دیہی علاقوں میں لاپرواہ ڈرائیونگ حادثات کا سبب بن سکتی ہے

0
0

صاحبہ کوثر
پونچھ، جموں

پبلک ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف لوگوں کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا ذریعہ ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم، ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اور ان میں سے ایک بڑا مسئلہ لاپرواہ ڈرائیوروں کابھی ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ گھنٹوں کا سفر دنوں میں کرتے تھے جبکہ دورِ حاضر میں دنوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کیا جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا پوری دنیا میں عام معمول ہے جس کے لئے جدید و آرام دہ بسیں چلائی جاتی ہیں اور ان بسوں کو چلانے کے لئے تجربہ کار ڈرائیور حضرات کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔جس سے امیر و غریب دونوں ہی مستفید ہوتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ صورتحال بالکل ہی الٹ ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کے خیال ہی سے عوام خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔جبکہ بیرونی ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ہرممکن پروموٹ کیا جاتا ہے۔ خطہ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کے گردونواح میں ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث خواتین و بچوں اوربزرگ افراد کو گرمی،سردی اور بارش میں گھنٹہ گھنٹہ بھر بس کا انتظار کرنے کے باوجود بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی، انہیں کھڑے کھڑے بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ڈرائیور گاڑی میں اوور لوڈنگ کرنے سے کچھ زیادہ پیسے کما لیتے ہیں لیکن وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ اس سے گاڑی کی باڈی کو بھی نقصان ہوتا ہے۔گاڑی کی باڈی ایک خاص حد تک بوجھ برداشت کر سکتی ہے اور جب بوجھ زیادہ ہو جائے تو حادثے کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

http://www.charkha.org

 

 

انسانی زندگی سے زیادہ کوئی بھی قیمتی چیز نہیں ہے۔انسان کی زندگی ختم ہو کر واپس نہیں آسکتی۔ حکومت نے ہماری حفاظت کے لئے کئی قانون بنائے ہیں۔ ایک طرف تو ٹرانسپورٹ کی قلت ہے تودوسری طرف مسافر اپنی زندگیاں داؤں پر لگا کر سفر کرتے ہیں۔ دیگر ممالک میں زیادہ مشکل کام ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا ہے کیونکہ ڈرائیوروں کے ہاتھوں میں سینکڑوں افراد کی زندگیاں ہوتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں ڈرائیور تو یہ سب سوچتے ہی نہیں، ان کی لاپرواہی سے کتنے معصوم لوگوں کی جان چلی جاتی ہے۔ پونچھ ضلع ہیڈ کواٹر سے گاؤں اور شہر جانے والی تمام گاڑیاں اوور لوڈ ہوتی ہیں۔میں خود ضلع پونچھ کے گاؤں سیڑھی خواجہ کی رہنے والی ہوں۔بچپن کی تعلیم سے لے کر کالج کی تعلیم تک مجھے بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس دوران ہمیشہ آٹوں اوور لوڈ ہو کر منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ڈرائیور، آٹوں میں جہاں آٹھ سواریوں کی جگہ ہوتی ہے وہاں پندرہ مسافروں کو بٹھالیتے ہیں اور آٹوں کے دروازے کو بھی نہیں بخشتے وہاں بھی وہ کسی نہ کسی کو بیٹھاہی دیتے ہیں۔

کبھی سواریاں کم ہو تو ڈرائیور ایک دوسرے سے پہاڑی سڑکوں پر مقابلہ کرتے ہیں اور مسافروں کی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں کئی باریہ نشے کے حالت میں ڈرائیونگ کرتے دیکھے گئے ہیں۔اسی سلسلے میں گاؤں سیڑھی خواجہ کی رہنے والی زرینہ لون نے بتایاکہ مجھے ہر روز کالج کے لئے گاؤں سے پونچھ کا سفر کرنا پڑتا ہے اورہر دن پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈرائیور گاڑیوں کی اوور لوڈنگ کے چکر میں بہت وقت لگا دیتے ہیں۔ ایک دن تو حد ہی ہوگئی، ڈرائیور نے ایک دوسری بس سے ریس لگائی، گاڑی میں بیٹھے سارے مسافر خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کی جان خطرے میں نہ پڑجائے۔یہاں تک کہ مجھے چلتی بس سے اتاردیا،جس کی وجہ سے میرے پاؤں میں چوٹ لگ گئی۔ ایک مہینے تک گھر بیٹھنا پڑا،اس دوران ہماری پڑھائی کا بھی نقصان ہوا۔ کئی اور لڑکیاں ہیں جن کو میری طرح بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ کبھی ڈرائیور گاڑی تیز چلاتے ہیں، تو کبھی چلتی بس سے سواریوں کو اتارنے اور بیٹھانے کا معمول ہے۔ جس کی وجہ سے اکثراوقات سواریاں زخمی بھی ہو جاتی ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا حصہ بسوں اور ویگنوں پر مشتمل ہے، جن کے ڈرائیور اکثر اوقات ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تیز رفتاری، غلط اوور ٹیکنگ، سگنل توڑنا اور مسافروں کے ساتھ بدتمیزی عام ہو چکی ہے۔ یہ لاپرواہی اکثر خطرناک حادثات کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ایک اور اہم مسئلہ ٹریفک قوانین کی عدم موجودگی اور ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کے پاس نہ تو مناسب تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، پولیس اور متعلقہ حکام کی جانب سے اس معاملے پر سختی کا فقدان بھی نظر آتاہے، جس کی وجہ سے ڈرائیور بغیر کسی خوف کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔حالانکہ اس تعلق سے پونچھ کے ٹریفک انسپکٹر محمد یونس کہتے ہیں کہ ہم اپنی ڈیوٹی کو اچھی طرح سے نبھا رہے ہیں۔ ڈرائیور کی غلطی پر ان کی نکیل کس رہے ہیں۔ عوام کو بھی اس مسائل پر غور کرنا چاہئے، انہیں اوور لوڈ گاڑی میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کی ریٹ لسٹ کے باوجود بھی کنڈکٹر مسافروں سے دوگنا کرایہ وصول کر لیتے ہیں۔انسپکٹر صاحب نے یہ بھی کہا کہ ان کا محکمہ ہمیشہ سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ کے استعمال کے لئے بیداری مہم چلاتا رہتا ہے۔یہ سب کرنے سے ہمارا خود کا ہی فائدہ ہے۔اس بات کا خیال ڈرائیوروں کو بھی رکھنا چاہیے۔

اس سلسلے میں پونچھ کی باشندہ شازیہ خان کہتی ہیں کہ میں ہر روز نرسیگ ٹرینگ کرنے کے لئے پونچھ سے سرنکوٹ کا سفر کرتی ہوں، بس اوور لوڈ ہوتی ہے۔ کبھی کھڑے ہو کر سرنکوٹ سے پونچھ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ آئے دن گاڑیوں کی اوور لوڈنگ سے کتنے معصوم بچوں، جوانوں، بزرگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔ یہ سب ڈرائیوروں کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔چند پیسوں کے چکروں میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کے چیزوں کی مرمت ہو سکتی ہے لیکن انسان ایک بار چلا جائے تو واپس نہیں آتا۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کی ذمہ داری صرف گاڑی چلانا نہیں ہے، بلکہ وہ مسافروں کی زندگیوں کے بھی ذمہ دار ہیں۔ ہر ایک غلطی یا لاپرواہی، درجنوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس لیے محکمہ کو چاہیے کہ وہ ڈرائیوروں کی تربیت کو بہتر بنانے اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے کے لیے کچھ اوراقدامات بھی کرے۔لاپرواہ ڈرائیوروں کا مسئلہ ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے اور فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کو محفوظ اور مؤثر بنایا جا سکے۔ حکومتی اداروں، پولیس اور عوام کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تاکہ ہم ایک محفوظ اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکیں۔(چرخہ فیچرس)

https://lazawal.com/?cat=

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا