درسگاہوں کی ایسی حالت میں تعلیم کیسے ممکن ہے؟

0
0
سیّدمحمد مشرف شاہ
پونچھ، جموں
آج کے اس ڈیجیٹل دور میں انسان کو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے جن متعدد چیزوں کی ضرورت ہے ان میں تعلیم اہم ہے۔یہ انسان کی اہم ضرورت کے ساتھ ساتھ اس کا حق بھی ہے جو اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ اگر ہم مذہبی اعتبار سے بھی دیکھیں تو دنیا کے لگ بھگ ہر مذہب میں تعلیم کو ضروری قرار دیا گیاہے۔اس کے حصول کے لئے ایک اچھا ماحول اور صاف جگہ فراہم کرنا ضروری ہے۔ ورنہ آج کے جدید دور میں اچھے ماحول کے بغیر تعلیم بالکل بھی ممکن نہیں لگتی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کی اس اہمیت کے پیش نظر ہمارے ملک ہندوستان کے اندر لاکھوں تعلیمی ادارے کام رہے ہیں جو بخوبی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان اداروں میں ایک منظم نظام کے تحت طلباء کو تعلیم دی جاتی ہے جہاں پر اچھے ماحول کے ساتھ ساتھ ان کے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں بھی عمدہ ہوتی ہیں۔ جن کی وجہ سے طلباء کو مزید اچھا ماحول فراہم ہوتا ہے اور بیٹھنے میں پریشانیاں پیش نہیں آتیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے درسگاہیں اور اداروں کی عمارتیں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے و ضع کی گئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 جس کا شدت سے انتظار تھا،نے 1986 کی تعلیمی پالیسی کی جگہ لے لی ہے۔ نئی قومی پالیسی ایک سخت مشاورتی عمل سے گزرنے کے بعد بنائی گئی ہے۔ اس کے لئے 250 لاکھ گرام پنچایتوں، 6600 بلاکس، 6000 شہری بلدیاتی اداروں اور 600 اضلاع سے 2 لاکھ سے زیادہ تجاویز حاصل کی گئیں تھیں۔ اس سے قبل، مئی 2016 میں، ٹی ایس آر سبرامنیم کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے نئی تعلیمی پالیسی کے ارتقا کے لئے ضروری ہدایات مہیا کی تھیں۔ جون 2017 میں، ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے قومی تعلیمی پالیسی پر توجہ مرکوز کی۔ پالیسی کا مسودہ 31 مئی 2019 کو پیش کیا گیااور تعلیمی میدان میں مزید بہتری لانے کیلئے قومی تعلیمی پالیسی 2020ء؁ کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔اسکولوں کے حالات اور نظام تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کی جانب سے کئی طرح کے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔کئی اسکیموں کے تحت اسکولوں کی عمارات بھی تعمیر ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں بڑی ساری فنڈنگ بھی ہوتی ہے تاکہ طلباء کو بہتر اسکولی ڈھانچہ فراہم کیا جائے۔
 لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں متعدد اسکول ایسے ہیں جن کی عمارتوں کی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے طلباء کی تعلیم پر گہرا اثر پڑتا ہے۔کہیں عمارات بوسیدہ ہو چکی ہیں اور کہیں عمارات مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ اس طرح کے اسکولوں میں سے ضلع پونچھ کے ماڈل گاؤں کھنیتر جوسٹی ہیڈ کواٹرز پونچھ سے تقریباً دس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، کا مڈل اسکول ٹانڈہ ہے، جس کی ایک عمارت 2008 میں بنائی گئی تھی۔لیکن اس میں ناقص مواد کے استعمال کی وجہ سے لگ بھگ یہ عمارت دو سال قبل گر چکی ہے جس کا برائے راست طلباء کی تعلیم پر اثر پڑ رہا ہے۔اس عمارت کے تباہ حال ہونے کی وجہ سے طلباء مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسکول کا عملہ طلباء کی تعلیم کو لیکر کافی سنجیدہ ہے اور تعلیمی سلسلہ کو رواں دوان کئے ہوہئے ہے لیکن اسکول کی عمارت کی خراب حالت ہونے کی وجہ سے طلباء کو پیش آنے والے تعلیمی نقصا ن سے ہر ذی شعور واقف ہے۔
اس سلسلہ میں مذکورہ اسکول کی متعلقہ انچارج سے جب بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ تقریباً دو سال پہلے یہ عمارت لاک ڈاؤن میں گر گئی تھی جس کا ملبہ بھی ابھی تک نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس ملبے کے نیچے بینچز کا بھی نقصان ہو گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جو عمارت گری اس میں دو کمرے تھے جن کا نقصان ہو گیا۔ ان کمروں میں لگنے والی کلاسیں عرصہ دو سال سے دوسری کلاسوں میں بٹھا کر کام تعلیمی سلسلہ رواں رکھے ہوئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں موصوفہ نے کہا کہ جب بارش ہوتی ہے تو بچوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ اسکول کے دو کمرے ایسی حالت میں ہیں کہ اس عمارت کے اندر جانا بھی ممکن نہیں اور یہ خطرے سے خالی بھی نہیں ہے۔اس سلسلے میں پنچائت دوپریاں کے وارڈ نمبر ایک کے پنچ محمد عارف کوہلی نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسکول کے کل آٹھ کمرے تھے جن میں سے دو اس بلڈنگ میں تھے جو گرنے کی وجہ سے ناکارہ ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد ابھی تک اس عمارت کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے طلباء کو کافی پریشانیاں پیش آتی ہیں۔ انہوں نے یہ کہا کہ اسکول کی گری ہوئی عمارت کو پھر سے تعمیر کرنے کے لئے متعلقہ انتظامیہ کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
اس سلسلے میں اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ عمارت لاک ڈاؤن میں گر گئی تھی جو ابھی تک تعمیر نہیں کی گئی۔ عمارت گرنے کی اصل وجہ اس کے ستونوں میں صحیح مقدار میں ریت بجری کا نہ پڑنا اور ناقص مواد کا استعمال نہیں ہوناہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دو کلاسیں جو اس عمارت میں چلا کرتی تھیں،اس عمارت کے گرنے کے بعدسے اب اس کلاس کے بچّے پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ جب کبھی بارش ہوتی ہے تو بچوں کے ساتھ ساتھ پورا اسکولی عملہ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فی الحال اس اسکول کی عمارت میں پانچ کمرے ہیں جن میں  بہت ہی مشکل سے آٹھ کلاسیں لگائی جاتی ہیں۔ باقی کی کلاسوں کے لئے کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔
درج بالا حقائق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اسکول کس حالت میں ہے اور اس میں زیر تعلیم طلباء کو کن مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔لگ بھگ دو سال قبل اسکول کی عمارت میں ناقص مواد کا ستعمال ہونے کی وجہ سے یہ عمارت گر گئی تھی لیکن آج تک اس کی از سر نو تعمیر کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے تاکہ طلباء کو اپنی تعلیم میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انتظامیہ کو اس عمارت کی تعمیر میں ناقص مواد کے استعمال کا بھی نوٹس لینا چاہئے تاکہ ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پرے اور سرکاری خزانے کو چونا لگاے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہو۔(چرخہ فیچرس)
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا