درد بھرے نغموں کے شہشاہ تھے سہگل

0
0

یو این آئی

نئی دہلی// شہنشاہ موسیقی کےایل سہگل نے15سال کے عرصے میں 185نغموں کے لیے اپنی آواز دی اور 36فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ان کا جنم 11اپریل 1904 میں ہوا تھا۔ معروف گلوکار اور اداکارکے مقامِ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جموں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد تحصیلدار تھے۔ انہوں نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے وابستہ تھے وہ اپنی والدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور خود بھی والدہ کے ساتھ مل کر بھجن گایا کرتے تھے ۔ موسیقی اور گائکی سہگل کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ کی سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات نیو تھئیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوگئی۔ سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیو ٹھیئٹر میں سہگل کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ ملازمت پر رکھ لیا۔ نیو تھیٹئر کے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں زندہ جاوید بنادیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔ سال 1933 میں نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں جس سے سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ 1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔سہگل نیو تھئیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد بمبئی کا رخ کیا اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہو گئے یہاں انہوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔سہگل نے 1944 میں ریلیز ہوئی فلم تان سین کے بعد 1947 تک سات فلموں میں کا م کیا ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکرہے۔شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے۔ اس وقت سہگل کے انداز کو اتنا پسند کیا گیا ہے دوسرے گلوکار بھی انہیں کی طرز پر گانے کی کوشش کرنے لگے۔ گلوکار مکیش نے بھی اپنے ابتدائی دنوں میں سہگل سے متاثر ہوکر کئی نغمے گائے۔سہگل کے دیگر مشہور نغموں میں ، غم دیئے مستقل، ایک بنگلہ بنے نیارہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے، میرے سپنوں کی رانی وغیرہ شامل ہیں۔ سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ اگرچہ انہوں نے بڑے شاعروں کے کلام کو بھی گایا لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کو کچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے گا رہے ہوں۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947 میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔ یہ فلم کچھ خاص کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے نغمے کافی مقبول ہوئے اور خورشید انور کو کسی ادارے کی جانب سے اس سال کے بہترین موسیقار کے انعام سے بھی نوازا گیا۔ سہگل 18جنوری 1947 کو جالندھر میں اس سرائے فانی سے کوچ کرگئے۔ انہیں جگر کا کوئی عارضہ ہو گیا تھا۔ شراب نوشی کی عادت نے ان کی زندگی کے سفر کو مختصر کر دیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمرمحض 42 رہی ہوگی۔ لیکن اس مختصر سی عمر میں انہوں نے اپنے لیے جو مقام بنایا ہے وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا