محمد اعظم شاہد
نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی حیات مبارکہ اور آپ کے ارشادات پرمبنی سیرت کی کتابیں پوری دنیا میں اہل علم نے لکھا ہے۔ ان عقیدتمندوں میں غیر مسلم احباب بھی ہیں، جنہوں نے قرآن کریم اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں ر حمۃ اللعالمین ؐکے پیغام انسانیت ،ا خوت، امن و آشتی، رواداری اور بقائے با ہمی کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور یہ سلسلہ برابر اپنی روایت پر قائم ہے۔ ویسے پچھلے چند برسوں سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اسلاموفوبیا کا چلن عام ہوا ہے۔ عالمی سطح پر مذہب بیزاری اور نفسیاتی اُلجھنوں کے درمیان اسلام کے پیغام امن وسلامتی کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سازشیں بھی زوروں پر ہیں کہ کسی بھی طرح اسلام اور مسلمانوں کو کسی بھی نوعیت کی دہشت گردی سے جوڑا جائے اور یہ بات بھی مذمت کے قابل ہے کہ ناموس رسالتؐ کے نام پر اسلام کے نام لیوا کچھ گروہوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اسلحہ پسندی کو اپنایا ہے۔ نعوذ باللہ ان نام نہاد حامیان اسلام نے دین مبین کی شبیہ کو بگاڑنے کا کام کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ایسے احباب توفیق الہٰی سے محروم ہو کر راہ بھٹک جاتے ہیں اور چند وہ احباب قلم و قرطاس اور اہل نظر بھی ہیں جن کا راست واسطہ اسلام سے نہیں رہا ہے۔ مگر وہ کتاب ہدایت قرآن مبین کے آفاقی پیغام اور پیارے رسولؐ کے اسو ہ حسنہ سے بے حد متاثر ہیں۔ یوگیش ماسٹر کنز از بان وادب اور فنون سے وابستہ ہمہ جہت معروف شخصیت ہیں۔ آپ نے لڑکپن ہی سے اسلام کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر بغور جاتا اور پرکھا ہے۔ آپ کے علاقے اور محلے میں مسلمان دکانداروں کا مخلصانہ رویہ مسلم معاشرے میں اخلاقی پہلو اور ایمان کی مضبوطی سے وہ متاثر رہے ہیں۔ یوگیش جی کے ماموں نے اپنی شادی کے لیے مسلم خاتون زرینہ کا انتخاب کیا تھا۔ ممانی زرینہ صاحبہ کا شفقت آمیز رویہ بھی سبب بنا۔ اسلام، پیغمبر آخرالزماںؐ اور مسلمانوں کے تئیں معلومات حاصل کرنے کا اور یہ جستجو ان میں گزرتے ماہ وسال کے ساتھ بڑھتی ہی گئی۔ چھوٹی چھوٹی کتابیں انہوں نے اسلام سے متعلق پڑھنی شروع کیں ایک باشعور ادیب و شاعر اور باذوق فنکار کے طور پر یوکیش جی نے ہادی اعظمؐ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ جاری رکھا۔ اسلامی معاشرہ کا مشاہدہ وہ کرتے رہے اور پھر موجودہ ہندوستان میں اور دنیا میں کس طرح مسلمانوں کو امن کا دشمن اور دہشت گرد قراردیا جارہا ہے، اس صورتحال پر وہ رنجیدہ رہے۔
گذشتہ مہینے جماعت اسلامی ہند کرنا ٹک کی اشاعتی تنظیم شانتی پرکاشن کی ایماپر یوگیش ماسٹر نے زبان کنڑا میں کتاب ننا اروینا پرادادی Nana Arivina Prawaadi (جیسا پیغمبرؐ کو میں نے سمجھا) لکھی۔ 28 ؍ستمبر 2023 میلادالنبیؐ کے موقع پر بنگلور میں اس کتاب کا اجرا سابق سفیر ہند برائے یونیسیف شری چرنجوی سنگھ آئی اے ایس کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ رسم رونمائی اجلاس میں غیر مسلم ادبیوں اور شاعروں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک رہی۔ کنڑا کے مقبول ادیب و صحافی رگھوناتھ چاہا نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ یو گیش ماسٹر نے اسلام کے حقیقی پیغام امن اور رہنما اصول حیات سے عوام الناس بالخصوص دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو وا قفیت کروانے اور یہ واضح کرنے کی غرض سے یہ کتاب لکھی ہے کہ پر امن زندگی گزارنے کے متعلق جو صالح اقدار ضروری ہیں وہ ہر مذہب بشمول اسلام میں پائے جاتے ہیں ۔135 صفحات پر پھیلی اس کتاب کے مقصد تحریر کو کل نو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یوگیش کہتے ہیں کہ آج مذہب کو انتشار اور معاشرے میں منافرت کے لیے آلہ کار بنایا جارہا ہے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو آپس میں بانٹا جارہا ہے۔ اقتدار کی لالچ میں مسلمانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے۔ مذہبی منافرت کی آڑ میں ہندوستان جیسے تکثریتی معاشرت کے ملک میں جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے رواداری کے سا تھ صدیوں سے زندگی بسر کرتے آرہے ہیں، وہاں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ ہر برائی کو مسلمانوں سے جوڑ کر فسادات بھڑ کائے جاتے ہیں۔ دنیا میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح وطن عزیز وشال بھارت میں اسلاموفوبیا” کے نام پر مسلمانوں کا دائرہ کار تنگ کیا جارہا ہے۔ ان تناظر میں یوگیش ماسٹر کا مانتا ہے کہ انہوں نے مذکورہ کتاب میں حضور اکرم ؐ کی زندگی کی چند جھلکیاں اور ہر شعبہ حیات سے متعلق ان کے ارشادات اور قرآن کریم کی چند متعلقہ آیات کا حوالہ دے کر یہ واضح کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے کہ اسلام محض عقیدہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ جس طرح دیگر مذاہب میں اچھائیوں کی تلقین کی گئی ہے اور برائیوں سے بچنے کی تنبیہ کی گئی ہے اسی طرح اسلام میں حقوق انسانی عورتوں کا تحفظ، بچوں کے حقوق، روز مرہ کی زندگی میں ایمانداری کا برتا، رواداری اور صلہ رحمی کے ساتھ معاشرہ میں خوشگوار ماحول بنائے رکھنا اس طرح کے امور موجودہ حالات کے ساتھ تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے بیان کیے گئے ہیں۔
ٍٍ کتاب کے مصنف یوگیش ماسٹر لکھتے ہیں کہ اسلام کے خلاف جو غلط پرو پیگنڈہ ہے اور غلط فہمیاں ہیں، اس کتاب کے ذریعہ انہوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ مانتے ہیں کہ یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں اگر امن و صلح کا ماحول بنارہتا تو پیغمبروں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح نبی کریمؐ اللہ کی جانب سے سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے، جنہوں نے عرب میں ہر آزمائش کا استقلال اور صبر کے ساتھ سامنا کیا ۔ظلمتوں کا جواب دعاؤں سے دیا، ریا کاری کا سامنا حسن سلوک کے ساتھ کیا، قول و عمل کا مجسم بن کر دعوت حق عام کیا۔حضرت محمد ؐ کی زندگی قرآنی تعلیمات اور احکامات کا عملی نمونہ تھی۔ اسلام کو آپؐ نے اصول پسند کے روپ میں پیش کیا۔ آج دنیا کے ممالک میں فلاح انسانی کے لیے جتنے بھی قوانین بن رہے ہیں ان سب کا نقطہ آغاز پیغمبر اسلامؐ کے دورِ حیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جس طرح پیغمبر ؐنے عربوں کو غرور سے انکسار، جاہلانہ رویہ کو صلہ رحمی، انتشار کی خرابی کو اتحاد میں بدل دیا، غیر اخلاقی ماحول کو تقدیس انسانی سے جوڑ دیا، بدلہ کو معافی میں، جارحیت کو نفاست میں تبدیل کرنے والی عظیم شخصیت کے ارشادات اور زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے عالم کے لیے آج امن و بقائے باہمی کا پیغام دیتی ہے۔ کنڑا میں لکھی یہ کتاب اس زبان کے ادبی حلقوں اور اہل زبان میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جارہی ہے۔
azamshahid1786@gmail.com
cell: 9986831777