دیہی علاقوں میںمویشی پالنا بھی آمدنی کا اہم ذریعہ بن رہا ہے

0
120

 

 

 

انجلی
بیکانیر، راجستھان

زراعت ملک کے دیہی علاقوں میں آمدنی کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ دیہی آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اس کے بعد جس کاروبار پر دیہاتی سب سے زیادہ انحصار کرتے ہیں وہ ہے مویشی پالنا۔ دیہاتیوں کی بڑی تعداد بھیڑوں، بکریوں اور پولٹری فارمنگ سے آمدنی حاصل کررہی ہے۔ جموں و کشمیر میں گوجر بکروال نام کی ایک برادری ہے جو صدیوں سے بھیڑاور بکریوں کی پرورش میں مصروف ہے۔ جموں و کشمیر کی طرح راجستھان میں بھی بڑی تعداد میں دیہاتی بھیڑ، بکری اور اونٹ پال کر آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ اگرچہ مال مویشی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن اس کی پرورش اور چارے کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔راجستھان کے بیکانیر میں لنکرنسر بلاک کے کالو گاؤں کے لوگوں کی ایک بڑی آبادی کے لیے بھی مویشی آمدنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ یہ گاؤں بلاک ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 20 کلومیٹر اور ضلع ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 92 کلومیٹر دور ہے۔
اس گاؤں کی آبادی 10334 کے لگ بھگ ہے۔ یہاں درج فہرست ذاتوں کی تعداد تقریباً 14.5 فیصد ہے۔ گاؤں میں خواندگی کی شرح تقریباً 54.7 فیصد ہے، جس میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 22.2 فیصد ہے۔ اس گاؤں میں 250 ایسے گھر ہیں جو بھیڑ بکریاں پالتے ہیں۔ ہر خاندان کے پاس کم از کم 100 بھیڑیں، بکریاں اور اونٹ ہیں۔ جبکہ کچھ خاندان ایسے ہیں جن کے پاس 400 سے بھی زائد مویشی ہیں۔ کئی بار مویشی چرانے والوں کو انہیں چرانے کے لیے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے کھیتوں میں لے جاتا ہیں تو کئی بار کھیتوں کے مالکان انھیں وہاں چرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات جب کھیتوں میں چارہ ختم ہو جاتا ہے اور بارش نہیں ہوتی ہے تو وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ دوسری جگہوں پر ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر فوج کی مشق کے لیے فائرنگ رینج کا علاقہ ہے، گاؤں والے اکثر اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے وہاں لے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ جگہ ہندوستانی فوج کے لیے مخصوص ہے، اس لیے انہیں وہاں اپنے جانور چرانے میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم گاؤں والوں کی اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے مقامی تنظیم ارمول کی جانب سے ایک سی ایف سی سنٹر (کامن فیسیلیٹی سنٹر) کھولا گیا ہے۔ یہ گاؤں کی چراگاہ ہے۔ جو 150بیگھہ اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے چاروں طرف تارے بندھی ہوئی ہیں۔ جس میں چارے کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ پانی کی فراہمی کے لیے یہاں چار تالاب بھی بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس زمین پر ایک تالاب کا بھی انتظام کیا گیا ہے جس میں بارش کے دنوں میں پانی جمع کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سنٹر میں بھیڑوں کی اون کاٹنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں مویشی چرانے والے اپنی بھیڑوں کے اون کو جدید مشینوں کے ذریعے کترتے ہیں۔ اس کے علاوہ مویشیوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے بھی انتظامات کیے گئے ہیں اور اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کے علاج کے لیے بھی مکمل انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہی نہیں اس دوران مویشی چرواہوں کے رہنے کے لیے ایک عمارت بھی بنائی گئی ہے۔
اس چراگاہ میں سالانہ کم از کم 1900 سے زائد مویشی آتے ہیں۔اس مشترکہ سہولت مرکز کی وجہ سے کالو گاؤں کے مویشی چرواہوں کا اپنے مویشی چرانے کا مسئلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ مویشیوں کو مناسب چارہ اور طبی سہولیات کی دستیابی کی وجہ سے جانور کافی صحت مند رہتے ہیں۔ اس کا فائدہ گاؤں والوں کو زیادہ آمدنی کی صورت میں ملنا شروع ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کے رہائشی منا رام نے بتایا کہ اس وقت میرے پاس 97 بھیڑیں اور 8 بکریاں ہیں۔ انہیں بیچ کر میں ایک سال میں 10,000 روپے تک کماتا ہوں ۔ اس کے علاوہ بھیڑ اور اون کی کٹائی بھی سال میں تین بار کی جاتی ہے۔ جو مختلف مہینوں میں مختلف قیمتوں پر فروخت ہوتے ہیں۔ مارچ میں بھیڑ کے بال 170 روپے فی کلو فروخت ہوتے ہیں، جولائی میں اس کی قیمت 70 سے 80 روپے فی کلو ہوتی ہے۔ تاہم نومبر اور دسمبر میں یہ 50 سے 60 روپے فی کلو فروخت ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھیڑوں سے ایک وقت میں ڈیڑھ کلو اون حاصل ہوتی ہے۔
ایک اور مویشی پالنے والے پریم کا کہنا ہے کہ میرے پاس 68 بھیڑیں اور 17 بکریاں ہیں۔ جس سے مجھے 60 سے 70 ہزار روپے سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔ جہاں بکریوں کی اون بیچ کر بھاری منافع کمایا جاتا ہے۔وہیں ان کا گوشت 350 روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے۔ پریم کا کہنا ہے کہ مجھے بکری کا دودھ بھی بیچ کر کافی منافع ہوتا ہے۔ کئی بار لوگ بیماروں کے لیے بکری کا دودھ بھی مہنگے داموں خریدنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جس کی ہمیں اچھی قیمت ملتی ہے۔ایک اور مویشی چرواہ راجو رام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 386 بھیڑیں ہیں۔ ان کے خاندان کے چار افراد سال میں آٹھ مہینے بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے گھر سے باہر جاتے ہیں۔ ان کا خاندان ان مویشیوں سے 2.5 لاکھ روپے سالانہ منافع کماتا ہے۔ تاہم انہیں یہ آمدنی حاصل کرنے میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ جب ہم ایک ساتھ اتنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ گاؤں سے ہجرت کرتے ہیں تو کئی بار سڑک پر حادثات کی وجہ سے ہماری بھیڑیں مر جاتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے ہمارے مویشیوں کا کوئی انشورنس بھی نہیں ہوتاہے۔ جس کی وجہ سے مرنے والے جانوروں کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ راستے میں چارے اور پانی کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ہوتاہے۔ بیماری کی صورت میں ان مویشیوں کے لیے کسی قسم کی ویکسینیشن کا کوئی انتظام نہیں ہوتاہے۔ جس کی وجہ سے ہم جانوروں کی مناسب قیمت حاصل نہیں کر پا تے ہیں۔ جب ہم گاؤں واپس آتے ہیں تو اتنی بھیڑیں رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طوفان اور بارشوں کے دوران کئی مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جس کے نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہے۔
تاہم گاؤں میں مشترکہ سہولت مرکز کے انتظامات کی وجہ سے مویشی پالنے والوں کو پہلے سے زیادہ سہولیا ت ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن جانوروں کی بیمہ کی کمی ان مویشی پالنے والوں کے لیے اب بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں حکومت کو ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ جس سے مویشی پالنے والوں کو تمام سہولیات کا فائدہ حاصل ہو سکے۔جس سے کہ مویشی پالنے والوں کو زیادہ سے زیادہ مویشی پالنے کی ترغیب دی جا سکے کیونکہ اس وقت زراعت کے بعد جس طرح مویشی پالنا گاؤں والوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ بنتا جا رہا ہے، اسے نہ صرف ان کے لیے بلکہ ہندوستانی معیشت کے لیے بھی ایک مثبت علامت کہا جا سکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا