خطرناک فرقہ وارانہ سیاست عروج پر

0
80

 

 

جاویدجمال الدین

ملک میں عام انتخابات کے دوران قومی الیکشن کمیشن کارویہ بالکل ایسا ہی ہے،جیساگاندھی جی کے تین بندروں کا مبینہ طورپر ،نہ سننا،نہ دیکھنا اور نہ بولنا۔والاانداز اپنانا۔کمیشن پر جانبداری کے کئی الزامات لگائے جاچکے ہیں،لیکن حیرت انگیز طورپران کے کانوں پر جوئیں بھی نہیں رینگتی ہیں ،البتہ انہیں لگاکہ پانی سر سے اوپر پہنچ چکا ہے تو مودی کے راجستھان میں دیئے جا نے والے فرقہ وارانہ بیان پر بی جے پی کے صدر جے پی ندا کو نوٹس جاری کردیا۔
حالانکہ سب جان چکے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے دوسرے مرحلے کے بعد اپناآپاکھودیاہے اورایک عام ورکر کی طرح’ پرچار ‘ کرتے نظرآرہے ہیں۔اْن کے حالیہ بیان کی وجہ سے بد ظن غیر رہائشی گجراتیوں،این آرآئی نے بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا سے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔دراصل مودی سمیت بی جے پی لیڈ رشپ کو کسی بھی الیکشن سے قبل مسلمان یادآجاتے ہیں اور اپنی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ میں وہ اول فول بکنے لگتے ہیں اور یہی راجستھان میں ہوا،انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ایسی باتیں کہیں جو ان کے عہدہ کو زیب نہیں دیتی ہے۔
اس بیان کے بارے میں ہرکسی کااور سیاسی پنڈتوں کاخیال ہے کہ "نریندر مودی کی طرف سے کھلے عام فرقہ وارانہ بیانات بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہیں اور شاید ہندوستان میں وزیر اعظم کے دفتر نے اب تک کی سب سے نچلی سطح کو چھو لیا ہے”۔ راجستھان کے بانسواڑہ میں وزیر اعظم مودی کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان پر الیکشن کمیشن سے شکایت کی تھی۔ کمیشن نے اس پر جانچ کا وعدہ کیا تھا، مگر اس جانچ سے قبل ہی اس نے بی جے پی کے ساتھ کانگریس کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے مودی اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی اور کانگریس جیسی پار ف ٹیوں کے اعلیٰ درجے کے لیڈران کے بیانات سماج پربہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ان کے لیڈران کے بیانات انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں۔ویسے بتاد یں کہ کمیشن سے وابستہ دو کمشنروں نے ایک پریس کانفرنس میں مودی کے بیان پر خاموشی اختیار کی اور ردعمل ظاہر کرنے سے انکار کیا تھا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکاہے ہے کہ ملک کے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی دروغ گوئی اور ایک ہی فرقہ کونشانہ بنانے کے نتیجے میں مبینہ طور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بی جے پی کے صدر کونوٹس جاری کیا ہے اور توازن برقرار رکھنے کے لیے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کوبھی نوٹس دے دیا ہے اور اپنے نوٹس میں الیکشن کمیشن نے ان دونوں پارٹیوں سے مقررہ وقت تک جواب طلب کیا تھا۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے لیڈران کے بیانات انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں، جس پر ان کی پارٹیوں کو جواب دینا چاہئے۔
ان بیانات پر کمیشن نے پہلی بار کہاکہ اپنے ان اسٹار کمپینرس کوضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کے لیے کہیں۔ واضح رہے کہ راجستھان کے بانسواڑہ میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ کانگریس عوام کی جائیداد کا سروے کر کے زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں بانٹنے جا رہی ہے۔ جبکہ انہوں نے مسلمانوں کے بارے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور اس اشتعال انگیزی سے مودی کی بوکھلاہٹ واضح نظر آتی ہے۔انہوں نے آگرہ میں بھی ایک انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے ایک بار پھر متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس اور سماج وادی پارٹی مرکز میں بر سر اقتدار آ گئی تو وہ آپ لوگوں کی جائیدادوں تٹ ٹچچ نصف حصہ ضبط کر لیں گے اور منگل سوتر چھین لینے پر بھی خطرناک بیان دے دیا۔وزیر اعظم کے ان متنازعہ بیانات کی نہ صرف تمام اپوزیشن لیڈران سخت مذمت کر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شدید ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ لوگ یہ کہہ رہے کہ ایک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخص کس طرح ایسے کھلے عام ایک طبقے کے لوگوں کو دوسرے طبقے کے لوگوں سے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور تت یگ ب ت۔ ف خاص طبقے کے خلاف ل تث چٹ فنڈ ٹ وگوں کے ذہن میں شکوک و شبہات پھیلا رہا ہے۔ سیاسی اور سماجی تجزیہ نگاروں کا ث فب۔ ٹ گ۔ تمیں اسے بھاری نقصان ہونے جارہا ہے اسی لئے وزیر اعظم اور دیگر بی جے پی لیڈران اس طرح کے تفرقہ پھیلانے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں۔
ملک میں تیسرے مرحلے کے لیے انتخابی مہم دھوم دھام سے جاری ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہے، الزام تراشی کی کوئی حد نہیں رہ جاتی اور اخلاقیات کی دھجیاں اْڑادی جاتی ہیں، جنہوں نے کانگریس کے تعلق سے یہ خوف پھیلانے کی کوشش کی کہ وہ بر سر اقتدار آئی تو غریب خواتین کا منگل سوتر تک چھین لے گی یا مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے قراردیا۔
اس موقع پر جائزہ لیاجائے تو اس بات کااحساس ہوگا کہ ملک کے مسلمانوں ہی کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح یہ الیکشن اپنے ابتدائی مراحل ہی میں ہندو مسلم سیاست کی زد پر آچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ افسوسناک ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مقصد کے تحت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اس سیاست پر انحصار کرتے ہیں اْس میں انہیں کامیابی نہیں مل رہی ہے، پولرائزیشن کی کوشش ناکام نظرآرہی ہے۔ عام ووٹرس سیاست سے بددلی کاشکار ہے اور اس کے سبب پولنگ بوتھ نہیں جا رہے ہیں ،سیاسی جماعتیں اور تجزیہ کارووٹروں کی بے دلی اور بے رخی کا اپنے اپنے طور پر تجزیہ کرینگے اس کا نقصان کس کو ہوگا اور اس کا فائدہ کسے مل سکتا ہے۔
موجودہ حکومت اپنی انتخابی مہم کو بے روزگاری اور مہنگائی جیسے اصل عوامی مسائل سے دور رکھ رہی ہے اور اپنے فرقہ وارانہ بیانات کے سبب دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی الجھا کر رکھناچاہتی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے ابتداء میں” اب کی بار چارسو سے پار”کانعرہ دیا تھا۔لیکن پہلے مرحلے کے بعد ہی موصوف گھٹیا سیاست پر اتر آئے ہیں۔اگر دوسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد تیسرے مرحلے سے قبل یہ حال ہے تو کہا نہیں جاسکتا کہ چھٹے اور ساتویں مرحلے تک کیا ہوگا۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن بیانات کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ کسی عام لیڈر کے بیانات سے نہیں ہے، بلکہ خود وزیر اعظم مودی کے بیانات ہیں۔
[email protected]
9867647741

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا