جنگلات کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے

0
0
محمد ریاض ملک
 منڈی، پونچھ
جنگل کے قریب ایک بستی سے گزر ہوا۔ دیکھاکہ دودھ کی طرح سفید لکڑیوں کا گٹھا پڑاہواہے۔ دل میں سوچاکہ کسی پرانے پیڑ کے بوسیدہ کچھ ٹکڑے ہونگے۔ دھوپ کی وجہ سے چمک رہے ہیں۔ جب قریب پہونچاتو بلکل سبز بچپن عمر کے پیر کی یہ ٹکڑے ٹکڑے کی گئی لکڑیاں تھیں۔جنہیں کلہاڑی سے چیرکر گٹھا بنا گیاتھا۔ پھر باندھ کر راستے کے قریب دھوپ میں زمین باڑ کے طور پر رکھ دیا گیا تھا۔ ان لکڑیوں سے اس کے چمڑے سے پانی ٹپک رہاتھا۔ دل بہت غمذدہ ہوا۔ اسی دوران ایک نوجوان کو اس کی فریاد کی تو کہا سمجھتے نہیں ان پیڑوں کو کاٹنے والے مگر یہ قتل عام حقیقت میں ہماری نسلوں کا ہے۔یہ داستان نہیں حقیقت ہے کہ ہندوستان کے تمام دیہی علاقوں میں جنگلوں کے قریب بہت کم جنگل کے محافظ اور بہت زیادہ اس سبز سونے کے قاتل بستے ہیں۔جموں وکشمیر کی خوبصورتی کئی اراز بھی اسی میں مضمر ہیں کہ یہاں ہرے بھرے جنگلات سالہاسال چٹیل زمین کو سبز چادر سے ڈھانپ رکھتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اور جاندار ان جنگلات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔
 جموں کشمیر کا سرحدی ضلع جس کو پونچھ کے نام سے یاد کیاجاتاہے، بھمر گلی سے شروع ہوکر وادی لورن ساوجیاں تک،دگوار، سلوتری سے لیکر پیر کی گلی تک بالاکوٹ سے کرشناگھاٹی غرض پورا ضلع چاروں طرف سے گھنے اور خوبصورت جنگلات سے گہرا ہوا ہے ۔ جس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ زمہ داری تو ہے۔ لیکن اس سبز زخیرہ کی حفاظت پر معمور محکمہ جنگلات،محکمہ سوشل فارسٹری، پر بہت زیادہ زمہ داری عائید ہوتی ہے۔ جب جرم پر سزاء نہ ہو اور مجرم کو سرعام جرم کا مرتکب قرار نہ دیاجاے۔تو احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع پونچھ کے دیہی علاقوں میں جنگلات کی حالت زار پر ترس اتاہے۔اس سلسلے میں تحصیل منڈی  کے گاوں اڑائی پنچائیت اڑائی پیراں کے موجودہ سرپنچ محمد اسلم تانترے جن کی عمر 55 سال ہے،کہتے ہیں کہ ایک طرف محکمہ سوشل فارسٹری جگہ جگہ کلوزر لگانے کو ترجیح دے رہی ہے۔اسے لگانے میں سٹیٹ لینڈ پر بھی کلوز لگادئے گئے ہیں۔ یہاں اڑائی میں اڑائی کٹھہ، کھاریاں والی، گلیاں، ڈھیری، درلاں وغیرہ میں کلوز لگاے گئے ہیں۔پورے بلاک میں ایک ہی دو کلوز کے محافظ ہیں۔ جو ہر جگہ پہونچ نہیں پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ ان کلوزروں کو اجاڑ دیتے ہیں۔اڑائی کٹھہ میں کلوز کے کہیں کہیں پول اور تار رہ چکی ہے۔ کوئی بھی پیڑ پودہ نہیں۔ دیگر جگہوں پر بھی کلوز اجڑ رہے ہیں۔ محافظ نہ ہونے کی وجہ سے کلوزر اجڑنے سے لاکھوں مالیت کے پیڑ پودے اجڑ جاتے ہیں۔
 انہیں بچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے انتظامیہ کو سربند کرنے کی غرض سے محکمہ سوشل فارسٹری پونچھ کے بلاک منڈی فارسٹ افسر عبدالقیوم سے جب پوچھا گیا توان کا کہناتھاکہ پوری منڈی میں مستقل ایک محافظ ہے۔ جبکہ چھ ڈیلیویجرمحافظ ہیں۔ محکمہ سے سبکدوش ہوے افراد کی جگہ بھی کوئی نئی تعیناتی نہیں ہے۔ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ کلوزروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اکثر کلوزروں میں بہت بہترین ہریالی پیڑ پودے موجود ہیں۔کلوزروں کے قرب وجوار میں مقامی لوگوں کی حفاظت کے لئے گیارہ رکنی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ جس کمیٹی کا چئیرمین متعلقہ سرپنچ ہوتاہے دیگر ممبران ہوتے ہیں۔ انہیں کی مکمل دیکھ ریکھ میں کلوزروں کی ریپیرنگ اور شجرکاری کی جاتی ہے۔ جس کے لئے پنچائیت فنڈ اور محکمہ کی جانب سے فنڈ کا استعمال کیاجاتاہے۔ اس کے باوجود بھی اکثر کلوزر اجڑ چکے ہیں۔ تاریں اور پول گرکر برباد ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اکثر جنگلات میں جانے انجانے میں پیڑ پودوں کا نقصان بھی کیاجاتاہے۔ بے دردی سے پیڑوں کے تنوں کو چھیل کر رکھ دیاجاتاہے۔کہیں چھوٹے پیڑوں کو کاٹ کر انہیں لکڑی بالن کے طور پر استعمال کیاجاتاہے اور جواب یہ دیاجاتا ہے کہ جنگل کون ساکسی کی ذاتی جائدادہے؟یایہ کہ کون ساجنگل کسی نے پیداکیاہے؟
اگریہی حالت رہی تو وہ دن دورنہیں جب جنگل ختم ہوجائیں گے اور آبادیوں میں گھنے پیڑ پودے،شجردار بے شجرکثیر تعداد میں ہونگے۔تو جنگلی جانور بھی آبادی میں ہی اپنی رہائیش گاہ بنالیں گے۔ پھر مزید لوگوں کو جنگلی جانور اپنا لقمہ بنائیں گے۔ ایسے میں پھر کچھ نہیں کرپائیں گے۔ مزید سنگین نتائیج سے قبل محکمہ اور مقامی لوگوں کو چاہئے کہ وہ مل کر جنگلوں کی حفاظت کریں۔جنگلوں کو تباہ و برباد کرنے والوں اور ان کی معاونت کرنے والوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جنگلات میں ایک ایک پودے کی زندگی کو بچاکر ہندوستان کو ہرابھرابناناہم سب کی مشترکہ زمہ داری ہے۔ ایسا کر کے ہم صرف جنگل کی ہی حفاظت نہیں کریں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی عظیم نعمت چھور کر جائنگے۔ پائدار ترقی کا حدف بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔اسی لئے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جنگلات کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ (چرخہ فیچرس)

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا