حضور نے زمانہ جاہلیت میں ہونے ہونے والی حج کی تجدید فرمائی

0
0

۰۰۰
ریاض فردوسی۔
9968012976
۰۰۰
حج کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے۔ اسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالی کے حکم سے ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ملک شام سے ہجرت کرکے مکہ تشریف لائے اور بیت اللہ کے پاس آباد ہوئے۔اس جگہ انہیں پہلا حکم یہ دیا گیا یعنی میری عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا َ یعنی میرے گھر کو پاک کیجئے یعنی کفر و شرک سے پاک رکھنا ہے، کیونکہ اس زمانے میں قوم جرہم اور عمالقہ نے یہاں کچھ بت رکھے ہوئے تھے،جن کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔تیسرا حکم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ دیا گیا کہیعنی لوگوں میں اعلان کر دیجئے کہ اس بیت اللہ کا حج تم پر فرض کردیا گیا ہے۔
حج کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن وسنت میں خاص خانہ کعبہ کا قصد کرنے اور وہاں افعال مخصوصہ کے ادا کرنے کو حج کہا جاتا ہے عمرہ کے لفظی معنی زیارت کے ہیں اور اصطلاح شرع میں مسجد حرام کی حاضری اور طواف وسعی کو کہا جاتا ہے۔تفہیمِ القرآن میں حج اور عمرہ کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے۔
ذْوالحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے،اس کا نام حج ہے اور ان تواریخ کے ماسوا دوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے، وہ عْم رَہ ہے۔جمہور کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہجرت کے تیسرے یعنی غزوہ احد کے سال میں سورۃ آ لِ عمران کی اس آیت امام اعظم ابوحنیفہ،امام مالک وغیرہ کے نزدیک عمرہ واجب نہیں سنت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حج کے اعمال میں بدعتیں،خرابیاں اور مشرکانہ اعمال شامل ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ دور جاہلیت میں حج کا اصل چہرہ مسخ ہوکر رہ گیا۔پھر نبی آخرالزماں ? کی بعث ہوء اور اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ حج کے افعال میں اصلاح کی،حج کے افعال کو دور جاہلیت کی تمام خرابیوں سے پاک و صاف کیا گیا اور دوبارہ اسے اصلی شکل میں واپس لایا گیا۔مشرکین مکہ حج کے دوران جب بیت اللہ کا طواف کرتے تو تلبیہ پڑھتے وقت پڑھتے لیکن اس میں اضافہ اس طرح کرتے
حضورﷺ نے تلبیہ میں اس طرح تجدید فرمایا۔
(لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعم لک والملک لا شریک لک۔ایام جاہلیت میں لوگ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے تھے۔حضرت ہشام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں حمس کے علاوہ باقی اہل عرب بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے ،اور حمس قریش اور ان کی اولاد کو کہتے ہیں یہ لوگ ننگا طواف کرتے تھے سوائے ان لوگوں کے جن کو حمس کپڑا دیں۔مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو کپڑا دیتی تھیں حضور نے ننگے طواف کے بری رسم کو ختم کیا اور پھر لوگ لباس پہن کر طواف کرنے لگے۔
حج وعمرہ تو اہل عرب اسلام سے پہلے بھی کیا کرتے تھے لیکن یہ حج وعمرہ صرف اللہ واحد کے لیے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں ان کے وہ معبودان باطل بھی شریک تھے جن کے بت انہوں نے عین بیت اللہ میں بھی اور مناسک حج کے دوسرے مقامات میں بھی نصب کر رکھے تھے۔چناچہ جب یہ حرم میں نماز کے لئے جاتے یا حج وعمرہ کے قصد سے وہاں پہنچتے تو ان کے پیش نظر صرف اللہ ہی کی عبادت نہ ہوتی بلکہ اللہ سے زیادہ ان بتوں کی خوشنودی اور ان کی پرستش ہوتی۔
وہ ان کی پوجا بھی کرتے،ان کے آگے نذر و نیاز بھی پیش کرتے اور ان کے لیے قربانیاں بھی کرتے۔اس لیے نزول آیتکے وقت مسلمانوں کو یہ تاکید کی گئی کہ جب تم حج وعمرہ کرو تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کرو،اس میں کسی شرک و بدعت کی کوئی آلائش شامل نہ ہونے پائے۔علاوہ ازیں اہل عرب کے لیے حج وعمرہ عبادت سے زیادہ تجارت کا ذریعہ بن گئے تھے۔ان کے لیے ان کی حیثیت تجارتی میلوں کی رہ گئی تھی اور حج کے اصل مقاصد ان کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے تھے جن کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کی تعمیر فرمائی تھی۔
چناچہ اس تجارتی مقصد ہی کے تحت انہوں نے نسیء کا قاعدہ ایجاد کر کے حج کے مہینے کو قمری کے بجائے شمسی حساب کے مطابق کرلیا تھا تاکہ یہ مہینہ تجارتی نقطہ نظر سے ان کے لیے مناسب زمانہ میں پڑے۔یہاں”للہ” کے لفظ سے مسلمانوں کو حج وعمرہ کے اصل مقصود کی طرف توجہ دلائی گئی کہ یہ عبادتیں اللہ کی رضا حاصل کرنے اور تقوی کی تربیت کے لیے مقرر کی گئی ہیں نہ کہ میلوں کے انعقاد اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے۔
صفا اور مروہ بیت اللہ کے پاس دو پہاڑیاں ہیں،جن کے درمیان حج وعمرہ کے موقع پر سعی کی جاتی ہے۔ان کے شعائر میں سے ہونے کی وجہ ایک تاریخی واقعہ بیان کی جاتی ہے کہ انہی دونوں پہاڑیوں کے درمیان پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ حضرت ہاجرہ نے اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں دور لگا رہی تھی۔مشرکین نے جس طرح توحید کے مرکز بیت اللہ میں سینکڑوں بت لا کر رکھ دیے،اسی طرح ان لوگوں نے دور جاہلیت میں ان دونوں پہاڑوں پر دو بت رکھ دیے تھے اور ان بتوں کے لیے سعی و طواف کرنے لگے تھے۔ صفا پر جو بت تھا اس کو اساف کہا جاتا تھا اور مروہ پر ایک بت تھا جسے نائلہ کہا جاتا تھا۔ جب صحابہ کرام نے اسلام قبول کیا تو وہ صفا و مروہ کی طواف سے رک گئے کیونکہ انہیں لگا صفا ومروہ زمانہ جاہلیت کے امور سے ہیں اور ان کا سعی کرنا گناہ ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ صفا و مروہ کا طواف گناہ نہیں ہے بلکہ سنت ابراہیمی ہے کسی کے جاہلانہ عمل سے کوئی گناہ نہیں ۔ حضرت عائشہ رض نے لوگوں کے شبہہ کا یہ کہہ کر ازالہ کیا کہ رسول اللہ نے صفا و مروہ کا طواف کیا اور ان کے درمیان طواف کرنا گناہ ہوتا تو عبارت اس طرح ہوتی۔فلا جناع علیہ الا یطوف بھما۔
مسلم شریف کے ایک روایت کے مطابق انصار کے کچھ لوگ زمانہ جاہلیت میں منات کا احرام باندھتے تھے اور صفا اور مروہ کے درمیان طواف کو حلال نہیں سمجھتے تھے،جب وہ نبی کریم کے ساتھ حج کے لئے گئے تو انہوں نے آپ سے اس چیز کا ذکر کیا۔حضور نے فرمایا پس مجھے اپنی جان کی قسم! جو شخص صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرے گا اس کا حج اللہ پورا نہیں کرے گا۔
اسلام سے پہلے عرب اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ جب حج کے مہینے شروع ہوجائیں یعنی ماہ شوال شروع ہوجائے تو ان ایام میں حج وعمرہ کا جمع کرنا سخت گناہ ہے زیر بحث آیت فَمَن تَمَتَّعَ (سورہ البقرہ،آیت نمبر 196) میں ان کے اس خیال کی اصلاح اس طرح کردی گئی کہ حدود میقات کے اندر رہنے والوں کے لئے تو حج وعمرہ دونوں کو اشہر حج میں جمع کرنا ممنوع رکھا گیا کیونکہ ان کو اشہر حج کے بعد دوبارہ عمرہ کے لئے سفر کرنا مشکل نہیں لیکن حدود میقات کے باہر سے آنے والوں کے لئے جمع کرنے کو جائز قرار دیا کہ دور دراز سے عمرہ کے لئے مستقل سفر کرنا ان کے لئے آسان نہیں،
(سورہ البقرہ، آیت نمبر 196) کا یہی مفہوم ہیکہ جس شخص کے اہل و عیال مسجد حرام کے قرب و جوار یعنی حدود میقات کے اندر نہیں رہتیاس کیلئے حج وعمرہ کو اشہر حج میں جمع کرنا جائز ہے،
البتہ جو لوگ حج وعمرہ کو اشہر حج میں جمع کریں ان پر واجب ہے کہ دونوں عبادتوں کو جمع کرنے کا شکرانہ ادا کریں وہ یہ ہے کہ جس کو قربانی دینے کی قدرت ہو وہ ایک قربانی دیدے بکری، گائے، اونٹ جو اس کے لئے آسان ہو، لیکن جس شخص کی مالی حیثیت قربانی ادا کرنے کے قابل نہیں اس پر دس روزے اس طرح واجب ہیں کہ تین روزے تو ایام حج کے اندر ہی رکھے یعنی نویں ذی الحجہ تک پورے کردے باقی سات روزے حج سے فارغ ہو کر جہاں چاہے اور جب چاہے رکھے وہیں مکہ مکرمہ میں رہ کر پورے کرے یا گھر واپس آکر اختیار ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے اور وہ لوگ محرم کو صفر بناتے تھے اور وہ کہتے کہ جب اونٹنیوں کی پشتیں اچھی ہو جائیں اور راستہ سے حاجیوں کے پاؤں کے نشان مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہو جائے تو عمرہ کرنے والوں کے لئے عمرہ حلال ہو جاتا ہے۔ نبی اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ذو الحجہ کی چار تاریخ کی صبح حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپنے حکم دیا کہ اس احرام کو عمرہ کا احرام بنا ڈالو تو انہیں یہ گراں گزرا تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم کیسے حلال ہوں؟ آپ نے فرمایا : تم سارے حلال ہوجاؤ یعنی احرام کھول دو۔
حج کے مہینہ میں حج کا احرام باندہنے والوں پر اللہ تعالی نے تین چیزوں کی پابندی عائد کی۔
وہ تین چیزیں ہیں رفث،فسوق،جدال۔
رفث سے مراد شہوانی باتیں ہیں،فسوق کے معنی خدا کی نافرمانی کے ہیں اور جدال سے مراد آپس کے لڑائی جھگڑے ہیں۔
جاہلیت عرب کے لوگ مقام وقوف میں اختلاف رکھتے تھے کچھ لوگ عرفات میں وقوف کرنا ضروری سمجھتے تھے اور کچھ مزدلفہ میں وقوف ضروری کہتے تھے، عرفات میں جانے کو ضروری نہیں سمجھتے تھے اور اسی کو موقف ابراہیم قرار دیتے تھے اسی طرح اوقات حج کے معاملہ میں بھی اختلاف تھا کچھ لوگ ذی الحجہ میں حج کرتے تھے اور کچھ ذی قعدہ ہی میں کرلیتے تھے اور پھر ان معاملات میں باہمی نزاعات اور جھگڑے ہوتے تھے ایک دوسرے کو گمراہ کہتا تھا۔
قرآن کریم نے ولا جِدَال فرما کر ان جھگڑوں کا خاتمہ فرمایا اور جو بات حق تھی کہ وقوف فرض عرفات میں اور پھر وقوف واجب مزدلفہ میں کیا جائے اور حج صرف ذی الحجہ کے ایام میں کیا جائے اس کا اعلان کرکے اس کے خلاف جھگڑا کرنے کو ممنوع کردیا۔
عرفات میں وقوف اور اس کے بعد مزدلفہ کا وقوف، پھر جب تم عرفات سے واپس آنے لگو تو مشعر حرام کے پاس خدا تعالیٰ کی یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس طرح تم کو بتلا رکھا ہے۔عرفہ کے دن بعد مغرب عرفات سے واپس آتے ہوئے مشعر حرام کے پاس ٹھہرنا چاہئے۔مشعر حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے۔اس میدان میں رات گذارنا اور مغرب و عشاء دونوں نمازوں کو ایک وقت میں مزدلفہ میں پڑھنا واجب ہے۔ مغرب کو عشاء کے ساتھ ادا کرنا اس جگہ کی مخصوص عبادت ہے۔ جاہلیت میں بھی لوگ مزدلفہ میں جگہ جگہ آگ جلاتے اور قصیدہ خوانی،داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسیں منعقد کرتے۔
قرآن کریم نے ان چیزوں کی جگہ ان کو تسبیح و تہلیل کی ہدایت فرمائی اس لیے کہ اصلاً ان مقامات کی حاضری اسی مقصد کے لیے ہے۔
اکثر اہل عرب حج وعمرہ کے لئے بے سر و سامانی کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں پھر راستہ میں بھیک مانگنا پڑتی ہے یا خود بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں،اس وجہ سے ان کو یہ ہدایت کی گئی کہ جب حج کے لیے نکلا کریں تو اس کے لیے زاد راہ کا انتظام کر کے نکلا کریں۔
قریش عرب بیت اللہ کے محافظ و مجاور تھے اور سارے عرب میں ان کا اقتدار مسلم تھا اور ان کی ایک ممتاز حیثیت تھی۔زمانہ جاہلیت میں وہ اپنی امتیازی شان بنانے کے لئے حرکت کرتے یہ تھیکہ سب لوگ عرفات کو جاتے اور وہاں وقوف کرکے واپس آتے تھے یہ لوگ راستہ میں مزدلفہ کے اندر ہی ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم چونکہ بیت اللہ اور حرم کے مجاور ہیں اس لئے حدودِ حرم سے باہر جانا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے۔
مزدلفہ حدود حرم کے اندر ہے اور عرفات اس سے خارج۔یہ بہانہ کرکے مزدلفہ ہی میں قیام کرلیتے اور وہیں سے واپس آجایا کرتے تھے،وجہ اس حیلہ بہانہ کی اپنا فخر و غرور اور عام لوگوں سے ممتاز ہو کر رہنا تھا۔حق تعالیٰ نے اس آیت کے تحت ان کو حکم دیا کہ تم بھی وہیں جاؤ جہاں سب لوگ جاتے ہیں یعنی عرفات میں اور پھر وہیں سے سب کے ساتھ واپس آؤ۔ترجمہ۔پھر طواف کے لئے پھر وہاں جہاں سے سب لوگ پھریں،اور مغفرت چاہو اللہ سے بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے ولا زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے منیٰ کے عظیم اجتماع میں خاص خاص بازار لگتے تھے نمائش ہوتی تھی تجارتوں کے فروغ کے ذرائع لگائے جاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ کرام ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں۔مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابو امامہ تیمی نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہوجاتا ہے؟
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ ایک شخص رسول کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آپ سے وہی سوال کیا تھا جو تم مجھ سے کر رہے ہو آنحضرت نے اس کو اس وقت کوئی جواب نہ دیا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ نے اس شخص کو بلوایا اور فرمایا کہ ہاں تمہارا حج صحیح ہے۔
اس آیت نے یہ واضح کردیا کہ اگر کوئی شخص دوران حج میں کوئی بیع وشراء یا مزدوری کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں،لیکن اگر اس سے بھی اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے۔اگر کسی شخص کی نیت اصل میں دنیوی نفع تجارت یا مزدوری ہے اور ضمنی طور پر حج کا بھی قصد کرلیا تب تو یہ اخلاص کے خلاف ہے حج کا ثواب اس سے کم ہوجائیگا اور اگر اصل میں نیت حج کی ہے،لیکن مصارفِ حج میں یا گھر کی ضرورت میں تنگی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے کوئی معمولی تجارت یا مزدوری کرلی یہ اخلاص کے بالکل منافی نہیں ہاں اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ خاص ان پانچ ایام میں ج کوئی مشغلہ تجارت و مزدوری کا نہ رکھے بلکہ ان ایام کو خالص عبادت وذکر میں گذارے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا