دنگائیوں سے ہار گیا قانون

0
61

۰۰۰غوث سیوانی

 

 

 

 

دنگائیوں کے سامنے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے۔فسادی ،انتظامیہ پر بھاری پڑگئے ۔بھیڑ سے ملک کاقانون ہار گیا۔ فلم ’’پدماوتی‘‘کی ریلیز فی الحال ٹل گئی ہے کیونکہ ایک طبقے کا ماننا ہے کہ فلم میں سنجے لیلابھنسالی نے رانی پدماوتی کا اپمان کیا ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ فلم میں پدماوتی کے کردار کو ابھارا گیا ہے اور سلطان علاء الدین خلجی کے کردار کو ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔اس فلم کو سرکار کے قائم کردہ ادارے، فلم سنسر بورڈ نے پاس کیا تھااور سپریم کورٹ نے اس میں کسی بھی ترمیم کا حم دینے سے انکار کردیا تھامگر اس کے باوجود بعض احتجاجیوں کی دھمکیوں کے آگے گھٹنا ٹیکتے ہوئے سرکار نے اس کی ریلیز روکنے کا فیصلہ کیا اور مدھیہ پردیش واترپردیش کی سرکاروں نے تو صاف کردیا تھا کہ وہ فلم کی ریلیز پر سنیماہالوں اور ناظرین کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں۔اس سے واضح ہوگیا ہے ہمارے ملک میں سرکار اور قانون کی نہیں بھیڑ کی حکومت ہے۔ بھیڑ جو چاہے کرے، حکومت اس کے سامنے بے بس ہے، انتظامیہ لاچار ہے اور قانون اندھا، گونگا ، بہرہ ہے۔اس فلم پر اگر اعتراض کی بات تھی تو یہ کہ علاء الدین خلجی کی شخصیت کو غلط طریقے سے کیوں دکھایا گیا ہے؟ اسے اسی انداز میں دکھانا چاہئے تھا جیسی اس

 

 

کی شخصیت تھی۔ ایک تاریخی کردار کو افسانہ کیوں بنایا گیا؟ دنگائیوں کے سامنے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے۔فسادی ،انتظامیہ پر بھاری پڑگئے ۔بھیڑ سے ملک کاقانون ہار گیا۔ فلم ’’پدماوتی‘‘کی ریلیز فی الحال ٹل گئی ہے کیونکہ ایک طبقے کا ماننا ہے کہ فلم میں سنجے لیلابھنسالی نے رانی پدماوتی کا اپمان کیا ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ فلم میں پدماوتی کے کردار کو ابھارا گیا ہے اور سلطان علاء الدین خلجی کے کردار کو ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔اس فلم کو سرکار کے قائم کردہ ادارے، فلم سنسر بورڈ نے پاس کیا تھااور سپریم کورٹ نے اس میں کسی بھی ترمیم کا حم دینے سے انکار کردیا تھامگر اس کے باوجود بعض احتجاجیوں کی دھمکیوں کے آگے گھٹنا ٹیکتے ہوئے سرکار نے اس کی ریلیز روکنے کا فیصلہ کیا اور مدھیہ پردیش واترپردیش کی سرکاروں نے تو صاف کردیا تھا کہ وہ فلم کی ریلیز پر سنیماہالوں اور ناظرین کو تحفظ فراہ

 

م نہیں کرسکتیں۔اس سے واضح ہوگیا ہے ہمارے ملک میں سرکار اور قانون کی نہیں بھیڑ کی حکومت ہے۔ بھیڑ جو چاہے کرے، حکومت اس کے سامنے بے بس ہے، انتظامیہ لاچار ہے اور قانون اندھا، گونگا ، بہرہ ہے۔اس فلم پر اگر اعتراض کی بات تھی تو یہ کہ علاء الدین خلجی کی شخصیت کو غلط طریقے سے کیوں دکھایا گیا ہے؟ اسے اسی انداز میں دکھانا چاہئے تھا جیسی اس کی شخصیت تھی۔ ایک تاریخی کردار کو افسانہ کیوں بنایا گیا؟ رانی ’’پدماوتی‘‘ تاریخ یا افسانہ؟ رانی پدمنی یا پدماوتی کون تھی؟ اس کردار کی تاریخی حقیقت کیا ہے؟ کیا کسی تاریخی کتاب میں اس کردار کا ذکر ملتا ہے؟ کیا سچ مچ سلطان علاء الدین خلجی، رانی کے حسن کا دیوانہ تھا اور اسے حاصل کرنا چاہتا تھا؟ان دنوں ان سوالوں پر لوگ بحث کر رہے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ مشہور فلم میکر سنجے لیلا بھنسالی نے پیریڈ فلم ’’پدماوتی‘‘ بنائی ہے جس میں انھوں نے ملک محمد جائسی کی مشہور کہانی ’’پدماوت‘‘کو لیا ہے۔فلم کے اہم کردار میں رنویر سنگھ، شاہد کپور اور دپیکا پڈوکون ہیں۔ وہ اس کی شوٹنگ کرنے راجستھان کے جے پور گئے تھے جہاں ان کے اوپر حملہ کیا گیا اور شوٹنگ کو روکنے پر مجبور کیا گیا۔اب پورے ملک میں فلم کو روکنے کے لئے ہنگامہ کیا جارہا ہے۔ ہندوادی تنظیم’’ کرنی سینا‘‘ کا الزام ہے کہ بھنسالی فلم کے لئے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر

 

رہے ہیں۔ ایسے میں ماضی کا ایک کردار پھر سے سرخیوں کا سبب بن گیا ہے اور لوگوں کی دلچسپی اچانک ’’پدماوتی‘‘’ کے کردار میںجاگ اٹھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پدماوتی کون تھی؟یہ کوئی تاریخی کردار ہے یا صرف ادبی اور افسانوی کردار ہے؟ ماضی کے آئینے میں اگر جھانک کر دیکھا جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ 15-16ویں صدی میں یہ کردار سب سے پہلے تب مشہورہوا جب معروف شاعر ملک محمد جائسی نے 1540 ء کے ارد گرد  طویل نظمیہ داستان ’’پدماوت‘‘ لکھی تھی۔ اس شاہکار داستان کے مطابق رانی پدماوتی، چتوڑ کے راجہ راول رتن سنگھ کی بیوی تھی۔ کہانی کے مطابق ملکہ پدماوتی کو حسن کے معاملے میں بے مثال مانا جاتا تھا اور اسی سبب دہلی کا حکمران علاء الدین خلجی اس پر عاشق تھا۔ پدماوتی کو حاصل کرنے کے لئے اس نے چتوڑ پر حملہ کر دیا اور راجپوتوں کی اس جنگ میں شکست ہوئی۔ رانی کو حا

 

صل کرنے کے لئے خلجی جب محل پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پدماوتی سمیت راجپوت خواتین نے اجتماعی خود سوزی کرلی تھی۔ تاہم اس واقعے کی صداقت کو لے کر تاریخ دانوں میں اختلافات ہیں۔ بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ پدماوتی نام کا کوئی کردار تاریخ میں نہیں تھا۔ ان کے مطابق پدماوتی صرف ایک ادبی کردارہے جو علاء الدین خلجی کی موت کے سینکڑوں سال بعد وجود میں آیا۔ مورخ کہتے ہیں کہ علاء الدین کے زمانے میں اس طرح کے کسی کردار کا ذکر نہیں ملتا۔ وہ مانتے ہیں کہ لوک کہانیوں کے سبب یہ کردار صدیوں سے زندہ ہے۔ہندوستان کے سب سے بڑے مورخ عرفان حبیب نے دعوی کیا ہے کہ جس پدماوتی کی توہین کو ایشو بنا کر کرنی سینا اور دوسری تنظیمیں ہنگامہ مچا رہی ہیں ویسا کوئی کردار اصل میں تھا ہی نہیں۔ جب کہ دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر سنیل کمار کا ماننا ہے کہ محمد جائسی  نے ’’پدماوت‘‘ کی تخلیق کی، جس کی بنیاد پر ملکہ پدمنی کا کردار وجود میں آیا، جس کا تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ رانی پدماوتی کے کردار پر دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رضی الدین عقیل کا کہنا ہے کہ 1540 ء میں شیر شاہ کا زمانہ تھا ، اسی وقت ملک محمد جائسی نے’’ پدماوت‘‘ کی تخلیق کی تھی۔وہ مزید کہتے ہیں کہ جائسی چشتی صوفی تھے۔ ’’پدماوت‘‘ میں راجہ ر تن سنگھ اور پدماوتی کا جو پریم ہے، اس کو جائسی نے صوفیوں کے طریقے سے لکھا ہے۔ان کے مطابق یہ صحیح ہے کہ پدماوتی کوئی ایک مکمل تاریخی کردار نہیں ہے۔ پدماوتی کی کہانی جائسی سے شروع ضرور ہوتی ہے، لیکن اس کے بعد رکتی نہیں ہے۔پدماوتی کا ذکر 15 ویں، 16 ویں، 17 ویں اور 18 ویں صدی میں بھی ملتا ہے۔ سلطان علاء الدین خلجی کون تھا؟ سلطان علاء الدین خلجی کا اصل نام علی گرشاسپ تھا جس نے 1296-1316کے درمیان ہندوستان پرک

 

امیابی کے ساتھ حکومت کیا۔ وہ دہلی سلطنت کے خلجی خاندان کا دوسرا حکمران تھا۔ وہ اپنے چچا اور سسر سلطان جلال الدین خلجی کو قتل کرکے بادشاہ بنا تھا۔ دہلی میں واقع بلبن کے قلعہ میں اس کی تاجپوشی 22 اکتوبر 1296 کو انجام پائی تھی۔ وہ ایک زبردست فاتح تھا اور پہلی بار جنوبی ہندپر وہی ،ایک سپہ سالار کی حیثیت سے جلال الدین خلجی کے زمانے میں حملہ آور ہوا تھا اور جب اسے حکومت ملی تو اس نے اپنی سلطنت کوجنوبی ہند تک پھیلا دیا ۔ اس کے بعد اتنی بڑی ہندوستانی سلطنت اگلے تین سو سالوں تک کوئی بھی حکمران قائم نہ کر پایا۔ علاء الدین خلجی نے سخت نظام حکومت کے تحت اپنی ریاست کی حدود کو وسعت دینا شروع کیا۔ اپنی ابتدائی کامیابیوں سے حوصلہ پاکر  ’’سکندرثانی‘‘ کا لقب اختیار کیا اور اس لقب کو سکوں پر بھی کھدوایا گیا تھا۔ اس نے بھی سکندر کی طرح دنیا کو فتح کرنے اور ایک نئے مذہب

 

کو قائم کرنے کے بارے میں سوچا تھا مگر دہلی کے کوتوال ’’علاء الملک‘‘ کے سمجھانے پر یہ خیال ترک کر دیا۔ وہ دلی کاپہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے علماء دین کو، اپنی حکومت کے کام میں مداخلت نہیں کرنے دیا۔علاء الدین خلجی کا دور حکومت علاء الدین خلجی ایک سخت گیر بادشاہ تھا اور کسی قسم کی حکم عدولی کو برداشت نہیں کرتا تھا ۔ وہ بہت سخت سزائیں دیتا تھا۔ اس لئے اس کی حکومت کے خلاف جس کسی نے بھی بغاوت کی اس نے سختی کے ساتھ کچل دیا۔وہ اپنے امیروں اور درباریوں کی طرف سے بغاوت کا اندیشہ رکھتا تھا لہذاایک حکم کے ذریعے ان کے آپس میں میل جول، عوامی اجتماعات اوررشتہ داری پر پابندی لگا دیا تھا۔ بادشاہ کا ماننا تھا کہ تمام گڑبڑیوں کی جڑ دولت ہے لہٰذا اس نے امیروں کی دولت بھی سرکاری خزانے میں داخل کروالی تھیں۔ اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک میں بدامنی تھی مگر اس نے امن وامان قائم کیا۔ وہ چھوٹے جرائم میں بھی سخت سزائیں دیتا تھا۔ اس نے تمام چیزوں کی قیمتیں مقرر کردی تھیں اور اپنے جاسوس پوری سلطنت میں پھیلادیئے تھے لہٰذا کسی کو بھی اس سے زیادہ قیمت لینے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ علاء الدین کے دور حکومت میں اشیاء خوردنی کی خوب پیدوار ہوتی تھی اور ملک میں خوشحالی آگئی تھی۔خلجی کی محبت:۔ سلطان علاء الدین خلجی کی رانی پدماوتی کے ساتھ عشق کی کہانی مشہور ہے مگر مورخین اسے افسانہ قرار دیتے ہیں البتہ رانی کملا دیوی کے ساتھ اس کا معاشقہ ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح وہ ایک ہجڑے ملک کافور کے ساتھ بھی بے حد محبت کرتا تھا اور اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا تھا۔یہی ملک کافور بعد میں اس کا وزیراع

 

ظم بن گیا تھا اور سلطنت کے سارے سیاہ وسفید کا مالک بن گیا تھا۔ مورخین کا ماننا ہے کہ ملک کافور نے ہی بادشاہ کو زہر دے کر قتل کردیا تھا۔ ملک کافور نے بادشاہ کی موت کے بعد اس کے ایک بیٹے کو تخت پر بٹھایا تھا اور خود حکومت کرتا تھا جب کہ باقی بچوں کو اس نے اندھا کرکے قید کروادیا تھا۔ ملک کافور ایک زبردست فاتح بھی تھا۔ اسی نے جنوبی بھارت کو فتح کیا تھا۔ علاء الدین خلجی کے دور حکومت میں جنوب میں اس نے سب سے پہلے 1303ء میں تلنگانہ پر حملہ کیا تھا۔ تلنگانہ کے حکمران پرتاپ رودردیو دوم نے اپنی ایک سونے کی مورتی بنا کر اور اس کے گلے میں سونے کی زنجیر ڈال کر ہتھیار ڈالنے کیلئے ملک کافور کے پاس بھیجا تھا۔ اسی موقع پر پرتاپ رودردیو نے ملک کافور کو دنیا کامشہور کوہ نور ہیرا دیا تھا۔ 1298 ء میں علاء الدین نے الغ خان اور نصرت خان کو گجرات فتح کے لئے بھیجاتھا۔ احمد آباد کے قریب بگھیل راجہ کرن اور علاء الدین کی فوج میں ٹکر ہوئی۔راجہ کرن نے شکست کھائی اور اپنی بیٹی ’دیول دیوی‘ کے ساتھ بھاگ کر دیوگری کے حکمران رام چندر دیو کے یہاں پناہ لی مگر راجہ کی بیوی رانی کملا دیوی پکڑی گئی جس سے علاء الدین نے شادی کرلی اور اسے اپنی سب سے زیادہ محبوب ملکہ بنایا۔ یہیں نصرت خان نے ہندو ہجڑے غلام ملک کافور کو ایک ہزار دینار میں خریدا تھا اوردلی لاکر بادشاہ کو پیش کردیا تھا۔ ایک دوسری مہم میں دیول دیوی بھی بادشاہ کے فوجیوں کے ہاتھ لگ گئی اور دلی لائی گئی جس کے ساتھ بادشاہ کے بیٹے خضرخاں کا معاشقہ شروع ہوگیا۔ اس داستان کو امیرخسرو نے اپنی ایک فارسی مثنوی میں بیان کیا ہے۔ ۰۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا