جینے کی خاطر پانی میسر کیوں نہیں؟

0
0

نورین کوثر
پونچھ، جموں

پانی قدرت کی طرف سے فراہم کی جانے والی بہت بڑی نعمت ہے۔اس کے بغیر کوئی بھی شئے مکمل نہیں ہے اور نہ ہی کسی چیز کا پانی کے بنا وجود میں آنا ممکن ہے ۔ملک ہندوستان کی ریاست جموں کشمیر جو قدرت کا ایک عظیم خوبصورت بلکہ یوں کہہ لیجیے جنت کاایک ٹکڑا ہے جس میں خاص طور پر ہمیں قدرت کی طرف سے قدرتی وسائل حاصل ہیں ،ان میں سے پانی کے چشمے جو قدرتی طور پر ہمارے جموں کشمیر کو اور بھی خوبصورت کر دیتے ہیں ۔گرمیوں میں یہ چشمے ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم ہو جاتے ہیں ۔یہ بات قابل غور ہے کہ خالق کائنات نے ہمیں کتنی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے ۔قدرت نے ہمیں اتنے اچھے نظام اور خوبصورت طریقوں سے یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔ قدرتی نظام اپنی جگہ قائم ہے۔ جہاں ایک طرف جموں کشمیر میں آبی وسائل کی فراوانی ہے لیکن وہیں دوسری جانب متعدد علاقاجات ایسے ہیں جہاں کی عوام آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوچار ہے۔ ضلع پونچھ کے کئی ایسے گاؤں ہیں جہاں پانی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بیک وقت کئی ساری پرریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔اسی ضلع کی تحصیل منڈی کے گاؤں فتح پور وارڈ نمبر تین کی آبادی 32 گھروں پر مشتمل ہے ۔یہاں کے مقامی لوگ آج بھی اپنے حق سے محروم ہیں ۔ اس محلہ میں پانی کی سپلائی موجود نہیں ہے ۔ آدھے کلومیٹر کی دوری پر ایک قدرتی چشمہ موجود ہے جہاں سے اس محلہ کی خواتین کافی مشکلات کا سامنا کر کے پانی سروں پہ اٹھا کر اپنے گھروں تک لاتی ہیں اور اسکے بعد پانی استعمال میں لایا جاتا ہے ۔
ایک طرف جہاں ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور آئے روز نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں لیکن اسی ملک کے چند حصوں میں لوگوں کو پینے کا پانی مئیسر نہیں ہے ۔شاہدہ پروین کا تعلق اسی محلے سے ہے ، وہ کہتی ہیں کہ ’ ہمارے محلے میں پانی کی سہولت دستیاب نہیں ہیں ۔جہاں ہمارا ملک ترقی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ڈیجیٹل بن رہا ہے وہیں آج بھی ہمیں پانی سے محروم رکھا رکھا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے ہر شہر ،گاؤں، قصبہ میں پانی کی سپلائی کی جا رہی ہے۔ گھر گھر تک پانی کی نعمت کو پہنچایا جا رہا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ آج کے دور میں بھی ہمیں میلوں دور سے پانی سر پہ اٹھا کے لانا پڑتا ہے۔ 10 لیٹر پانی کے لیے ہمیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اس کے بعد جا کے کہیں ہمیں پانی دستیاب ہوتا ہے۔ ترقی کے اس دور میں ہمیں پانی جیسے بنیادی حق کے لئے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے دور رکھا گیا ہے‘ ۔ واڈ نمبر تین کے 42 سالہ محمد صدیق نے بتایا کہ 32 گھروں پر مشتمل یہ محلہ پانی کی بنیادی سہولت سے آج تک محروم رکھا گیا ہے ۔میں اپنے جسمانی پریشانی کی وجہ سے اتنی دور بھی نہیں چل سکتا تاکہ میں اتنی دوری سے پانی لا سکوں۔ ہمارا پورا محلہ ایک ہی چشمہ سے پانی لاتا ہے جہاں ہر وقت پانی لینے والوں کا ایک ہجوم جمع ہوتا ہے ۔کئی گھنٹوں کے بعد ہمیں پانچ یا 10 لیٹر پانی دستیاب ہوتا ہے ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما یہاں جب بھی آتے ہیں ہمیں ایک خوبصورت سا خواب دیکھا کر جاتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس خواب کی تعبیر سامنے نہیں آئی۔ کچھ عرصہ پہلے لفٹ کا کام لگایا گیا تھا اور پانی کے ٹنک کا بھی کام لگایا گیا تھا۔پھر کچھ عرصے کے بعد کاغذات مکمل طور پر تیار ہو گئے جن میں یہ خاص طور پر ظاہر تھا کہ یہ واٹر ٹینک کمپلیٹ ہے ۔ مگرافسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہی ہیکہ اس پانی کے ٹنک سے آج تک پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں ہوئی ہے ۔
پندرہ سالہ نوشین اختردسویں کلاس کی طالبہ ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس ملک کی ترقی ہم سے جڑی ہے اور ہم اس ملک کا آنے والا کل ہیں۔ لیکن ہماری صبح شام پانی لانے میں گزر جاتی ہے۔ ہم کیسے اپنی تعلیم کے لئے وقت نکالیں؟ ہم چھوٹی موٹی کھیتی باڑی کر کے اپنا گزارا کرتے ہیں لیکن پانی کے بنا کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آتی ۔بارش کے دنوں میں ہم بارش کا پانی اکٹھا کر لیتے ہیں اور کم سے کم ایک مہینے تک اس پانی کو اپنی کھیتی باڑی کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ وہیں20 سالہ رخسانہ کوثر،جو کالج کی طالبہ ہیں، کہتی ہیں کہ تعلیم معاشرے کے ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ہمارا اکثر وقت گھریلو کاموں میں ضائع ہوجاتا ہے۔پانی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اکثر وقت پانی کے چشمے پر ضائع کرنا پڑتا ہے۔ میرے والدین کافی بزرگ ہیں ۔اب وہ اس عمر میں اتنی مشقت نہیں کر سکتے ۔ جس کی وجہ سے میں اپنی تعلیم کو بہت کم وقت دے پاتی ہوں۔ آج کے دور میں بھی ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کافی دوری سے پانی کے مٹکے بھر کے سر پہ اٹھا کے لانے پڑتے ہیں۔اس تعلق سے جب محکمہ کے لائن مین سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ محکمہ کی جانب سے جل جیون مشن کے تحت ہر گھر میں پانی سپلائی پہنچانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔بہرحا ل ،مقامی لوگوں کو مرکزی حکومت ، ریاستی و ضلعی انتظامیہ سے امید ہیکہ وہ اس علاقہ میں پانی کی سپلائی کو برقت بحال کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ یہاں کی لڑکیاں بھی پانی کے چشموں پر اپناوقت ضائع کرنے کی بجائے تعلیم پر صرف کر سکیں۔مقامی لوگوں کو امید ہے کہ ایک دن مرکزی حکومت کی اسکیم ’ہر گھر نل جل یوجنا‘ کی شمع یہاں بھی روشن ہوگی اور ان کی زندگی میں بھی اجالا آئے گا۔ان کی لڑکیاں بھی اپنا قیمتی وقت پانی لانے میں نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنے میں گزاررینگی۔ (چرخہ فیچرس)
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا