"حضرت میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ: ایک عہد ساز شخصیت "

0
0
ڈاکٹر وقار صدیقی
      خطہ جموں وکشمیرعرصہ دراز سے اللہ کے برگزیدہ ولیوں کا مسکن رہا ہے، جنھوں نے  اللہ اور اس کے پیارے محبوب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خوشنودی کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کرجموں کشمیرکے بیاباں جنگلوں، بلند وبالا کوہساروں اور غاروں  کو عبادت و ریاضت کے لیے اپنا اہم مسکن سمجھ کر بھوکے پیاسے اللہ کو راضی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے روحانیت کی تار جوڑ کر اپنے دل پر اللہ ھو کی ایسی گہری ضربیں لگائی کہ اللہ تعالیٰ نے ان بیاباں جنگلوں اور پہاڑوں میں ان کا مقام ومرتبہ بلند فرما کر صحراؤں کو شادابی بخش دی ۔
یوں تو خطہ جموں کشمیر  کے روحانی  افلاک پر بہت سی برگزیدہ ہستیاں روشن ستاروں کی طرح چمکی ہیں اور چمک رہی ہیں جن کی روحانی چمک نے جموں وکشمیر کے گوشے گوشے کو روشن کیا۔ ان روحانی ہستیوں میں سلسلہ نقشبندیہ کئیاں شریف کے روحانی فیض کا ایک درخشاں ستارہ ، میری مراد معراج السالکین، سید الصالحین امام العارفین، محبوب ربّ العالمین، شفیق خاتم المرسلین حضرت قبلہ جناب بابا عبیداللہ ، عرف حضرت بابا جی صاحب لاروی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور قطب الاقطاب  حضرت قبلہ میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند، پیر طریقت رہبر شریعت جناب حضرت قبلہ میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ، جن کی پیدائش 21 اکتوبر 1922 کو پہلناڑ وانگت کشمیر  کی سر زمین پر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول میں ہی ہوئی۔کیونکہ میاں نظام الدین لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دیتے ہوئے ابتدائی تعلیم کے سلسلے کا انتظام گھر پر  ہی  شروع کیا دربار سے وابستہ مولوی محمد عبداللہ چیچی رحمۃ اللہ علیہ (مولانا محمد اسماعیل ذبیح راجوروی کے والد محترم)  جن کا دربار لار شریف سے گہرا رشتہ تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اردو فارسی اور عربی کے  بہترین عالم تھے۔ آپ کو میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے قائم کیا اس کے ساتھ ساتھ آپ کی باقاعدہ رائش کا  انتظام بھی کیا۔ میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم کی بسم اللہ کا سلسلہ مولوی عبداللہ چیچی رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کروایا۔ مکتب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کی اسکولی تعلیم  کا سلسلہ گورنمنٹ پرائمری اسکول وانگت سے شروع ہوا اور یہاں ہی سے آپ نے پانچویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ اسکول نہ ہونے کی وجہ سے عصری تعلیم کا سلسلہ زیادہ آگے تک نہ چل سکا۔ لیکن دینی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے اس کے حصول کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس دورکے جید علماء کرام سے تعلیمی فیض حاصل کیا۔ جن میں مولانا فضل الرحمان رحمۃ اللہ علیہ (مظفرآباد) مولانا عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ،( ولیواڑ ) اور مولانا محمد ابرہیم رحمۃ اللہ علیہ (چھتر گل) کے  نام قابل ذکر ہیں، گھر کے علمی، ادبی اور روحانی ماحول سے میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت کچھ سیکھا، کیوں کہ آپ  رحمۃ اللہ علیہ کا بچپن حضرت بابا جی صاحب لاروی رحمۃ اللہ علیہ کی شفقتوں میں گذرا۔ حضرت میاں نظام الدین لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے سفر حج کی  سعادتوں کے بعد سیاسی میدان سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ساری سیاسی ذمہ داریاں میاں بشیر صاحب کے سپرد کیں، میاں بشیر احمد  لاروی رحمۃ اللہ علیہ 1967 سے لے کر 1986 تک سیاسی میدان میں انسانیت کے درد کو محسوس کرنے والے نڈر و بے باک لیڈر کی حیثیت سے سر گرم رہے آپ نے جنوری 1967 میں کنگن اسمبلی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیا،15 فروری 1971 کو میاں صاحب کو ریاستی وزارت میں نائب وزیر۔۔۔۔ کے طور پر شامل کیا گیا۔
1972 میں میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ کو دوبارہ ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں بھاری اکثریت سے حلقہ انتخاب کنگن سے کامیابی حاصل ہوئی اسی طرح میاں صاحب نے 1983  میں راجوری ضلع کے درہال حلقے سے الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے اس سفر سے جو بات صاف عیاں ہوتی ہے کہ دربار لار شریف کے عقیدت مند نہ صرف خطہ جموں کشمیر کے کسی ایک کونے میں ہیں بلکہ جموں وکشمیر کے کریا کریا  بستی بستی میں موجود ہیں یہ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے سیاست میں بھی اپنے اجداد کے روحانی فیوض کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام مذہب و ملت کی خدمت کرتے ہوئے اپنی قوم کی  تہذیبی وثقافتی پہچان کے دفاع کے لیے ہم کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے آبا و اجداد مرشد کامل کے پیغام کو مد نظر رکھتے ہوئے ، زندگی کو اصل مقصد کے لیے وقف رکھا اور  دین محمدی کا نڈر اور بیباک سپاہی بن کر ہمیشہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توحید کا پیغام بلند کیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی زندگی کا طویل حصہ راہ حق کا مسافر بن کر بیاباں جنگلوں میں رہنے والے خانہ بدوش طبقہ کے باشندگان کو ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی دین اسلام کی طرف راغب کیا جو اس "دنیا فانی” کو سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے۔ میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے ہر سیاسی ،سماجی اور مذہبی محاذ پر اپنے اسلاف کے ساتھ ساتھ بلخصوص محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیاسی سماجی اور مذہبی زندگیوں  کو اپنے ہر عمل کی کامیابی کا راز سمجھا، اور اسی کو آخری دم تک ترجیح دیتے رہے کیوں کہ ان کی روحانی نگاہوں کے سامنے اپنے اسلاف اور اسلامی معرکوں کے تاریخی واقعات عیاں تھے۔ جس کے لیے انہوں نے تمام رنگ و نسل مذہب و ملت میں حق اور سچ کی دعوت کو عام کیا ،حق اور سچ کی ہی ہمیشہ فتح ہے جس کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ دین محمدی کے چراغ سے لو لگائی ۔
  میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ اپنے آباؤاجداد کی محنتوں و ریاضتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے فرامین کو سینے سے لگاتے ہوئے دعوت و تبلیغ کی طرف ان غریبوں کو راغب کیا جو دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی دولت سے غریب تھے اس مشن کے لیے انہوں  نے اپنی زندگی کو دین حق کی سر بلندی کے لیے آخری سانس تک مسافر بنائے رکھا۔
  حضرت  قبلہ میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات بھی صاف عیاں ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے  دین محمدی کو عام کرنے کیلئے کئی کئی دنوں تک  بھوکے پیاسے پیدل سفر کر کے غاروں میں راتیں گذار کر اللہ کی توحید اور محمد  عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو ان لوگوں اور ان قبیلوں میں عام کیا جو اس چار دن کے مسافر خانے کو  ہمیشہ کا مقام سمجھ کر زندگی کے دن گذر بسر کر رہے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے روحانی فیوض سے دین حق سے دور رہنے والوں کو دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے قریب لا کر الحمدللہ ان کی زندگیوں میں دین اسلام اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہاروں کو قائم کیا اور اپنی آخری  سانس تک اپنے آباؤاجداد کی نیک اور خوش ارواح، کی رضا کے صدقے میں دعوت و تبلیغ کے  مشن  کو عام کر تے رہے اور اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو اصل زندگی کا نصاب سمجھایا اور وہ راستہ دیکھایا جس پر چل کر ہمیشہ کامیابی ہی  کامیابی ہے ۔
 حضرت قبلہ میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ نہایت ملنسار اور خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت محمدی پر خود بھی پابندی سے عمل کرنے  والے تھے اور اپنے مریدوں کو نماز ،روزہ، زکوٰۃ حق اور سچ بولنے کی ہمیشہ دعوت دیتے تھے۔پس ان ہی پہلوؤں کا اثرمیاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی سفر پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ حقیقت جو نکھر کر سامنے آتی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسلاف کی سیاسی و سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ بلخصوص نبی پاک صلی علیہ وآلہ اور ان کے اصحاب کی زندگیوں  کو روحانیت کی آنکھ سے پڑھا اس لیے ان کی سیاسی زندگی دوسرے سیاسی لیڈروں سے الگ تھلگ نظر آتی ہے میاں صاحب نے فرقوں کی حدوں اور مذاہبِ کی سرحدوں سے اوپر اٹھ کر اپنے روحانی کمالات سے عوام الناس کے اذہان کو سکون اور تسکین قلب سے سرشار کیا ہے، عہد حاضر کے اولیاء کرام میں آپ کا  بلند مقام تھا آپ روحانیت کے اس مقام پر فائز تھے کہ جہاں سے اللہ تعالیٰ کی طرف راہیں روشن ہوتی ہیں آپ نے اپنی آخری سانس تک عوام الناس میں دینی اصلاح اور دنیاوی فروغ کے لیے بر سرِ پیکار رہے۔
  اسلامی تاریخ کی ورق گردانی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنھوں نے سب کچھ اللہ اور اس کے پیارے محبوب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کا سب کچھ سمجھ لیا۔ پھر اللہ نے ان کی شان زماں و مکاں سے  بالا تر کر دی۔ اسی لیے اللہ والوں کے منہ سے نکلنے والی بات اللہ کی طرف سے پیغام  اور ہر اٹھنے والا ہاتھ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ پس دربار لار شریف کے بزرگوں نے بھی آج  تک اللہ اور اس کے محبوب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور مرشد کامل کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی سماجی اور مذہبی مقام پر خدمت خلق کے فریضے کو  ترجیح دے کر اللہ کی خوشنودی حاصل کی ہے۔ ہمیشہ درد دل سے دوسروں کے درد کو محسوس کرکے اس میں شریک ہو کر پریشان حالوں کی راحت  کا ذریعہ بنے ہیں۔ اس بات کی وضاحت اس واقعہ سے بھی صاف عیاں ہوتی ہے۔ ” اشعار نظامی” کتاب کے شروع میں حضرت قبلہ میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے مختصر تعارف کے صفحہ نمبر 14/15 پر میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مشہور واقعہ کو تحریر کیا ہے :
"ایک دفعہ اوڑی کا ایک بندہ جو جذام کے مرض میں مبتلا تھا حضور قبلہ بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے ہاتھوں کی انگلیاں جھڑی ہوئی تھیں مشکل  سے چھڑی کے ایک سرے کو تھام رکھا تھا۔ جس کے دوسرے سرے پر شہد سے بھرا ہوا برتن بندھا ہوا تھا۔ عرض کی حضور اس برتن میں شہد کسی اور سے ڈلوا کر لایا ہوں،میں نے اپنے جسم س اسے دور رکھا ہے اگر حضرت قبول فرماویں۔۔حضرت قبلہ بابا صاحب اس وقت شیخ المشائخ حضرت جناب بابا جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دربار سے جناب حاجی نوران شاہ صاحب کو رخصت کرنے میں مصروف تھے،کہ اس شخص کے ان جملوں کی طرف توجہ ہوگئی آپ رحمتہ اللہ علیہ رو پڑے اور بڑے جلال سے فرمایا ۔ ادھر آؤ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آج تمہیں اچھا کر دے گا۔ یا میرا حال بھی تیرے جیسا ہو جائے گا۔ اسے سینے سے لگایا اور روتے رہے پھر فرمایا جاؤ اس درحت کے نیچے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تماشا دیکھو۔ یہ شخص  بالکل اچھا ہوگیا ۔ اس کی شادی ہوئی بچے ہوئے، اور وہ یہاں کچھ عرصہ لنگر کی خدمت بھی کرتا رہا۔”” حوالہ  کتاب ۔ "اشعار نظامی” ص نمبر (14/15)
    مذکورہ اقتباس کی سطور سے یہ بات صاف طور سے نکھر کر سامنے آتی ہے کہ دربار لار شریف نے ہر اعتبار سے عوام الناس کی خدمت کو ترجیح دی ہے چاہے وہ سیاسی یا سماجی ہو یا  علمی و ادبی میدان ہو ہر لحاظ سے عوامی مسائل کا حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ  نے بھی اپنے سیاسی سفر کے دوران جہاں اپنے اسلاف کے اثر کو قبول کیا ہے وہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کو ہمیشہ اپنی مذہبی اور سیاسی زندگی کے لیے بہترین آئنہ سمجھ کر آخری دم تک غریب پروری کرتے رہے حق وباطل کی پہچان بتا کر ہمیشہ مظلوم کی مدد اور اس کی آواز بنے کر ظالمین کو ظلم کرنے سے روکنے کے لیے ہر محاذ پر سرگرم رہے ہیں۔
  میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ کے شعبہ حیات کے جہاں ہر شعبہ  پر حق و صداقت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے وہیں بالخصوص ان کے سیاسی وسماجی، شعبوں میں بھی حق و صداقت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ مختصراً  یہی کے میاں صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے اپنی سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں  سے سماجی سطح پر بہترین خدمات انجام دی ہیں۔ سماج میں نفرت کو ہوا دینے والے شر پسند عناصر  اور آپسی بھائی چارہ کی عمارت کو مسمار کرنے والوں کے سامنے  ایسے حسن اخلاق سے پیش آئے ہیں کہ وہ بھی میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے اس کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ میاں صاحب نے اپنے مذہبی اور روحانی فیض سے سماج میں امن دوستی اور آپسی بھائی چارے کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو ناقابل فراموش ہیں  ۔ بالخصوص میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے آبا و اجداد کی سماجی سطح کی بے شمار قربانیاں ہیں جن میں سے سماج میں بسنے والی اس مظلوم قوم کے لئے قربانیاں پیش پیش ہیں جو قوم بے منزل کی مسافر بنی پھر رہی تھی ،جس قوم  نے ہمیشہ مال مویشی اور جنگلوں کو ہی اپنا مستقبل سمجھ رکھا تھا۔ آج بھی اکثر اس قوم کے افراد مال مویشی سے اپنے نان و نفقہ کا انتظام کرتے ہیں لیکن میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے  اپنے اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس قوم کی ہر محاذ پر حقوق کی پاسداری کے حق میں آواز بلند کی ہے اور ان میں تعلیمی بیداری ،سیاسی بیداری، مذہبی بیداری اور ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کی خاطر ہر طرح سے ان کی پہچان کا دفاع کیا ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی سماجی خدمات بلخصوص سماج کے اس پچھڑے ہوئے طبقے کے ساتھ ہمدردی اور ان کے مسائل پر غور فکر کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت ہند کی جانب سے آپ کو 2008 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا پدم بھوشن ایوارڈ ہندوستان کا سب سے تیسرا بڑا ایوارڈ مانا جاتا ہے۔
  پس آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سیاسی، سماجی، اور مذہبی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کی اٹھانوے سالہ زندگی  کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حضرت قبلہ میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ نے  سیاسی میدان میں بھی عوام الناس کی دینی نشوونما روحانی تربیت سے عقیدت مندوں کی خدمات کے علاوہ سماجی سطح پر ہونے والی نابرابری کا قلع قمع کر کے مظلوموں کا ساتھ دینا ، بے سہاروں کی  آواز بننے کے لیے آپ کا سیاسی میدان میں حصہ لینے کا اصل مقصد تھا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی سیاسی زندگی کا سفر عام لوگوں کی سیاسی زندگیوں سے بالکل جدا نظر آتا ہے حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ان کی سیاسی زندگی پر دربار لار شریف کے بزرگوں کا روحانی عکس ، دینی سوجھ بوجھ محبت اور اخوت کا جذبہ نظر آتا ہے کیونکہ آپ کی ذات شریعت محمدی کی ایک پیکر مجسم تھی تقویٰ  آپ کی فطرت کا سرمدیت سرمایہ تھا۔ طریقت ،معرفت اور حقیقت آپ کا سرمایہ حیات تھا آپ کی ذات  اسم ذات میں متفرق تھی ۔ اسی لیے سیاسی و سماجی مقام پر بھی آپ کی ذات انفرادیت کے لباس میں ملبوس نظر آتی ہے۔ کیوں کہ لار دربار نے سیاسی،سماجی، علمی ، ادبی ،اور مذہبی ، سطح پر  تمام مذہب و ملت ذات برادری کے شعبہ حیات کے لئے بہترین رہنمائی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہمیشہ ہر فرد کو کامیاب راستوں کا مسافر بنایا ہے۔
حضرت قبلہ میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال کے موقعہ پر عقیدت مندوں نے لار دربار کی اس روحانی ہستی جناب میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے  اس پیغام کو جو انہوں نے 1927 کو حضرت قبلہ بابا جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کے موقعہ پر میاں بشیر احمد صاحب اور ان کے دوسرے بھائیوں کے ساتھ چند دوسرے احباب کو بلا کر چھوٹی مسجد میں بعیت فرما کر سب کو مخاطب کر کے میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے دیا تھا” میرے بعد میاں بشیر احمد صاحب کو اپنا بابا سمجھنا اور اسی احترام کے ساتھ پیش آنا جیسا میرے ساتھ آیا کرتے تھے اب تم سب کو اللہ کے  حوالے کرتا ہوں اور بشیر صاحب کے سپرد کرتا ہوں آج کے بعد میری جگہ تم بشیر کو دیکھنا تمہارے پر فرض ہےکہ اسے میری جگہ دیکھو اور بابا مانو۔ بشیر کا یہ فرض ہے کہ جہاں تمہارا پسینہ بہے گا وہاں یہ خون بہائے گا۔۔۔۔ بعیت فرمانے کے بعد  میاں نظام الدین  لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے فرمایا ۔ ” بشیر صاحب اوپر زیارت شریف پر جاؤ اور میرے لیے دعا مانگو”
 یہ سنتے ہی میاں بشیر احمد صاحب کی آنکھوں سے آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔  آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا۔
” یہ وقت رونے کا نہیں جو مہربانی تم پر ہے وہ مجھ پر ہوتی تو یہ دنیا دیوانی ہو جائے”
میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ چھوٹی مسجد سے باہر نکلے عقیدت مندوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب  کرتے ہوئے یہ پیغام دیا تھا :
” یہ وقت رونے کا نہیں میں نے تمہیں اللہ کے رسول اور بشیر کے حوالے کیا ہے۔ آج کے بعد یہ میرا آخری خلیفہ جانشین اور زیارت بابا جی صاحب کا مجاور ہے”
  پس اس پیغام کا اثر میاں بشیر احمد صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال (14اگست2021)
کے موقعہ پر عقیدت مندوں کے قلوب کے صفحہ قرطاس پر تروتازگی کے ساتھ نقش نظر آیا ہے جس کا ثبوت لار دربار کی سر زمین پر میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ کو قبر مبارک کے اندر اتارنے کے موقعہ پر ہزاروں  عقیدت مندوں کی اشکبار آنکھوں سے ہوا ہے۔ لار دربار کے محبین اور میاں بشیر احمدلاروی رحمتہ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں نے پر آشوب حالات میں بھی یہ ثابت کیا ہے کہ زندگی میں سب کچھ ترک کیا جا سکتا ہے۔ جلا وطنی قبول کی جا سکتی ہے ۔ سیاست کی کرسی چھوڑی جا سکتی ہے۔ گھر بار چھوڑا جا سکتا ہے دنیا داری سے رشتہ منقطع کرنا منظور ہے ۔ عادت اور طور طریقے کو چھوڑا جا سکتا ہے راستوں کی پابندیوں کو جان پر کھیل کر عبور کرنا آسان ہے۔لیکن دربار لار سے رشتہ اور  حضرت میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت و محبت نہیں چھوڑی جا سکتی کیوں کہ لار شریف کی سر زمین سے روحانیت کا ایسا چشمہ  پھوٹا ہے جس نے تمام رنگ و نسل تمام مذہب و ملت کی سیاسی، سماجی، علمی ،ادبی،اور مذہبی زمینوں کو اپنے روحانی فیض سے سیراب کر کے سر سبز و شادابی بخشی ہے۔ ہر اعتبار سے خدمت خلق کا فریضہ ادا کیا ہے
  پس  کیا کر سکتے ہیں الله سبحانہ ٗو تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہر ذی روح کے لیے مقرر ہے کہ جس میں ایک پل بھی دیرنہیں ہوسکتی۔ ہر شے کو ایک دن اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے لہذا ہم سب اس پاک ذات کے فیصلے پر رضامند ہیں اللہ اپنی رحمت کے صدقے  حضرت قبلہ میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے۔ اور آج کے اس پر آشوب اور پرفتن دور میں پوری قوم و ملت کو استقامت عطا فرمااور اپنے فضل وکرم سےحضرت میاں بشیر احمد لاروی رحمۃ اللہ علیہ جیسا مردمجاہد عطا  فرما جو سیاسی ،سماجی، اور مذہبی سطح پر انسانیت کے درد کو محسوس کر کے سمجھ سکے۔۔
شام در شام جلیں گےتیری یادوں کے چراغ
نسل   در    نسل   ترا   درد   نمایاں   ہوگا
تحریر: ڈاکٹر وقار صدیقی
 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا