دشتِ وحشت ۔۔۔ ایک تبصرہ

0
0
مقبول فیروزی
       دشتِ وحشت جناب ذُوالفقار نقوی صاحب کے شعری مجموعے کا نام ہے۔نقوی صاحب کا پورا نام سید ذوالفقار علی شاہ ہے۔آپ مہنڈر ضلح پونچھ سے تعلق رکھتے ہیں۔پیشے سے آپ شعبہ انگریزی کے استاد ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب کے ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نٸی دہلی ہیں۔اس کتاب کا سنِ اشاعت 2012 عیسوی ہے۔ شاعر نے انتساب اپنے والدین، شریکِ حیات اور بچوں کے نام کیا ہے۔ ایسا کر کے انہوں نے سب گھر والوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی کو شکایت کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں یہ اشعار درج ہیں۔
لے چلو چراغوں کو کر کے خون سے روشن
دشت کی سیاہی نے ہم کو بھی پُکارا ہے
ہم فقیروں کو زمانے کی تب و تاب سے کیا
ہم جہاں بیٹھ گٸے اپنی بنالی دُنیا
اس کتاب کے بارے میں مختلف ادیبوں اور شاعروں نے مضامین لکھے ہیں جو کہ کتاب کے ابتداٸی اوراق میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔حقانی القاسمی صاحب کا مختصر مضمون سب سے پہلے ملتا ہے جس میں انہوں نے دشتِ وحشت اور نقوی صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں”نقوی صاحب کی شاعری میں داخلی اور خارجی ادراکات کی عمدہ عکاسی ہے اور عصری حسیت سے معمور ان کی شاعری میں لفظوں سے ماورا بھی بہت کچھ ہے“ اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر شہپر رسول صاحب اپنے مضمون میں نقوی صاحب کی تعریف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں ”نقوی صاحب لفظی شعبدہ بازی ،چونکانے کی غیر ضروری کوشش اور اظہار کے مصنوعی بے ساختہ پن کے شکار نہیں ہیں“ اس مضمون کے بعد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اپنے مضمون”دشتِ وحشت تگ و تاز“ عنوان کے تحت اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوۓ لکھتے ہیں ”شاعری ان کے نزدیک حظِ محظ یا تفنن طبع کا وسیلہ نہیں بلکہ بسیط انسانی ہمدردی کی زاٸیدہ ہے“ ان کے خیال میں نقوی صاحب کی شاعری عرفان و آگہی سے قریب ہے۔ بی بی لندن کے سابقہ نیوز ریڈر و براڈ کاسٹر، ادیب و شاعر صفدر ہمدانی برطانیہ سے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں” اس مجموعے کے نوے فی صد اشعار کو حسین تر پایا ہے کہ بڑی سے بڑی اور مشکل سے مشکل بات نہایت آسان اور سادہ پیرائے میں بیان کردی ہے جو قادرالکلامی کی دلیل ہے“ ۔شعبہ اردو علی گڑھ کے استاد معید رشیدی صاحب کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ
ذوالفقار نقوی معاصر اردو شعرا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔۔ان کا مقصد خالصتاً شعر و ادب کی ترویج و اشاعت ہے۔ان کے بعد ہوسٹن امریکہ سے مجید اختر صاحب اپنے مضمون ”دشت وحشت کا مسافر“ میں نقوی صاحب کی شاعری کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ ایک جگہ یوں لکھتے ہیں۔
”مروجہ مضامین اور پامال زمینوں سے بچتے ہوئے نقوی صاحب مسلسل مضامینِ تازہ کا اس طرح انبار لگاتے چلے گٸے کہ یکے بعد دیگرے ان کا تیسرا مجموعہ آپ کے سامنے موجود ہے“۔ ڈاکٹر شمس کمال انجم صدرِ شعبہ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی کا ایک مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ وہ نقوی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں”وہ سراپا شاعر ہیں اور شاعری سے انہیں جنون کی حد تک عشق ہے۔ وہ فراق کی طرح انگریزی کے استاد ہیں مگر انہوں نے اردو شاعری کی زلفوں کی مشاطگی کو حرزِ جان بنا رکھا ہے“ ان مضامین کے بعد دشت وحشت کے شاعر جناب نقوی صاحب کا ”اظہارِ تشکر“کتاب میں درج ہے۔یہاں میں ایک بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ متذکرہ بالا تبصرہ نگاروں نے نقوی صاحب کی تعریف تو کی ہے مگر کسی نے بھی کتاب کے محاسن یا معاٸب کی کوٸی نشاندہی نہیں کی ہے۔ لگتا ہے انہوں نے سرسری طور پر کتاب کی ورق گردانی کر کے اپنے دوست نقوی صاحب کو خوش کرنے کے لیے اپنے مضامین اور تبصرے صاحبِ کتاب کو ارسال کر کے دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ادب کی اتنی عظیم ہستیاں اور یونیورسٹی کے اساتذہ سے بہت کچھ امید اور توقع ہوتی ہے مگر زیرِ تبصرہ کتاب پر ان کا تبصرہ مجھے بالکل بھی پسند نہیں آیا کیونکہ انہوں نے صرف شاعر کی تعریف کی ہے اور شعری مجموعے کو نظر انداز کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ادبی خیانت ہے۔
      "دشتِ وحشت” دو سو صفحات پر مشتمل ہے جس میں ٩٩ غزلیں درج ہیں۔ نناوے کی تعداد کو میرے خیال میں نقوی صاحب نے اللہ کے نناوے ناموں کی وجہ سے
رکھا ہے ۔کتاب کا آغاز حمد رب ذوالجلال سے ہوتا ہے۔
راز بھی تُو ہے راز داں تو ہے
منکشف ہوکے بھی نہاں تُو ہے
حمد کے علاوہ اس کتاب میں نعتِ نبی ﷺ بھی ہے۔
کھڑے ہیں آدم و الیاس و یونس و عیسیٰ
نظر ہے سوئے حرم میرِ مرسلاں کے لیے
دشتِ وحشت میں گوناگوں موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔مثلاً دنیا کی بے ثباتی، اخلاق، بے راہ روی، فحاشی، موجودہ سیاسی اور سماجی حالات، اخلاقیات وغیرہ
بے راہ روی کے بارے میں کٸی اشعار قاری کو پڑھنے کو ملتے ہیں۔مثلاً
بے راہ روی کی موج میں بہہ جائے گی کہیں
انسانیت کی گرد جو ہم پر جمی سی ہے
آجکل کے رہنما ایسے ہیں جو رہزنوں سے بھی بدتر ہیں۔ لوگوں اور سماج کی رہنماٸی کی جگہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ رہبر سیاسی اور مذہبی دونوں گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔نقوی صاحب کہتے ہیں
زادِ راہ کا ہم سے کیوں سوال کرتے ہو
رہزنوں کے نرغے میں جب ہمیں اتارا ہے
ہمارے رہنما اور عالم لوگوں کا استحصال کر کے اپنے بچوں کی زندگیاں بناتے ہیں اور غریب لوگوں کے بچوں کو جذباتی تقاریر سے بہکا کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ایک جگہ اسی لیے نقوی یوں کہتے ہیں
کس کے خوں سے ہیں مزین یہ کھلونے صاحب
تیرا گھر جن سے ہمہ وقت سجا رہتا ہے
ملک میں مسلکی اور مذہبی منافرت پھیلاٸی جارہی ہے ۔بھاٸی کو بھاٸی سے لڑوانے کی مختلف چالیں چلی جارہی ہیں اور ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگے جارہے ہیں گھروں کو جلایا جارہا ہے جس کی وجہ سے شاعر مغموم دکھاٸی دیتا ہے
کوٸی چنگاری اٹھی گر تو ہوا ہی دیں گے
آشیاں میرا مرے یار جلا ہی دیں گے
شاعر مشکلات سے مقابلہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ رکھنے کی بات کرتا ہے نہ کہ مایوس ہونے کی۔ ایک جگہ کہتے ہیں
کیوں ہو طغیانی ءِ دریا کا انہیں خوف کہ جو
اپنی کشتی میں ہمہ وقت بھنور رکھتے ہیں
نقوی صاحب قناعت پسند نظر آتے ہیں اور اپنے کم کو ادھار کے بسیار سے بہتر اور افضل سمجھتے ہیں اور یہی خودی کہلاتی ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں.
ہوں مبارک تجھے کواکب سب
مطمٸن ہوں کہ اک دیا سا ہوں
   نقوی صاحب چونکہ مسلمان ہیں اس لیے اوروں کو بھی سچے مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اللہ کے راستے پر چلنے کے بعد سود و زیان کا نہیں سوچنا چاہیے بلکہ اللہ کے راستے پر چل کر ایمان کی دولت حاصل ہوتی ہے جو ایک مومن کے لیے آخرت کا زادِ راہ ہے اور مومن کو دنیا کا کوٸی امیر ترین شخص بھی خرید نہیں سکتا ہے۔
کسے ہے تاب خریدے، وہ سر زمانے میں
گلی میں یار کی اک بار جو بِکا ہوا ہے
ظالم اور ظلم پر بھی زیرِ تبصرہ مجموعے میں کٸی اشعار ملتے ہیں۔ یہاں مظلوموں کو کسی بھی صورت میں انصاف نہیں ملتا ہے کیونکہ ہر جگہ پیسے اور پیسے والوں کا بول بالا ہے۔ غریب اور مظلوم بچارے پسے جارہے ہیں اور انہیں انصاف ملتا نہیں ہے.
رینگتی جُوں بھی نہیں کان پہ اب منصف کے
بے گناہی کا بتا شور مچاٶں کب تک
نقوی صاحب بنیادی طور چونکہ ایک استاد ہیں لہذا اپنے قارٸین کو بھی یہ درس دیتے ہیں کہ یہ دنیا چند روزہ ہے۔کسی بھی وقت اللہ کے حکم سے فنا ہوسکتی ہے۔یہ بنگلے ، گاڑیاں، عہدے اور منصب سب بیکار ہیں کیونکہ یہ آخرت میں کام آنی والی چیزیں نہیں ہیں اس لیے اپنی آخرت سنوارنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے تاکہ عقبیٰ میں سرخروٸی اور کامیابی نصیب ہو۔ لہذا غفلت چھوڑ دینی چاہیے…
کبھی خیال نہ آیا کہ لوٹنا بھی ہے
کچھ اس طرح کسی خوشبو کے میں اثر میں رہا
زیر تبصرہ شعری مجموعے میں جابجا اخلاق اور مذہب کے علاوہ اور بہت سے زندگی کے مساٸل پر بھی اشعار ملتے ہیں جن سے پتہ چل جاتا ہے کہ شاعر کا مطالعہ وسیع اور تجربہ بہت ہے۔ اپنی شاعری کی تعریف بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تُو نے میرے اشعار میں حدّت نہیں دیکھی
دیکھا کیے ہو فن ہی پہ حیرت نہیں دیکھی
      مختصر یہ کہ دشتِ وحشت ذوالفقار نقوی کا ایک اعلیٰ شعری نمونہ ہے جسے پڑھ کر قاری کو بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔
اللہ انہیں سلامت رکھے آمین
       ،  7006715995
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا