بینام گیلانی
فی زمانہ اس ناچیز کے ہم دست ایک ایسی کتاب ہے جس کی وجہ تخلیق و ترتیب کی آگہی سے سنگ دل انسان بھی نم دیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔مذکورہ کتاب کا عنوان "ذکر تیرا بعد تیرے”ہے۔در اصل یہ کتاب ایک غمزدہ والدین کی اپنی یکلوتی جواں سال اور ہونہار اولاد کی حادثاتی موت پر گرے ہوئے ان گرم آنسوئوں سے لکھی لکھائی گئی تحریروں کا وہ مجموعہ ہے جس کا مطالعہ کسی تڑپتے دل اور بلکتے لبوں کی تسکین کا باعث ہو سکتا ہے۔لخت لخت آنسو کی حرارت اس میں واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ کتاب آپ کے ذریعہ اپنی فوت شدا اولاد کو قلوب عام میں تا دیر زندہ رکھنے کی ایک مخلصانہ و گراں قدر کوشش ہے جسے اللہ رب العزت قبول فرمائے امین۔
بات یوں ہے کہ معروف اہل قلم جناب محمد خورشید اکرم سوز جو بحیثیت شاعر و مضمون نگار بزم شعر و ادب میں اپنی ایک مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔اپ کا تعلق ایک ذی علم خانوادہ سے ہے۔ڈاکٹر نزہت جہاں قیصر(آپ کی اہلیہ) اپنی عزیز ترین متوفی یکلوتے فرزند ارجمند کے سوانحی خاکہ میں کچھ اس طرح رقم فرما ہیں۔
"والد خورشید اکرم سوز پیشہ سے Mining Engineer ہیں۔اور Western coalfieldLimitedکیcoal Mine میں ملازم ہیں۔مزاج ادبی اور مزہبی ہے۔شاعری میں حضرت مشیر جھنجھانوی سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ایک شعری مجموعہ ‘سوز دل’شائع ہو چکا ہے۔
والد محمد خورشید اکرم کے علاوہ خاندان کے زیادہ تر لوگ درس و تدریس سے منسلک رہے ہیں۔دادا جان شیخ الحدیث مولانا عبد الصمد گورنمنٹ آف بہار کے مشہور دینی ادارہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں وائس پرنسپل تھے۔سروس کے آخری سالوں میں انہوں نے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ کے فرائض بھی انجام دئے۔۔وہ مجاہد آزادی بھی تھے۔۔دادا جان کے بڑے بھائی مولانا حافظ عبد الرحمٰن شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ کے خلفائ میں تھے اور مجاہد آزادی بھی تھے۔۔پٹنہ میں ریشمی رومال تحریک کا مرکز ان کا مکان تھا۔
والدہ سیدہ نزہت جہاں قیصر مگدھ یونیورسیٹی سے گریجویٹ ہیں۔نانا جان شیخ نثار احمد کسٹمز اینڈ ایکسائز ڈپارٹمنٹ میں کلاس ون آفیسر تھے۔ایک ماموں سید وقار احمد قیصر،راج شاہی یونیورسیٹی ،بنگلہ دیش میں فزکس کے پروفیسر تھے۔ایک اور ماموں سید ذوالفقار احمد قیصر محمد جان ہائی اسکول کلکتہ میں لائف سائنس کے ٹیچر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔”
متذکرہ بالا تحریر سے آپ کی خاندانی علمیت پر تو روشنی پڑتی ہی ہے۔اپ کے معاشرتی اقدار کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔حالانکہ ناچیز پدرم سلطان بود کا قائل نہیں ہے لیکن خاندانی اقدار سے تو معاشرے میں انسانوں کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہی ہے ۔پھر اگر اس اعلیٰ قدر خاندان سے تعلق رکھنے والے خاندان کے افراد نے بی خود کو ہر قسم سے سنوار کر معاشرے میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے تو یہ سونے پر سہاگہ کی مانند ہی ہوتا ہے۔ایک جانب جناب خورشید اکرم سوز صاحب نے بطور ایک کامیاب انجینیر کے معاشرے میں اپنا مخصوص مقام حاصل کیا ہے تو دوسری جانب آپ نے اپنے ادبی ذوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے شعر و ادب تخلیق کر کے متاع شعر و ادب کے ذخیرے میں اضافہ کا باعث ثابت ہوئے ہیں۔اپنی اس صفت کے باعث آپ دنیا میں تادیر یاد کئے جاتے رہیں گے۔
اب کچھ ذکر خیر آپ کے نیک و صالح اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فرزند ارجمند کا بھی ہو تو بہتر ہے جسے قدرت کے زشت ہاتھوں نے ایک حادثہ میں آپ سے چھین لیا۔ایک باپ کے لئے اس سے دل شکن اور صبر آزما امر کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے نحیف کاندھے پر اس کی جواں سال اولاد کا جنازہ جائے۔انا لللہ و ان الیہ راجعون۔اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور آخرت میں بلند سے بلند مقام عطا کرے آمین۔
والدہ سیدہ نصرت جہاں اس جواں سال و ہونہار و صالح نوجوان کے تعلق سے کچھ اس طرح رقم فرما ہیں۔
"نام محمد شکیب اکرم ولدیت، محمد خورشید اکرم متخلص سوز، والدہ سیدہ نزہت جہاں قیصر عرف لاڈلی،تاریخ پیدائش 28مئی 1998 ،جائے پیدائش مرزا دھنباد۔تعلیم 2016 میںہائر سیکنڈریMount Carmel Hs school, cement Nagar(Chandra pur),BSR crescent institute of science and technology,computer science and engineering میں 2020سےchennai میں فرسٹ کلاس ڈسٹنکشن کے ساتھ B.Tech کیا۔اردو اور بنیادی مذہبی تعلیم والدہ سیدہ نزہت جہاں قیصر نے گھر میں ہی دی۔Accenture solutions Bengaluru میں دسمبر 2020میںAssociate software Engineer کی حیثیت سے ملازمت کی۔۔شکیب اکرم کو کیلی گرافی میں خصوصی دلچسپی تھی۔(یونیورسیٹی کیلی گرافی میں بہترین کیلی گرافی کے لئے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا).مختلف کھیل کود بالخصوص بیڈ منٹن ،کرکٹ اور فٹ بال میں دلچسپی۔ مختلف ادبی اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرنا بھی شغل میں شامل تھا۔پسندیدہ اسکالر/رائٹر مولانا وحید الدین خان اور ابن شرما تھے۔”
شکیب اکرم کے سانحہئ ارتحال کے سلسلے میں موصوف مغفور کی والدہ ماجدہ یوں رقمطراز ہیں۔
"گزشتہ 19فروری 2021 کو محمد شکیب اکرم مدراس میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہو گئے۔وہ اپنے ایک پروفیسر کے ہمراہ بائک پر کہیں جا رہے تھے کہ اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بس نے پیچھے سے ٹکر مار دی ،دونوں زمین پر گر پڑے۔بائک ان کے پروفیسر چلا رہے تھے۔۔دونوں کو Internal Head Injury ہوئی اور دونوں کو بیہوشی کی حالت میں اپولو ہاسپیٹل میں ایڈ میٹ کیا گیا۔26 مارچ کو شکیب کو ٹرین ایمبولینس سروس کے ذریعہ مزید علاج کے لئے کلکتہ کے Institute of Neuro science لے جایا گیا ،لیکن 27 مارچ کی شب کو تقریبآ ساڑھے گیارہ بجے وہاں پہنچتے ہی وہ محض 23 سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔”
زندگی کے اسرار و رموز کی فہم اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔عمومی طور پر یہ ناممکن ہی نظر آتا ہے کیونکہ یہ ہی اسرار و رموز حقیقت ہیں۔چونکہ اس کا تعلق راست طور پر حقیقت سے ہے اور حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ نہ کوئی کر سکا اور نہ ہی کر سکتا ہے۔ اکابرین جن میں اولیائ اللہ بھی گزرے ہیں،ماہرین فلسفہ و منطق بھی گزر چکے ہیں،مفکرین و مدبرین بھی گزر چکے ہیں۔لیکن زندگی اور حقیقت کے مکمل فہم و فہمائش سے قاصر ہی رہے۔اکثر لوگ زندگی کو بس سانسوں کی ڈور سے رکھتے ہیں اور حقیقت کو محض خالق تخلیق کائنات تک ہی محدود کر دیتے ہیں۔لیکن
حق تو یہ ہے کہ حق پتہ نہ چلا
کتب خانے کھنگال رکھے ہیں
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زندگی تغیر پسند ہے اور یہ پل پل کروٹ بدلتی رہتی ہے۔اس کا مزاج لمحہ لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔زندگی پر آشوب بھی ہے اور پر سکون بھی۔اب یہ مقدر کی بات ہے کہ کس کے حق میں کب کیا آتا ہے۔ویسے اس امر کا اعتراف ہی نہیں کامل یقین ہے کہ اس زندگی میں دیر پا کچھ بھی نہیں ہے۔خود زندگی ایک غیر مستحکم اور غیر مستقل شئے ہے۔جو قطعاً قابل یقین نہیں ہے۔پھر ایک جانب فکر معاش انسانوں کو پریشانیوں میں مبتلا کئے رکھتی ہے تو دوسری جانب حادثات و سانحات کے اندیشے بشر کو داخلی طور پر ہمہ اوقات خوفزدہ رکھے رہتے ہیں۔دکھ درد،رنج و الم کا سلسلہ بھی اسی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ان سے دنیا کا کوئی بھی بشر نہ محفوظ رہ سکا ہے اور نہ ہی کبھی رہ سکے گا ،وہ خواہ انبیائ ہوں،اصحاب کرام ہوں،ولی اللہ ہوں یا عام انسان۔اگر حیات انسانی میں یہ تغیرات رونما نہیں ہوتے تو یقین جانئے زندگی نہ صرف اپنی اہمیت کھو دیتی بلکہ معنویت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی۔شاید یہی سبب ہے کہ ناچیز نے اسے اسرار کا لفظی جامہ دیا ہے۔حضرت انسان کو یہ تو علم ہے کہ جب زندگی ملی ہے تو موت بھی یقیناً ملیگی۔کیونکہ ان دونوں کا باہمی طور پر چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ بھی بلا تردید حقیقت ہے کہ ہر بشر کو موت کا انتظار زندگی کی پہلی ہی گھڑی سے شروع ہو جاتا ہے خواہ وہ ہوش میں ہو یا نہ ہو۔ صاحب فہم ہو یا نہ ہو۔یہ انتظار مسلسل جاری رہتا ہے۔اسی لئے تو کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
اور برج نارائن چکبست نے زندگی کا تعارف کچھ اس طرح پیش کیا ہے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
ندا فاضلہ نے بھی اس تعلق سے کیا خوب کہا ہے،
دھوپ سے نکلو گھٹائوں میں نہاکر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
الغرض جتنے صاحبان فکر و فہم ہیں سبھوں نے زندگی کو اپنے اپنے طریقے و انداز سے سمجھنے کی سعء بلیغ فرمائی ہیں۔لیکن ان میں کوئی بھی اس امر کا مدعی نہیں ہے کہ انہوں نے زنگی کے اسرار و رموز کو کامل طور پر سمجھ لیا ہے۔
ناچیز نہ کوئی فلسفی ہے اور نہ ہی ماہر منطق۔بس قارئین کرام کی مانند ایک عام انسان ہے۔جسے خدائے عز و جل نے کچھ فہم و فراست سے نوازا ہے۔جس طرح کروڑوں ہی نہیں اربوں انسانوں کو نوازا ہے۔احقر سے کوء ہھی ایسی امید نہ لگا لے کہ یہ کوئی بڑی یا عمیق بات کہنے جا رہا ہے۔بات بس اتنی ہے کہ یہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ موت کا وقت متعین ہے اور ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔اب یہی موت کا متعین وقت سر نہاں ہے۔۔موت کب ائیگی،کیسے آئیگی اور کن حالات میں ائیگی۔یہ اسرار کبھی کبھی انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔عین اسی طرح جیسے اس کتاب کے اہم موضوع محمد شکیب اکرم بن محمد خورشید اکرم سوز کی حادثاتی موت پیش ائی۔جواں سالی کا عالم جب اس کے کچھ کر گزرنے کے دن تھے،وہ کر گزرنے کی راہیں بھی ہموار کر چکا تھا۔سوئے منزل بڑی ہی برق رفتاری سے رواں دواں تھا کہ دفعتاً موت نے اس کی رفتار کو مدھم ہی نہیں کیا بلکہ اس پر قدغن لگا دیا۔وہ ایک موٹر سائکل سفر کے دوران حادثے کا شکار ہو گیا۔پھر زخموں کی تاب نہ لاکر اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔اسے قدرت کی ستم ظریفی ہی کہی جائے کہ جواں سال یکلوتی اولاد کا جنازہ بوڑھے باپ کے کاندھے پر اٹھا۔بلا شبہ یہ جو خورشید اکرم سوز اور آپ کی اہلیہ محترمہ نزہت جہاں قیصر پر ناگہانی رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ان حالات میں انسان داخلی و خارجی دونوں ہی طرح سے ٹوٹ جاتا ہے۔ایسا ٹوٹتا ہے کہ پھر تاحیات خود کو سمیٹ نہیں پاتا ہے۔ لیکن ناچیز ان دونوں زن و شو کے عزم و حوصلے کی داد دیتا ہے کہ آپ دونوں نے غم اولاد کو دل کا ناسور نہی ہونے دیا۔بلکہ منفی حالات کو مثبت سانچے میں ڈھال کر اولاد کی یادوں کو ابدیت عطا کر دی۔شکیب اکرم کی یادوں کو اور ان کے تئیں دیگر اہل قلم کے تاثرات کو ایک کتاب بہ عنوان”ذکر تیرا بعد تیرے ”میں سنجو کر لافانی بنا دیا۔اس سے خورشید اکرم سوز اور نزہت جہاں قیصر کی اپنی اولاد سے والہانہ محبت کا اظہار تو ہوتا ہی ہے اس کے باہم اسی بہانے شعر و ادب کی عظیم خدمت بھی آپ دونوں نے فرمائیں۔اللہ آپ دونوں کو اس مخلصانہ عمل کی جزائے خیر دے اور جس شخصیت کی یاد میں یہ کتاب ترتیب پائی ہے اسے بھی اتنی ساری دعائیوں کا اجر عظیم آخرت میں عطا فرمائے امین۔یہ اس مرحوم شکیب اکرم کی خوش نصیب ہے کہ ان کی آخرت کی بھلائی کے لئے بیک وقت کتنے ہی ہاتھ اٹھے ان دعا کرنے والوں میں۔ ولی اللہ بھی ہیں۔عابد و ساجد بھی ہیں،صوفی ذاکر بھی ہیں،حاجی و شاکر بھی ہیں اور نہ معلوم کیسی کیسی قربت الہی رکھنے والی برگزیدہ شخصیات ہیں۔
یہ واقعی حیرت انگیز امر ہے کہ یہ تعزیتی کتاب”ذکر تیرا بعد تیرے”کل چھ ابواب پر مشتمل ہے۔اس کے مشمولات میں کل 33مضامین ،حمد و نعت کے علاؤہ کل 61 منظومات،15تعزیتی رباعیات ،11تعزیتی خطوط ،کل 30 تاثراتی خطوط جن میں چھ تاثراتی خطوط بہ زبان انگریزی ہیں۔بلا شبہ اس کتاب کو ترتیب دے کر خورشید اکرم سوز نے ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے جو آخرت میں نجات کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔اب ذیل میں ناچیز چند بلند قد آور صاحبان دل اہل قلم کی کچھ عبارات تبرکاً نقل کرتا ہے۔
"ایک دل سوز آواز کانوں میں گونجی۔اس آواز سے رشتہ تو پرانا تھا۔مگر پہچاننے میں تھوڑی دقت ہوئی۔تھوڑی دیر بعد نام کا پتہ چلا تو وہ سارے پل یاد اگئے۔جو اس آواز کے ساتھ گزرے تھے۔مدتوں بعد یہ آواز ایسی تھی جس میں تھوڑی لرزش بھی تھی ،کپکپاہٹ بھی،درد بھی اور وہ کرب بھی جس سے میں کچھ عرصہ قبل ہی گزرا تھا۔وہ اپنے بیٹے کے بچھڑنے کی داستان سنانے لگے۔میرے کانوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ میں پوری داستان سن پاتا۔مگر ایک غمزدہ باپ کی حکایت سنے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔اواز کے زیر و بم سے میں ان کی اندرونی کیفیت سمجھ رہا تھا۔مجھے محسوس ہوا کہ ان پر جو قیامت گزری ہے اور درد کے جس ردیا کو انہوں نے پار کیا ہے اس کی تسلی کے لئے میرے پاس شاید ایک لفظ بھی نہیں۔وہ بیان کرتے جا رہے تھے۔اور میرے سینے میں درد کی ایک پرانی آگ بھڑکتی جا رہی تھی۔میں اسی سوچ میں گم ہو گیا کہ وہ اس قیامت کے لمحے سے کیسے گزرے ہوں گے۔ان کے دل کی دنیا تو اجڑ چکی ہے اور ان کی ساری آرزوئیں ،خواہشیں اور خواب خاک ہو چکے ہیں۔مگر قدرت نے انہیں صبر جمیل کی عظیم قوت عطا کی ہے۔اس لئے بار بار یہی کہتے رہے کہ شاید خدا کو یہی منظور تھا۔صبر یعقوب یاد آگیا۔وہ اپنے بیٹے یوسف کی یاد میں اتنا روئے تھے کہ ان کی آنکھیں کھول گئیں۔شاید حضرت یعقوب جیسے کرب سے ان کو بھی گزرنا پڑا۔میں ان کو تسلی کا ایک لفظ بھی نہیں کہ سکا۔وہ خود ہی داستان غم سناتے ہوئے اپنے کو تسلی بھی دیتے رہے۔میرے لئے واقعی یہ کربناک لمحہ تھا۔۔۔۔۔۔۔”
حقانی القاسمی
"بچے اپنے والدین کے جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں ،اور غور کیجئے کہ جس انسان کا ایک ہی بچہ ہو اس کا کیا عالم ہوتا ہوگا۔ان کی خوسیوں،ارزوئوں،تمنائوں،امیدوں اور خوابوں کا بس ایک ہی مرکز ہوتا ہے۔اس کی جدائی کا وہ بھی دائمی جدائی جدائی کا تصور کر کے بھی دل شق ہو جاتا ہے۔یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے جسے دنیا کی کسی بھی زبان کے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔اسے صرف اور صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔وہ بھی تب جب سینے میں ایک زندہ،حساس اور محبت و شفقت سے لبریز دل ہو۔اج جس کرب کا متناہی اور درد بیکراں سے محمد خورشید اکرم سوز اور ان کی بیگم نزہت جہاں قیصر اپنے اکلوتے بیٹے محمد شکیب اکرم کی حادثاتی موت سے گزرے ہیں ان کا اندازہ لگانا بھی محال ہے۔”
ڈاکٹر حافظ سید امجد حسین کرناٹکی
سانولا سا وہ لڑکا جیسے کہ میرے پاس سے ابھی آٹھ کر گیا ہو بھری سا بدن،جھکی جھکی سی پلکیں،گہری آنکھیں ،لہجہ میں ٹھہرائو اور بردباری۔اس عمر میں ایسی باتیں کہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ عمر تو کھلنڈرے پن کی ہوتی ہے۔ابھی فورآ ہی تو اس کا انجینیرنگ مکمل ہوا تھا۔ابھی فورآ ہی تو اس کا کانووکیشن ہوا تھا۔ہاں کیمپس سلیکشن ہو گیا تھا۔باپ نے جا کر رہنے سہنے کا معاملہ بھی دیکھ لیا تھا۔کچھ دن بعد نوکری جوائن کرنی تھی۔اس عمر کے بچے تو گویا زندگی جینا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔لیکن ایسا لگتا تھا کہ اسے کم وقت میں بہت کچھ کرنا تھا۔اسی لئے تو اس نے ماں کی کوکھ میں بھی زیادہ قیام نہیں کیا اور نو مہینوں کے بجائے سات مہینوں میں ہی اس عالم رنگ و بو میں داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
راشد احمد
متذکرہ بالا عبارات کا بیانیہ یوں تو افسانوی نظر آتا ہے۔لیکن تاثراتی طور پر یہ عبارات دل کو چھید دینے والی محسوس ہوتی ہیں۔حقائق پر مبنی اور غمناک یہ عبارات صاحبان عبارات سے مرحوم شکیب اکرم سے قلبی لگاؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے اور خورشید اکرم سوز سے ان کے تعلقات کا آئینہ بھی۔الغرض مذکورہ کتاب اہل ادب اور اہل دل انسانوں کے لئے کافی افادی ہے۔اس کے باہم یہ ایک سنگ میل بھی ہے ،یہ راہ سفر بھی ہے اور زاد سفر بھی۔