خانۂ دل کے مکین

0
0

_✍️از قلم :- خان سعدیہ ندرت امتیاز خان(پوسد، مہاراشٹر)_

فتنۂ تاتار کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ ساتویں صدی میں مسلمانوں کو ایمان جیسی عظیم نعمت کے نوازے جانے کے باوجود، اس وقت کے مسلمان،حکمراں اور علماء کی لاپرواہی اور غفلت نے اسلام پر تاتاریوں کے عذاب کو مسلّط کر دیا۔ تاتاریوں کے حملے ایسی بلائے عظیم تھے کہ انھوں نے دنیائے اسلام کو دہلا کر رکھ دیا ۔ اس قدر تباہی دنیا نے اس سے پہلے شاید ہی کسی قوم کی دیکھی ہوگی۔تاتاریوں کی زندگی وحشیانہ تھی۔ تاتاری اس قدر ظالم تھے کہ جس شہر کو فتح کر لیتے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے، پورے شہر کو آگ لگا دیتے اور کل آبادی کو بلا تخصیص قتل کیا جاتا۔ اس سب میں خلیفہ، معززین اور اکابرین شہر سب سے پہلے قتل کر دیے جاتے اور اس کے بعد ایسا قتل عام کیا جاتا کہ سارا شہر لاشوں سے بھر جاتا۔
الغرض یہ کہ تہذیب و تمدن اور امنگ کی کسی علامت کو باقی نہ چھوڑتے اور سارے شہر کو اپنے قہر میں ڈبو کر خاموش کردیتے تھے۔ پوری متمدن دنیا تاتاری حملوں سے لرزہ براندام تھی، جنھیں کوئی بھی نہ روک سکا۔
یہ قہر اس وقت ٹوٹا جب تاتاریوں میں اشاعت اسلام کی ابتداء ہوئی۔ چنگیزخان کے پوتے برکہ خان پہلے منگول ہے جو مشرف بہ اسلام ہوئےاور اسی طرح بہت سے منگول سپاہی برکہ خان کے قبولِ اسلام کے بعد توحید کی طرف راغب ہوئے۔ برکہ خان کی سلطنت قفقاز کے کوہساروں سے بلغاریہ کی حدودتک وسیع تھی۔ برکہ خان نے اپنے اور اپنی قوم کے مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایک خط لکھ کر مصر کے سلطان رکن الدین بیبرس کو یہ اطلاع دی۔سلطان بیبرس نے ائمہ حرمین شریفین کو برکہ خان کے لیے دعاؤں کا حکم لکھ بھیجا۔ تاتاریوں کے مسلمان ہونے کا واقعہ اتنا حیران کن تھا کہ معروف مورخ فلپ کے ہٹی (Philip K Hitti) نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھا ہے کہ ’’ مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کر لی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہو چکے تھے”۔ اور اسی وقت سے مشرق میں اسلام کا سورج طلوع ہوا۔۔۔۔۔۔۔یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جن کے ہاتھوں سے پٹوایا تھا انہی کے ہاتھ میں اپنے دین کا پرچم تھما دیا۔
تاریخ انسانی کے اس منظر کو علامہ اقبال رحمہ اللّٰہ نے یوں کہا ہے
_ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے_
_پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے_
اس وقت میرے ذہن میں سورۂ النمل کی یہ آیت گونجی:
قَالَتۡ إِنَّ ٱلۡمُلُوكَ إِذَا دَخَلُواْ قَرۡيَةً أَفۡسَدُوهَا وَجَعَلُوٓاْ أَعِزَّةَ أَهۡلِهَآ أَذِلَّةٗۚ وَكَذَٰلِكَ يَفۡعَلُونَ۔ (سورۂ النمل:34)

’اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے۔‘‘
میرے دل سے صدائے بے کراں آئی کہ اس وسیع و عریض کائنات کا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ حقیقی صرف اور صرف اللہ سبحان و تعالیٰ ہے اور وہی سلطانوں کا سلطان اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس کی سنت بھی اس معاملے میں کچھ مختلف نہیں۔ اللہ رب العالمین بادشاہ کی حیثیت سے اگر کہیں داخل ہوتے ہیں تو وہ قلب ہے۔ جس کی دنیا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بستی میں وہی کچھ کرتے ہیں، جو دنیائے فانی کے بادشاہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں کرتے ہیں۔
بستیِ قلب سے خواہشات نفس کی پناہ گاہ کو اجاڑ دیا جاتا ہے اور یہاں کے معززین کو ذلیل اورپامال کر دیا جاتا ہے ۔بستیِ قلب سے ہر طرح کے بتوں، اخلاقی بیماریوں اور روحانی امراض کا قتل عام کیا جاتا ہے۔الغرض بستیِ قلب کو قساوت سے محفوظ کرکے صاف ستھرا کیا جاتا ہے، رحمت خداوندی اور حسنات سے بھر دیا جاتا ہے۔
اگر کسی قلب کی بستی میں ایسا ہو جائے تو پھر وہ کتنا ہی بڑا حکمراں اور فرمارواں کیوں نہ بن جائے، اس قلب کا اصل سلطان، بادشاہ،فرمانرواں اور حکمران صرف اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات باری تعالی بن جاتی ہے اور ہر طرف اس کی عظمت، بزرگی، کبریائی اور بلندی کا راج ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:
إنَّ قلوبَ بني آدم كلَّها بين إصبعين من أصابعِ الرحَّمن، كقلبٍ واحدٍ، يُصَرِّفُه حيث يشاء۔ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:اللهم مُصَرِّفَ القلوبِ صَرِّفْ قلوبَنا على طاعتك۔(صحیح مسلم )
بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے وہ سب ایک ہی دل ہو اور وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹتا رہتا ہے۔ پھر آپ ؐ نے یہ دعا فرمائی:
اللهم مُصَرِّفَ القلوبِ صَرِّفْ قلوبَنا على طاعتك
(اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔ آمین یا ربّی)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا