پیدائش۔ نومبر ۱۹۲۳ء ۔ وفات ۔ ۱۴۔اگست۔۲۰۲۱ء
پروفیسر قدوس جاوید
سابق صدر شعبئہ اردو۔کشمیر یونی ورسیٹی
عالم ِکی موت ،عالَم کی موت ہوتی ہے ۔اور اگر اُس عالم کا شجرہ نسب کشف و کرامات کے حامل صوفیا ئ۔ سے بھی ملتا ہوتو ایسے بزرگ کی رحلت پر شاید فرشتے بھی آنسو بہاتے ہونگے ۔ ۱۴۔اگست ۔۲۰۲۱ئ۔ کو ،مسیحا صفت روحانی قائد بشیر احمد لاروی کے انتقال کے بعد ’لار ‘ سے ’لاہور ‘تک، کشمیر سے کاغان تک ، سرحداور سیاست ،قبیلہ اور زبان سے ماورا ،ماتم اور سوگواری کے جو مناظر دیکھنے میں آئے اس سے یہ تو اندازہ ہوگیا کہ موجودہ دور میں میاں بشیر احمد لاروی ہی کی ذات تھی جنہیں ہر حلقہ،طبقہ، کے لوگ مرجع خلائق مانتے تھے ۔
حضرت میاں بشیر احمد ؒکی شخصیت ، خاندانی پس منظر ، فیوض و برکات اور دینی و دنیاوی سرگرمیوں کے بارے میں ’’ متاعِ فقر و دانش‘‘ میں کافی تفصیلات درج ہیں ۔مشہور قلم کاروں جناب خوشدیو مینی، چودھری اقبال عظیم اور محمد منشا /میاں ارشاد کی کوششوں سے یہ بابرکت کتاب پہلی بار ۔۲۰۱۲ئمیں شائع ہوئی ۔اس کے علاوہ بھی حضرت میاں بشیر صاحب کے بارے میں تحریری اور زبانی صورتوں میں ،بہت ساری روایات بکھری پڑی ہیں جن سے اکثر لوگ واقف بھی ہیں ۔پھر بھی میاں بشیر احمد صاحب مرحوم کو خراج عقیدت نذر کرنے کے لئے ان کے خاندانی پس منظر سے متعلق چند روایات اورحقائق کو از سر نو یاد دلانا مناسب ہوگا ۔
میاںبشیر احمد کے دادا حضرت میاں عبداللہ صاحب عرف بابا جی صاحب لاروی تھے ۔ان کی ولادت بالا کوٹ ،ضلع’ ہزارہ ‘ میں ہوئی جو آج کی تاریخ میں پاکستان کے دریائے۔جہلم کے ایک کنارے پر واقع ہے،جب کہ دوسرے کنارے پر کشمیر کے علاقے آتے ہیں ۔بابا جی صاحب شاعر اور ادیب بھی تھے ’’اسرار کبیری‘‘ اور ’’مجموعہ سی حرفی ‘‘ (پنجابی )ان کی شعر ی تصنیفات ہیں ،نثر میں ’’مجموعہ ’’ملفوظات نظامیہ ‘‘ تصوف کے موضوع پر ایک شاہکار تصنیف ہے ۔میاں بشیر احمد کے والد ماجد اور دادا بابا جی صاحب ؔ لاروی کے فرزنداور خلیفہ حضرت میاں نظام الدین ؒ بھی اپنے والد کی طرح صاحبِ کشف و کرامات تھے ۔انہیں بھی ذوق شاعری ورثے میں ملا تھا ، ان کے فرزند اور خلیفہ حضرت میاں بشیر احمد ؒ نے ان کا کلام ’’اشعار نظامی ‘‘ کے نام سے پہلی بار اگست ۱۹۸۵ئ۔ میں شائع کیا تھا ۔میاں صاحب نے گو جری زبان کے صوفی شعرا کا کلا م ’’ نیر سمندر ‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں شائع کیا تھا ۔ ’نیر سمندر کا پہلا حصہ ۷ ۹ ۱۹ ء میں اور تیسرا حصہ ۲۰۰۳ئ۔میں منظر عام پر آیا ۔پہلے حصے میں جن شعرا کا کلام شامل ہے ان میں حضرت میاں نظام الدین لاروی، حضرت سید نوراں شاہ،حضرت مولوی حبیب شاہ ؒ،حضرت میاں محمودؒ،حضرت خدا بخش زار ؔ،سائیں قادر بخش ،سید برکت شاہ اور سید باغ حسین شاہ شامل ہیں۔ ’’نیر سمندر ‘‘ کے پہلے حصے کی بے پناہ مقبولیت کے بعد میاں بشیر احمد صاحب نے اس مجموعے کی دوسر ی اور تیسری جلد بھی شائع کی ۔ناشر خود میاں صاحب تھے۔ انہوں نے تیسری جلد میں ’عرض ناشر‘ کے عنوان سے لکھاہے کہ،’’ مجھے اپنے اسلاف سے شعر و ادب کا بیش بہا سرمایہ ،کسی بھی نوعیت کی شیرازہ بندی سے عاری صورت میں ملا ۔ جس کا ہر لفظ اپنی اعلی ادبی حیثیت میں ،ترتیب و تزئین کا متقاضی تھا ۔ حروف کی روشنی اور الفاظ کی خوشبو کو بصارت اور سماعت تک رسائی کے لئے مضطرب دیکھ کر میں نے ’’نیر سمندر ‘‘ کے عنوان سے یہ فن پارے مرتب کر کے کتابی صورت میں چھاپنے کا بیڑہ اٹھایا ‘‘۔
یہاں ’ حروف کی روشنی ‘ اور’ الفاظ کی خوشبو‘ جیسی ترکیبات کے حوالے سے ،شعرو ادب میں زبان ( حروف و الفاظ) سے متعلق میاں بشیر احمد ؒ کے لسانی اور تنقیدی شعور کے بارے میں طویل بحث کی جا سکتی ہے ۔ عربی میں قدامہ بن جعفر (نقد الشعر ) اور عبد القاہر جُرجانی ( دلائل الاعجاز) فارسی میں نظامی عروضی سمر قندی (چہار مقالہ ) اور رشید الدین وطواط ( حدائق الشعر فی دقائق الشعر ) کے علاوہ مغربی دانشوروں میں سوسئیر ( SAUSSURE )نے A General Course in Linguistic میں، اور ر’وسی ہئیت پسندRussian Formalist دانشوروں ‘ رومن جیکوبسن اور شکلووسکی وغیرہ نے شاعری میں زبان کے تخلیقی اور فکری کردار کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی روشنی میں حضرت میاں بشیر ؒکی ’بات ‘ کو حق و معرفت کے حوالے سے بہت دور تک پھیلایا جا سکتا ہے لیکن یہاں اس کا موقع نہیں۔میاں بشیر صاحب مرحوم ان کے والد میاں نظام الدین اور دادا بابا جی صاحب ، سے وابستہ کتابیں اب کمیاب ہو چکی ہیں اور انہیں نئے سرے سے شائع کرنا ضروری ہے ۔اب یہ ذمہ داری حضرت میاں بشیر احمد صاحب ؒ کے فرزند ، خلیفہ نیشنل کانفرنس کے سینئیر رہنما اور ریاست کے سابق وزیر جناب الطاف احمد لاروی کے کاندھوں پر آگئی ہے ۔مرحوم میاں بشیر احمد ؒ کو روحانی اور دینی کے علاوہ سیاسی معاملات میں بھی عوام الناس کی رہنمائی کرنے کی روایت ، اپنے والد حضرت میاں نظام الدین ؒ سے ملی تھی۔سردار رفیق حسین خان (سابق ریاستی وزیر) نے’اشعار نظامی ‘ میں ’ گُلہائے عقیدت کے عنوان کے تحت لکھا ہے،
’’آپ(حضرت میاں نظام الدین مرحوم ) خانقاہِ عالیہ دربار نقشبندیہ ’وانگت‘ کے سجادہ نشیں ہونے کے علاوہ ’’تحریک حُریت ‘‘کے صفِ اول کے رہنمائوں میں شامل تھے ۔آپ نے ۱۹۳۱ئ۔ سے لے کر ۱۹۶۴ئ۔تک سماجی،ملی، مذہبی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی معاملات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔تحریک حریت کے روح رواں رہے آپ نے جاگیر دارانہ اور ساہوکاری (نظام)کے خلاف مجاہدانہ جنگ بھی لڑی ۔حج کعبتہ اللہ سے واپسی پر آپ نے سیاست سے کنارہ کشی کرکے اپنی زندگی مذہبی اور سماجی خدمات کے لئے وقف کر دیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت نظام الدین جنہیں عام طور پر حاجی بابا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، ان کے عقیدت مند پورے بر صغیر ہند و پاک میں موجود ہیں ۔ ۔۔وہ بہت بڑے ۔عالم، ،با عمل فاضل شاعر اور کامل ولی تھے ۔آپ کی تحریروں میں ڑوحانیت اور مخلوق خدا سے محبت عیاں ہے ۔ آپ نے اردو ،پنجابی ،پہاڑی اور گوجری زبان میں فکر انگیز اشعار کہے ہیں ۔ آخری ایام میں آپ نے اکثر اشعار گوجری زبان میں کہے ہیں‘‘۔ حاجی بابا کے شیخ محمد عبداللہ سے گہرے تعلقات تھے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ پندرہویں صدی عیسوی میں بادشاہ زین العابدین ’’بڈ شاہ ‘‘کے بعد سے ہر دور میں کشمیر بحران سے دوچار رہا ۔ خاص طور پر ۱۸۴۶ء میں ’’بیعہ نامہ امرت سر ‘‘کے تحت ، گلاب سنگھ کے ہاتھوں ’’ڈوگرہ راج کے قیام کے بعد اس قدیم خطے کے لئے ’’ریاست جموں وکشمیر ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی ۔یہ ریاست چار صوبوں پر مشتمل تھی ۔ ۱۔صوبہ کشمیر (وادئی کشمیر ) ۔۲۔صوبہ جموں ۔۳۔خطہ لداخ ۔۴۔ شمالی علاقہ جات یعنی [گِلگِت،بلتستان وغیرہ ۔ ڈوگرہ راج میں مبینہ طور پر عوام خصوصا ً مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کی جا رہی تھیں ۔اس عوامی ظلم و جبر سے ریاستی عوام کو نجات دلانے کے لئے ہی شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں’’ نیشنل کانفرنس ( مسلم کانفرنس )کا قیام عمل میں آیا ۔ مسلم کانفرنس/ نیشنل کانفرنس صرف ایک سیاسی جماعت نہیں ’’ نیا کشمیر ‘‘ کی تعمیر کے حوالے سے ایک سیکولر اور جمہوری نظریہ، اور فلسفئہ حیات کا نام ہے ۔نیشنل کانفرنس کا مقصد محض اقتدار کا حصول نہ کل تھا نہ آج ہے ۔ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، لیکن ہندئووں کے بعد سِکھوں کی بھی خاصی آبادی ہے ۔ ڈوگرہ مہاراجے ہندو ہونے کے باوجود کٹر مسلم دشمن نہ تھے۔ ہندو مسلم کشمکش کا بیج ، تقسیم ملک /قیام پاکستان کے دنوں میں انگریزوں اور بعض فرقہ پرستوں نے بویا ۔ تقسیم ملک کا فارمولہ یہ بنایا گیا تھا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان میں رہیں گے ۔اس فارمولہ کے مطابق پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہو گئی ،سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد کے علاقے پورے طور پر پاکستان کا حصہ بن گئے ۔ انگریز حکومت کی وفادار ریاستوں کے راجائوں اور نوابوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا خود فیصلہ کریں ۔ نظام حیدر آباد (موجودہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو اور مہاراشٹر کے کچھ علاقے )اور ’جونا گڑھ ‘ کے نوابوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا لیکن حکومت ہند نے فوجی کاروائی کر کے ان دونوں ریاستوں کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا اور دلیل یہ دی گئی کہ ان دونوں ریاستوں میں حکمراں مسلمان ہیں لیکن ۸۰ فیصد آبادی ہندئووں کی ہے ،اس لئے ان کا پاکستان میں شامل ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ ریاست جموں کشمیر کا معاملہ اس کے برعکس تھا ۔ یہاں ۸۰ فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی لیکن حکمراں (مہاراجہ ہری سنگھ ) ہندو تھا ۔ مہاراجہ ریاست کی ایسی خود مختار ی چاہتا تھا جس میں ’دفاع‘ کی ذمہ داری ہندوستان اور پاکستان دونوں لیں ۔ لیکن مہاراجہ کو کہا گیا کہ وہ کسی ایک ملک میں ضم ہونے کا حتمی فیصلہ کریں۔ شیخ محمد عبداللہ ہندوستان کے اندر ہی جموںو کشمیر کی مکمل داخلی خود مختاری چاہتے تھے ۔(مہاتما گاندھی شیخ صاحب کی قدر کرتے تھے اور پنڈت نہرو شیخ صاحب کے عزیز ترین دوست تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ پنڈت نہرو کے مشورے پر ہی شیخ صاحب نے ’’مسلم کانفرنس ‘‘ کا نام بدل کر ’’نیشنل کانفرنس ‘‘ کیا تھا ،اور پاکستان میں شامل ہونے سے منع کیا تھا) ۔
جموں و کشمیر کی آزادی کی تاریخ میں نیشنل کانفرنس اور شیخ محمد عبداللہ کا کیا کردار رہا ہے اور خاص طور میاں نظام الدین ؒ اور میاں بشیر احمد جیسے روحانی قائدین شیخ محمد عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کی دل و جان سے پُرزور حمایت کیوں کرتے رہے ۔ اس کے درجنوں جواز پیش کئے جا سکتے ہیں ۔شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی جدو جہد اور قیدو بند کی تفصیل آتشِ چنار ‘‘( محمد یوسف ٹینگ ) اور نورانی ،صراف سے لے کر خالد بشیر احمد تک کی کتابوں میں موجود ہے ۔ لیکن شیخ محمد عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کی حمایت کی اور بھی کئی وجوہات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے مثلا ۴۷ء میں جب پورے برصغیر میں فرقہ وارانہ فسادات کا تانڈو ناچ ہو رہا تھا ،میر پور ،مظفر آباد ،باغ، پلندری ،بھمبر،کوٹلی اور پونچھ میں ہندئوں اور سکھوں کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ۔ لیکن شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر کو جس طرح ہندئوں ،مسلمانوں اور سکھوں کو متحد رکھا وہ اس زہرناک ماحول میں ایک روشن تاریخی حقیقت ہے۔ ان دنوں نیشنل کانفرنس کے کارکُن کشمیر کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر نعرے لگا تے رہتے تھے۔
’’ہوشیار ،خبر دار ۔ ’’ شیر کشمیر کا کیا ارشاد،ہندو مسلم سِکھ اتحاد ‘‘۔
وادی کشمیر میں مذہب کے نام پر کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا، جبکہ انہیں دنوں U.N.O کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ جموں میں تقریبا دو لاکھ سنیتیس ہزار مسلمان مارے گئے ۔جبکہ ہلاک ہونے والے ہندئوں اور سکھوں کی تعداد ساٹھ ستر ہزار بتائی جاتی ہے ،بعض دوسرے مورخین نے مسلمان شہدا کی تعداد چار لاکھ کے قریب بتائی ہے ،مشہور انگریزی روزنامہ KASHMIR TIMES کے بانی مدیر ادیب اور دنشور جناب وید بھسین نے اپنے ایک مقالے میں صوبہ جموں کے فسادات کا آنکھوں دیکھا حال نہایت غیر جانبداری کے ساتھ بیان کیا ہے ،کشمیر کے اردو روزناموں،خاص طور پر ’’ہمدرد، ’ خالد‘، خدمت ‘اور’ وکیل ‘ وغیرہ میں مسلم کُش فسادات کی تفصیلات آج بھی محفوظ ہیں۔
اس پس منظر میںحضرت میاں نظام الدین، سے لے کر میاں بشیر احمد ؒاور میاں الطاف صاحب لاروی وغیرہ سب کے سب ، شروع سے ہی غیر مشروط طور پر ’نیشنل کانفرنس ‘ سے عملی طور پر وابستہ رہے ، ان کی وابستگی اس عوام دوست جماعت کی عوامی سیاسی اور سماجی مقبولیت کی کلید ثابت ہوتی رہی ہے ۔ریاست میں’ قبائلی حملہ‘ اور جلد بازی میں ہندوستان کے ساتھ ہونے والے ’’الحاق ‘‘ کے وقت سے ہی ،ریاست میں سیاسی ریشہ دوانیوں ، وفاداریوں کی خرید فروخت ، قوم اور قیادت سے غداری اور منافقت کے عجیب و غریب کھیل تماشے ہوئے لیکن ’’لاروی ‘‘ خاندان اور ان کے طفیل عام عوام خصوصا ً گوجر قوم کے جیالے نیشنل کانفرنس کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے ۔ اس کی ایک اور اہم وجہ بھی تھی جس نے شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیا۔وہ وجہ یہ تھی کہ طویل جدو جہد اور قُربانیوں کے بعد ، ’’اقتدار سنبھالتے ہی حالات کو قابو میں کرنے کے لئے تین انقلابی قدم اٹھائے۱۔ زمین کاشت کار کی ۔۲۔مفت تعلیم ۔اور۳۔سود خوری نظام کا خاتمہ ۔ ان فیصلوں سے نچلے اور متوسط طبقہ کے لوگ خوش اور سرمایہ دار طبقہ ناخوش ہو گیا۔ مرکزی حکومت اور مقامی منافق سیاسی لیڈروں کو شیخ صاحب اور نیشنل کانفرنس کی روز افزوں بڑھتی ہوئی مقبولیت گوارہ نہ تھی اس لئے سازش شروع ہو گئی ۔اس کے بعد شیخ صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا بچہ بچہ جانتا ہے۔
میاں نظام الدین ؒ شیخ محمد عبداللہ کو عزیز رکھتے تھے ، شیخ عبداللہ بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔ جب میاں نظامالدین ؒنے اس دار فانی سے کوچ فرمایا تو ان کی وصیت کے مطابق شیخ محمد عبداللہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔
باباجی صاحب ( حضرت عبداللہ) کی عمر ابھی صرف چار سال کی ہی تھی کہ ان کے والد حضرت میاں پھل گُل ؒکا انتقال ہو گیا ۔ ہزارہ میں پختون قبیلہ کے لوگوں کے علاوہ ’گوجر بجران قوم کی بھی اچھی خاصی آبادی تھی۔ میاں عبداللہ مادر زاد ولی تھے ، بچپن سے ہی مذہبی و روحانی تعلیمات سے وابستہ ہو گئے تھے اور کم سِنی سے ہی ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے ۔ اس دور کے مشہور ولی حضرت غوث زمان ، مسند آرا’’کیاں شریف‘‘،مظفر آباد کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت حاصل کی اور کچھ عرصہ بعد انہیں خلعتِ خلافت سے بھی نواز دیا گیا ۔ انہیں سلسلہ قادریہ کے حضرت میاں احمد گل صاحب ؒاور ان کے فرزند میاں محمد اسحاق صاحب گھنیلہ شریف( ضلع ہزارہ) سے بھی فیض حاصل تھا ۔ اسی طرح آپ کو حضرت عبدالغفور المعروف آخون صاحب سوات شریف سے بھی خلافت حاصل تھی ۔ بابا صاحب علوم ظاہری سے زیادہ علوم باطنی سے مالا مال تھے ۔ باباجی صاحب لارویؒ کے مریدان اور عقیدت مند ہزارہ سے لے کر ’کاغان ‘ اور کشمیر تک پھیلے ہوئے تھے ۔ ان کا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت ، درس و تدریس اور اپنی روحانی قوتوں سے ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں گذرتا ۔ان کے فیوض و برکات اورکشف و کرامات کے قصے آج بھی زبان زد عام ہیں ۔ جب ان کے مرشد کو اطمینان ہو گیا کہ بابا جی صاحب اب خود ولی کامل ہوچکے ہیں تو انہیں اشاعت دین اور فلاحِ خلقت کے لئے کشمیر کی جانب روانہ کر دیا ۔ باباجی صاحب نے اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں گاندر بل ضلع کے’’ کنگن ‘‘بلاک میں ’’لار ‘‘ کے علاقے میں سکونت اختیار کی ۔ باباجی صاحب کا تعلق ’گوجر بجران قبیلے سے تھا ،لیکن ہر قوم قبیلہ کے لوگ ان کے مرید اور ارادت مند شامل تھے جن میں بڑی تعداد سادات کی بھی تھی ۔ چنانچہ جب وہ ہزارہ سے لار آئے تو ان کے ساتھ گوجرو ں کے علاوہ پختون قبیلہ کے بھی بہت سارے لوگ ’لار‘ آئے ۔ ’لار‘ کے علاقے میں آج بھی پختونوں کے کئی خاندان آباد ہیں۔باباجی صاحب لارویؒ سے کئی کرامات وابستہ ہیں ۔ روایت ہے کہ ایک بار وہ پونچھ کے موضع لسانہ میں دریا کے کنارے ایک چٹان پر کھڑے ہو کر ایک بہت بڑے مجمع کو اپنے روحانی کلمات سے فیضیاب کر رہے تھے ۔ خطاب کے آخر میں جب وہ عام مسلمانوں کی فلاح کے لئے ہاتھ اٹھا کر ،اللہ کے حضور گِریہ و زاری اور دُعا کر رہے تھے تو اسی وقت ایک معجزہ ہوا ۔ باباجی صاحبؒ جس پتھر پر کھڑے تھے وہ پگھل کر موم ہو گیا اور اس پر باباجی صاحب کے پائوں کے نشان نمایا ہو گئے ۔ لوگ اس معجزے سے بہت متاثر ہوئے ۔لوگوں نے از راہ عقیدت اس مومی پتھر کو چومنا شروع کر دیا ۔ تب باباجی صاحب نے دُعا کی کہ یا اللہ اس پتھر کو الٹ دے تاکہ لوگ اس کی تعظیم میں پرستش کرنا شروع نہ کر دیں۔ چنانچہ وہ پتھر الٹ گیا اور آج بھی وہ پتھر دریا کے کنارے موجود ہے۔
ایک دوسرا واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب باباجی صاحبؒ اپنے مُرشد کے حکم پر ہزارہ سے کشمیر تشریف لائے اور’’ لار وانگت‘‘ کے ایک جنگل میں زمین آباد کی اور متعلقہ پٹواری آغا حسین شاہ کو زمین کا نقشہ بنانے کو کہا ۔ آغا صاحب نے نقشہ بنا کر کہا کہ میرے اختیار میں بس اتنا ہی کام تھا ۔ آگے کا کام ’’گِردآور‘‘ کا ہے ۔ باباجی نے کہا ’ جلدی کیا ہے ، جب تم خود’’ گِرد آور‘‘ بن جا ئو گے تو یہ کام کر لو گے ۔ جلد ہی پٹواری گرد آور بن گیا اور بقیہ کام کر دیا ۔ زمین کی ملکیت وغیرہ سے متعلق بقیہ کام ،نائب تحصیل دار ، تحصیل دار اور پھر افسر مال کو کرنا تھا ۔ بابا جی صاحب کی دعائوں کے طفیل آغا حسین شاہ دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کرتے ہوئے نہ صرف ان سارے عہدوں پر فائز ہوا یہان تک کہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائزہو گیا ۔ اور زمین سے متعلق سارے کام کرنے کے بعد کہا کہ اب صرف ان کاغذات پر مہاراجہ صاحب کے دستخط باقی ہیں ۔ باباجی صاحب نے کہا اللہ نے چاہا تو اس کی بھی صورت نکل آئے گی ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ کو ، علاج کی غرض سے انگلینڈ جانے لگا تو اس نے چھ ماہ کے لئے آغا حسین شاہ کو اپنا قائم مقام نامزد کر دیا ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آغا حسین شاہ نے بابا جی صاحب کی زمین کے مالکانہ حقوق کے کاغذ ات پر مہاراجہ کے قائم مقام کی حیثیت سے دستخط کر کے مذکورہ زمین کے مالکانہ حقوق بابا جی صاحب لارویؒ کے نام کر دئے ۔
بعض تنگ نظر حضرات یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ باباجی صاحب لارویؒ صرف اور محض ’گوجروں‘‘ کے روحانی رہنما تھے ۔ اس ضمن میں یاد رکھنا چاہئے کہ دین اسلام میں ذات پات کی کوئی گنجائش نہیں ،رسول پاک صﷺنے’’ حجتہ الوداع‘‘ کے موقعے پر جوخُطبہ دیا تھا ،نصیحت/وصیت کی تھی اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ’’ دنیا کے سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، کسی عربی کو عجمی پر ، گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں، برتری اور فضیلت کا پیمانہ صرف ’’اعمال ‘‘ ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی کی بنیاد پر کہا تھاکہ ،
یوں تو سید بھی ہو ،مرزا بھی ہو ،پٹھان بھی ہو ۔۔۔۔۔۔تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
بابا جی صاحب کے ارادت مندوں میں ہر مذہب اور مسلک کے لوگ شامل رہے ہیں ۔چنانچہ سادات بھی بابا جی صاحب کی روحانی قوت اور عظمت کے قائل تھے اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ایک مثال یہ ہے کہ حاجی سید نوران شاہ کے فرزند مولانا حبیب اللہ شاہ ضیا ؔ نے خود بیان کیا ہے کہ’’ ایک بار میں نے ایک گوجر خفیہ طور پر ایک چادر دی اور اس سے کہا کہ جب بابا جی صاحب نماز پڑھنے جائیں تو ان کی جا نماز کے نیچے میری چادر بچھا دینا، تاکہ یہ چادر متبرک ہو جائے ۔ وہ شخص جب چادر بچھانے لگا تو سید صاحب کو پتہ چل گیا ،اور انہوں نے کہا کہ’’ میں سید کی چادر پر نماز پڑھ کر آلِ رسول کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتا ۔ یہاں دو باتیں سامنے آتی ہیں اول یہ کہ ایک سید زادے حاجی حبیب اللہ نے ایک گوجر بزرگ باباجی صاحب لارویؒ کے تئیں اپنی عقیدت مندی کا مظاہرہ کیا اور جواباً بابا جی صاحب نے آل رسول کی تعظیم میں کوئی کمی نہیں کی ۔ رسول ﷺاور آل رسول کے تئیں ،تعظیم اور عقیدت مندی ، کی روایت کوباباجی صاحب لارویؒ اور ان کے جانشینوں اور ارادت مندوں نے ہمیشہ عزیز رکھا ۔ چنانچہ باباجی صاحب لارویؒ کے فرزند اور خلیفہ حضرت میاں نظام الدین ؒکے حوالے سے روایت مشہور ہے کہ ۲۶۔جیٹھ ،۱۹۵۶ء کے ’عرس‘ کے موقعے پر ایک دن جب میاں نظام الدینؒ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو ایک عقیدت مند نے ان کے بیٹھنے کے لئے ایک اونی چادر بچھادی ۔ میاں (حضرت نظام الدینؒ ) صاحب نے پوچھا ’’ یہ کسی سید کی چادر تو نہیں ؟کیونکہ سید کی چادر پر بیٹھنا گُستاخی ہے ،اور میں سید کے گستاخ کو کافر سمجھتا ہوں ‘‘ ۔اسی طرح حضرت نظام الدینؒ کے فرزند اور سجادہ نشیں حضرت میاں بشیر احمد ؒکا بھی دستور تھا کہ وہ کسی سید کے سامنے گھوڑے پر سواری نہیں کرتے تھے ۔
باباجی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال ۔۲۱/فروری ۱۹۲۵ء کو صبح ۸۔بجے وانگت شریف (سرینگر ) میں ہوا یہی آپ کا روضئہ مبارک ہے ۔ یہ روضہ خود بابا جی صاحب لارویؒ نے اپنے وصال سے ۱۹/سال پہلے تیار کر رکھا تھا اور وہیں بیٹھ کر اپنے روز و شب ذکر و فکر اور عبادت و ریاضت میںگزارا کرتے تھے ۔ وانگت کی اس زیارت گاہ کی تعمیر جدیدان کے فرزندحضرت نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ نے کروائی۔ زائرین اور ارادت مندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بر آمدے کو کشادہ کروایا ، کمرو ں کو آراستہ کیا ،بجلی اور پانی کا بہتر انتظام کروایا ۔روضے کی تعمیر جدید کی تاریخ ۔۴/اکتوبر۱۹۶۸ء درج کی گئی ہے ۔ اس زیارت گاہ کو ’’دربار شریف ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔اس دربار شریف میں ایک خاصی بڑی مسجد بھی تھی جس کو مزید وسیع اور خوبصورت بنایا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی مسجد بھی ہے جو باباجی صاحب کا خصوصی عبادت خانہ ہے ، اس زیارت گاہ اور مساجد کی دیکھ ریکھ کا بھی اچھا انتظام ہے ۔
حضرت میاں عبداللہ صاحب ،عرف بابا جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ جب تک با حیات رہے ،ہر سال ۲۶۔جیٹھ کو اپنے مرشد برحق خواجہ نظام الدین کیانی ؔ رحمتہ اللہ علیہ کا عرس بڑے تُزک و احتشام کے ساتھ منایا کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد بھی یہ عرس باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔بابا جی صاحب لارویؒ کی رحلت کے بعد خو د ان کا عرس ۱۵/ شعبان کو منایا جاتا ہے ۔ اسی طرح میاں نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ کا عرس بھی ان کے سجادہ نشیں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی نگرانی میں ہر سال ۳۔ شوال المکرم کو پابندی کے ساتھ منایا جاتا رہاہے ۔
’’متاعِفکرو دانش ‘‘میں میاں صاحب کی پیدائش(نومبر ۔۱۹۲۳ئ۔) کے بارے میں ایک ایمان افروز روایت یہ بیان کی گئی ہے کہ:’’۲۱/اکتوبر ۱۹۲۲ئ۔ کو ’جی صاحبؔ نے اپنے خادم کالو کو اپنی چادر دی اور کہا کہ ’’میاں نظام الدینؒ کے ہاں بچے کی پیدائش ہو رہی ہے۔اگر ۔۔۔۔بیٹا پیدا ہو تو اسی چادر میں لپیٹ کر میرے پاس لے آئیں ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میاں صاحب کی والدہ بی بی غلام فاطمہ نے بچے( میاں بشیر احمد )کو جنم دیا تو خادم کالوؔ ،حسبِ حُکم ،نو مولود بچے کو چادر میں لپیٹ کر جی صاحبؒکی خدمت میں لے آیا ۔ جی صاحب ؔنے بچے کو سینے سے لگایا ،ماتھا چوما، کانوں میں اذان دی، اور اپنی زبان مبارک کوبچے سے ’چُُسایا ،اور نومولود کا نام بشیر احمد رکھا ۔‘‘۔
زبانِ مبارک چُسانے کا روحانی مطلب یہ بھی ہے کہ بابا جی لاروی ؒ نے اپنی ’’روحانیت ‘‘ اپنے پوتے میاں صاحب بشیر احمد ؒ میںمنتقل کردی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’’میاں (بشیر احمد ) صاحب کی زبان ، بول چال میں جو مٹھاس شیرینی تھی اور اثر آفرینی تھی وہ بابا جی صاحبؔ کے ’لُعاب دہن ‘‘ کے فیض سے ہی تھی ۔ صوفیاء کرام کے یہاں، روحانی علوم، صفات اور قوتوں کی سینہ بہ سینہ منتقلی اس طرح بھی ہو ا کرتی تھی ۔
جی صاحب کو اپنے پوتے ( میاں صاحب )سے و الہانہ لگائو تھا ۔ روایت ہے کہ ایک بار میاں صاحب اپنے بچپن میں سخت بیمار ہوئے ۔ کوئی دوا کام نہیں کر رہی تھی ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ پورا خاندان تشویش میں مبتلا تھا۔ آخر جی صاحب نے بچے کو گود میں اٹھایا اور مسجد شریف میں چلے گئے ۔ اور شافعِ برحق سے بچے کی صحت مندی کی دُعا میں مصروف ہو گئے ۔ کچھ دیر کے بعد جب جی صاحب باہر آئے تو صحت مندمیاں بشیر احمد بھی ہنستے مسکراتے ان کے ساتھ تھے ۔ باباجی صاحب لارویؒ نے اپنے پوتے ( میاں صاحب سے اپنے دلی لگائو کا اظہار اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک ’سی حرفی ‘ میں بھی کیا ہے ۔جناب حسن پرواز نے اپنے ایک مضمون میں مذکورہ ’سی حرفی ‘ اس طرح نقل کیا ہے ،
رُخصت ہون تھے پیش اگے ،اساں دل دیاں خبراں دیتا وے
دس بجے اُٹھ رواں ہوئے جدوں ،رزق مہاراں چھکیاں وے
شاید بشیر ؔ ہوسی دلگیر ڈاہڈا گلاں یاد آنون نالے مٹھیاں وے
عبد لکھ حال احوال سارا ،نالے لکھو بشیر دیاں چِٹھیاں وے
ا میاں صاحب ( بشیر احمد) کا گھریلو ماحول مذہبی کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی بھی تھا ۔لہذا ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اور اسی وجہ سے میاں صاحب کی روحانی ،علمی اور ادبی بنیادیں مستحکم ہوئیں ۔ دادا (جی صاحب ) اور والد ( حاجی صاحب ) کے ہاتھو تعلیم و تربیت نے ہی میاں صاحب کی غیر معمولی اور مختلف الحیثیات شخصیت کی بنیاد مضبو ط کی۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کا یہ شعر بر محل لگتا ہے،
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
۱۹۲۸ء میں چھ سال کی عمر میں میاں بشیر احمدصاحب اپنے والد اور والدہ کے ساتھ ،اوڑی اور حاجی پیر کے راستے پونچھ گئے۔پہلے انہوں نے پونچھ کی درگاہ سادات گیلانیہ، خانقاہ پرانی پونچھ کے سجادہ نشیں پیر حسام الدین کے اصرارپر ان کے گھر دس دن قیام کیا ۔ اس دوران بابا جی صاحبؒ اور حضرت میاں نظام الدین صاحب کے ارادت مندوں کے یہاں بھی آنے جانے کا سلسلہ چلتا رہا ۔ پونچھ میں قیام کے دوران ننھے میاں بشیراحمد کی چند ایک بچوں سے دوستی بھی ہو گئی انہوں نے پونچھ کا بازار دیکھا اور باغ ڈیوڑھی سے زنانہ پارک اور ڈنگس کی سیر کی ۔ میاں بشیر وا لدین کے ساتھ چنڈک گئے اور قاضی بدرالدین کے ہا ں چند روز قیام کرنے کے بعد ’لسانہ ‘ چلے گئے ۔ لسانہ میں حضرت میاں نظام الدین کے ارادت مندوں کے اصرار پر روحانی محفلوں اور مجلسوں کا انعقاد ہوتا جن میں دور دراز کے علاقوں کے محبان دین شرکت کرتے ۔ لسانہ کے چودھری غلام حسین اور ان کی والدہ بابا صاحب لارویؒ سے بے انتہا عقیدت رکھتے تھے ۔ میاں صاحب یہاں سے والدین کے ساتھ اپنے گھر ’موہڑا ( بچھائی ) آگئے ۔ میاں نظام الدین سردیوں کے موسم میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ وانگت سے پونچھ ’موہڑا (بچھائی ) آتے تھے ۔ یہاں ایک سو چالیس کنال اراضی تھی ۔ رہائش کے لئے مکان تھا ،ساتھ ہی مسجد تھی اور عبادت و ریاضت کے لئے ایک ’حُجرہ بھی تھا ۔لیکن مستقل سکونت نہ ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں ان کے گھر پر دودھ دہی کا باقاعدہ انتظام نہیں تھا ، میاں صاحب ضد کرتے کہ وہ دہی کے بغیر کھانا نہیں کھائیں گے ۔ میں صاحب کی اس بھوک ہڑتال سے سب لوگ پریشان ہو گئے اور آخر کار بابا صاحب کے حکم پر اسی ( ۸۰) روپئے میں ایک ایک بھنیس خرید کر لائی گئی اور اس طرحدودھ دہی کا مسئلہ حل کیا گیا ۔ موہڑا بچھائی میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے میاں نظام الدی ؒ نے میاں بشیر احمد کا داخلہ قریبی گائوں ’لٹھونگ ‘ کے پرائمری اسکول میں کروادیا ساتھ ہی میاں صاحب کو اسکول لے جانے اور اسکول سے لانے کے لئے پٹھان برادری کے ایک نوجوان محمد سعید کومعمور کر دیا ۔ چونکہ بشیر ابھی بچے تھے اور گھر سے اسکول تک کا فاصلہ بہت زیادہ تھا اس لئے محمد سعید ننھے میاں بشیر کو اپنے کاندھوں پر بِٹھاکر اسکول لے جاتا اور واپس لاتا تھا ۔ ایک بار میں بشیر صاحب اسکول نہ جانے کی ضد کرنے لگے ۔ اور کاندھے پر چڑھ کر سعید خاں کے سینے پر لاتیں مارنے لگے ۔ سعید خاں کو بھی غصہ آیا اور اس نے میں صاحب کو زمین پر پٹخ دیا ۔ ۔ میاں صاحب بہت ناراض ہوئے اور محمد سعید کے ساتھ اسکول جانے سے انکار کر دیا ۔لیکن والد میاں نظام الدین نے دونوں میں صُلح کروادی اور میاں بشیر احمد پھر سے سعید خاں کے کاندھوں پر سوار ہو کر اسکول جانے آنے لگے ۔ میاں صاحب نے پانچویں کا امتحان اسی اسکول سے پاس کیا۔ وہاں آگے کی تعلیم کے لئے کوئی اسکول نہ تھا ۔ اس لئے میاں بشیر صاحب کو دینیات کی تعلیم کے لئے یکے بعد دیگرے کئی بڑے علما کے پاس بھیجا گیا ۔ جن میں مولانا فضل الرحمن (مظفر آباد ) اور مولانا عبدالقدوس ( دلیواڑ ) شامل ہیں ۔کچھ عرصہ بعدسبھی لوگ وانگت کشمیر چلے آئے ۔ان دنوں وانگت میں کوئی اسکول نہیں تھا ۔ مسئلہ صرف میاں بشیر احمد کا نہیں اس علاقہ کے اور بچوں کی بھی تعلیم کا تھا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حضرت میاں نظام الدین نے مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وانگت میں ایک اسکول کھولا جائے ۔ ہری سنگھ میاں نظام الدین کا بہت احترام کرتا تھا ۔ اس نے اسی وقت اسکول کھولے جانے کی منظوری دے دی ،اور ۱۹۳۲ء ۔میں وانگت میں اسکول کُھل گیا ۔اور اس طرح میاں بشیر احمد کے ساتھ ساتھ وانگت کے دوسرے بچوں کے لئے بھی تعلیم کی آسانی پیدا ہو گئی ۔
اپنے بچپن کی یادو کو تازہ کرتے ہوئے حضرت میاں بشیر احمد ؒ نے اپنی کتاب ’’متاعِ فکر و دانش‘‘ میں تفصیل لکھی ہے۔ لہذا یہا ں بعض ایسے حقائق کا بیان ضروری ہے جن سے عام لوگ غالباً کم ہی آگاہ ہو نگے۔لیکن میاں صاحب کے روحانی اور علمی و ادبی پہلئوں کو وسیع تناظر میں سمجھنے کے لئے ایسی باتیں بھی بہت معاون ہونگی ۔
پنڈت کلہن نے ’’ستی سر ‘‘اور ’کشپ رشی ‘کے بارے میں جو تصوراتی فسانہ طرازی کی ہے ۔اس کی حیثیت محض ’زیب داستاں کی ہے ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ صدیوں سے ریاست جموں و کشمیر کے بلند و بالا پہاڑیوں، گھنے جنگلوں اور بے آب و گیاہ بنجر علاقوں ہندو، بودھ رشیوں ،مُنیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان صوفیاء کرام کی بھی ایک بڑی تعداد بھی رہی ہے جنہوں نے اس پورے خطے کو ایمان و ایقان کے نور سے منور کیا ۔ اس ریاست میں حضرت بلبل شاہ اور امیر کبیر سید علی شاہ ہمدانی کے علاوہ حضرت لل عارفہ ، حضرت دائود خاکی رحمتہ اللہ علیہ ،اور حضرت یعقوب صرفی رحمتہ اللہ علیہ اور ،لل عارفہاور روپا بھوانی وغیرہ سے الگ بھی اولیا و صوفیائاور سنتوں بھکتوںکے کئی سلسلے ہیں ۔
موجودہ دور میں پوری ریاست میں میاں صاحب جیسے مرد مومن کی ہی ذات تھی،’’ جوزندہ پیر ‘‘ تھے اور ، جن کی ایک نگاہ سے لوگوں کی تقدیریں بدل جایا کرتی تھیں ، مذہبی اور سماجی اداروں میں تعمیر و اصلاح کی لہریں پیدا ہوتی تھیں اور سیاسی جماعتوں کا مزاج متغئیر ہو جاتا تھا اقتدار کے ایوانوں میں حرارت دوڑ جاتی تھی ۔ کہنے کو تو حضرت میاں بشیر احمد رحمتہ اللہ علیہ ’’گوجر قوم‘‘ کے بے تاج بادشاہ تھے ۔ لیکن ان کے فیوض و برکات قوم قبیلہ سے ماورا تھے اور بڑے بڑے سید زادے بھی میاں صاحب لاروی کے ہاتھوں کو بوسہ دینا اپنے لئے ’سعادت ‘ تصور کرتے تھے ۔ وہ علامہ کے ایسے اشعار:
یوں تو سید بھی ہو ،مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو ، مسلمان بھی ہو
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔ تم خوار ہوئے ۔ تارکِ قراں ہو کر
وغیرہ کو رسول اللہ ﷺ کے ’’خطبئہ حجتہ الوداع‘‘ اور ’’ میثاقِ مدینہ ‘‘ کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھتے تھے ۔اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دینی و دنیاوی علم و فضل ،روحانی قوت اور من و تو کے اتحاد اور اتصال کی دولت انہیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی تھی ۔کم از کم ریاست میں شاید ہی کوئی ایسا بدنصیب نہیں ہوگا جو میاں بشیر احمد لاروی مرحوم کے روحانی سلسلے سے کسی نہ کسی حد تک آگاہ نہ ہو ۔
لیکن اب جب کہ بابا صاحب بشیر احمد ۱۴/اگست ۲۰۲۱کو رحلت فرما گئے ہیں ۔نہ صرف زیارات ،عرس اور اجتماعات کی ساری ذمہ داریاں میان صاحب کے فرزند اور خلیفہ میاں الطاف احمد (سابق ایم۔ایل۔اے اور ریاستی وزیر ) کے کاندھوں پر آگئی ہے ،اور وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
میاں بشیر احمد مرحوم رحمتہ اللہ علیہ کو میں گذشتہ بیس پچیس برسوں سے جانتا ہوں ۔ شعبئہ اردو کشمیر یونیورسیٹی میں پروفیسری کے دوران ، گوجر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کئی ریسرچ اسکالر میری نگرانی میں پی۔ایچ۔ڈی کر رہے تھے ۔ ان میں وانگت /کنگن کے محمد اسلم چودھری،غلام مصطفے، پرویز احمد وغیرہ کے نام یا د رہ گئے ہیں ۔ یہ سبھی میرے دوست اقبال عظیم چودھری (کلچرل اکیڈمی سری نگر ) کی سفارش پر میرے رابطے میں آئے تھے ۔ کئی گوجر طلبا کا داخلہ میں نے ریاست سے باہر کی یونیورسیٹیوں میں بھی کروایا ۔ تصوف اور صوفیائے کرام میری تحقیقی و تنقیدی سرگرمیوں کے اہم موضوعات رہے ہیں اس لئے دیگر زیارات کے ساتھ ساتھ بابا جی صاحب لاروی کی شخصیت اور ان کی خدمات وکرامات سے بھی دلچسپی تھی ۔ لہذا اپنے شاگردوں کے ساتھ کئی بارکنگن /وانگت ۔۔۔۔۔ جانے کا بھی موقع ملا ۔ اتفاق سے اس دن میاں بشیر صاحب بھی کنگن میں موجود تھے ۔ ان سے زیارت /دربار میں ہی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ مجھ جیسے دنیا دار کو ، میاں بشیر احمدصاحب جیسے دین دار بزرگ کی ایمانی و روحانی عظمت کا اندازہ بھلا کیا ہوتا ،لیکن رسمی تکلفات کے بعد جب کھل کر باتیں ہوئیں تو مجھے ان کی روحانی قوتوں کا حتی ا لمقدور احساس ضرور ہوا۔ میاں صاحب سے اس کے بعد کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ کشمیر میں عسکریت شروع ہونے سے پہلے تک ’’نمائش گاہ ‘‘ میں ہر سال ’’کتاب میلہ ‘‘ لگتا تھا جس میں پورے ملک کے کے کتب فروش اپنے اپنے ’اسٹال ‘ لگاتے ۔ روزانہ کسی نہ کسی ادیب یا شاعر کے ساتھ تقریر یا شعرخوانی کی غیر رسمی مختصر محفل بھی سجائی جاتی ۔ ایسی محفلوں میں کسی بڑی شخصیت کو مہمان خصوصی بنایا جاتا ۔ میاں صاحب کئی بار کتابوں کی اس نمائش میں تشریف لائے اور ایک دو بار ادبی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حاضرین سے خطاب بھی کیا ۔ میاں صاحب عالم تو تھے ہی شعر و ادب کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے ۔ فارسی اور اردو کے بہتیرے اشعار انہیں ازبر تھے ۔ ادبی رسالوں کا مطالعہ بھی کرتے تھے ۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ میں بھی لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتا ہوں اس لئے میاں صاحب مجھے عزیز رکھتے تھے ۔ جن دنوں میں شعبہ اردو کا صدر تھا ، میری درخواست پر میاں صاحب ایک با ر یونیورسیٹی بھی تشریف لائے تھے ۔اسا تذہ طلبااور ریسرچ اسکالرز سے بھی ملے تھے ۔ انہیں کچھ نصیحتیں بھی کی تھیں۔
حضرت میاں بشیر احمد کی روحانی،علمی و ادبی شخصیت،، سماجی وسیاسی روابط، اور انسان دوستی جیسی صفات کی جڑیں ان کے خاندانی پس منظر کا میں پیوسط ہیں ۔ اس کی شروعات حضرت میاں عبداللہ صاحب،عرف بابا جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتی ہے اور حضرت نظام الدین کیانوی سے ہوتے ہوئے بشیر احمد لاروی تک پہنچتی ہیں ۔