترا طویل بھارت جوڑو یاتراکے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے چند برسوں سے ملک کی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔اسکول و کالج میں نصابی کتابوں میں جمہوری اقدار اور ملک کی تکثیریت کے پہلو حذف کرکے مذہبی منافرت اور انتشار عام کرنے کا مواد نوخیز نوخیزذہنوں پر بھرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔بھارت جوڑو یاترا ایک بار پھر ملک کے سلگتے مسائل سے عوام کو روبرو کرارہی ہے۔جس ٹھاٹ باٹ سے مرکز اور چند ریاستوں میں فرقہ پرستی کو گلے لگا کر حکومت چلائی جارہی ہے وہ سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ اور ان کی انفرادی ترقی کے لیے کارگر ثابت ہورہی ہے۔عام آدمی آج جتنا پریشان ہے شاید ہی کبھی اس نے اتنے برے دن دیکھے ہوںگے۔ ”اچھے دن” اب محض ایک مضحکہ خیز جملے کے آگیاور کچھ نہیں رہ گیا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا