جمہوریت، آئین اور مودی کی بیساکھی

0
0

۰۰۰

عارف شجر

2024کے لوک سبھا انتخانات کے نتائج نے ملک کے لوگوں کو تھوڑی راحت بخشی ہے۔ راحت اس معنی میں کہ جس طرح سے پی ایم نریندر مودی نے 400 پار کا نعرہ دے کر اپنے خفیہ ایجنڈے میں ملک کے آئین پر حملہ کرکے اس میں زبردست تبدیلی لانے کا جومنصوبہ بنایا تھا وہ مکمل طور سے ناکام ہوگیا اور اسکا سب سے بڑا سہرا ملک کے عوام کے سر جاتا ہے جنہوں نے وقت رہتے سمجھ لیا کہ اگر بی جے پی کی اکثریت سے مرکز میں حکومت بنی تو پی ایم مودی کا حملہ ملک کی جمہوریت اور آئین پر یقینا ہوگا جس سے ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کے خفیہ ایجنڈے کو زمین پر لاکر لوگوں کے بیچ بیداری پیدا کرنے میں تین شہزادے کانگریس قائد راہل گاندھی ، سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو اور آر جے ڈی کے سابق ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو اور ایک مغربی بنگال کی شیرنی و سی ایم ممتا بنرجی کا جو اہم کردار رہا اسے قطئی فراموش نہیں کیا جا سکتا انکی عوام کے بیچ رات دن محنت اور نیک قوت ارادی نے ملک کی جمہوریت اور آئین کو بچا لیا۔ جو تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ دو ریاستوں یعنی اتر پردیش اور مغربی بنگال کے نتیجے نے ملک کے گودی میڈیا سے لے کر اگزیٹ پولز کے سربرہان کو بھی چونکا دیا اور ایسا چونکایا کہ انکے نیوز اسٹوڈیو میں آنسو نکل پڑے اور سب سے زیادہ چونکانے والا ریاست مغربی بنگال تھا جہاں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے سی ایم ممتا بنرجی کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی۔مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس حکومت کے خلاف جس سطح پر ناراضگی دیکھی جارہی تھی۔ جس طرح ممتا حکومت کے کئی وزراء اور ایم ایل اے پر گھوٹالے کا الزام لگا۔ سندیشکھلی کی خواتین پر مظالم ملک بھر میں بڑا مسئلہ بن چکے تھے۔ جس طرح چیف منسٹر ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی کے گرد ای ڈی کا گھیرا تنگ تھا۔ جس طرح ممتا بنرجی کو سناتن مخالف بتایا جا رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے ترنمول کانگریس کے کئی بڑے لیڈروں نے انتخابات سے قبل ہی رخ بدل لیا تھا۔ جس طرح میڈیا کی سرخیوں میں ممتا بنرجی حکومت کے خلاف خبروں کا راج رہا۔ تمام ایگزٹ پولز نے جس طرح ترنمول کانگریس کے لیے بھاری نقصان کی پیش گوئی کی تھی، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابی نتائج انتہائی غیر متوقع ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ 30 سیٹوں کے ہدف کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہے تھے لیکن اس کا نصف بھی حاصل نہیں کر سکے۔اس کے علاوہ بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات سے پہلے سی اے اے کے قوانین کی نوٹیفیکیشن جاری کی یہی نہیں اس نے بنگال میں ووٹنگ سے پہلے سی اے اے کے تحت لوگوں کو شہریت بھی فراہم کی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ترنمول کانگریس نے ان علاقوں میں بھی کامیابی حاصل کی جہاں سی اے اے سے بی جے پی کو فائدہ ہونے کی امید تھی۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ممتا بنرجی کی شبیہ ایک فائٹر لیڈی لیڈر کی ہے اور وہ اپنی پارٹی کو کامیاب بنانے کے لئے جی جان لگا دیتی ہیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران ان پر سیاسی حملوں کا رخ اپنے حق میں کرنے میں ماہر ہیں۔
بہر حال !دونوں ریاستوں کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ عوام نے پوری طرح سے پی ایم مودی اور امیت شاہ کو خارج کر دیاہے حالانکہ انہیں اس بات کا غم نہیں کہ مرکز میں سیکولر جماعت کی حکومت نہ بن سکی لیکن خوشی اس بات کی ہے ایک مضبوط اپوزیشن بن کر مودی کو انکے مرضی کے مطابق وہ سب کچھ نہیں کرنے دیں گے جو ملک کے لئے خطرہ بن سکتا ہو۔اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نریندر مودی تیسری
بار وزیر اعظم بنیں ہیں تو ضرور لیکن انکی حکومت بیساکھیوں کے سہارے ہوگی یعنی وہ اپنے طور سے کوئی بھی ایسا بڑا فیصلہ نہیں لے پائیں گے جو قبل کی حکومت میں لیا کرتے تھے یعنی اپنے ہی اتحادیوں سے پوچھے بغیر نوٹ بندی، جی ایس ٹی،آرٹیکل370 اور ٹریپل طلاق جسے قانون لانا اور اسے نافذ کرنا شامل ہے۔ اب ایسا نہیں ہونے والا ہے کہ رات کے اندھیرے میں کسی بڑے فیصلے کا اعلان کردیں جو ملک کی جمہوریت کے لئے خطرہ بنے اور جس کا آئین اجازت نہ دیتاہو کیوں کہ اب انکی گردن علاقائی پارٹیوں کے ہاتھوں میں پھنس گئی ہے۔ یعنی اب اصل میں این ڈی اے کی حکومت ہوئی ہے مودی کی نہیں۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی نے اپنی حکومت کے 10 سالوں کے دوران جس طرح سے ملک کی جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش کی اور آئین کو بلائے طاق رکھ کر اپنی حکومت چلائی اس سے ملک کی عوام پریشان ہو گئی تھی ملک کے عوام کو یہ بات اب سمجھ میں آئی کہ اس ملک کے لئے مخلوط حکومت ہی صحیح ہے اگر کسی پارٹی کو مرکز میں اکثریت کے ساتھ مسند اقتدار میں بٹھا دیا جائے تو وہ بالکل ٹھیک نہیں ہوگا اور مودی کی طرح اپنی من مانی چلا کر ملک کی جمہوریت کے لئے خطرہ بنیں گے اور آئین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اب جو این ڈی اے حکومت تشکیل ہو ئی ہے اس میں آندھرا پردیش کی ٹی ڈی پی اور بہار کی جے ڈی یو جماعت شامل ہے اور یہ دونوں پارٹیاں این ڈی اے میںکینگ میکر کے کردار میں ہیں اور دونوں پارٹیاں سیکولر جماعت کی صف میں کھڑی نظر آتی ہیں اور یہی پی ایم مودی کے لئے سر درد ثابت ہونے والا ہے۔ ویسے بھی پی ایم مودی کو سیکولر نام سے ہی الرجی ہے وہ اس لفظ کو بھی دفن کرنے والے تھے لیکن انکا یہ ارمان اور خواب چکنا چور ہو گیا۔ پی ایم مودی مسلم ریزرویشن کے خلاف ہیں جنہوں نے کرناٹک حکومت کو مسلم ریزرویشن دینے سے متعلق ہنگامہ کھڑا کر کھا ہے۔ اب ٹی ڈی پی یعنی چندر بابو نائڈو کی پارٹی نے اس بات کا اعلان پہلے ہی کر دیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے ریاست میں4 فیصد مسلم ریزرویشن دینگے حالانکہ یہ معاملہ کورٹ میں زیر التوا ہے لیکن کیا پی ایم مودی چندر بابو نائڈو کے اس فیصلے کو قبول کریں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ دوسری طرف بہار جے ڈی یو صدر اور سی ایم نتیش کمار بھی بہار میں این آر آرسی، سی اے اے اور یو سی سی نافذ کرنے کے خلاف پہلے ہی آواز بلند کر چکے ہیں اور بہار کو اسپیشل ریاست کا درجہ دینے کی مانگ پہلے ہی کر چکے ہیںلیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ پی ایم مودی کا یہ پہلا تجربہ ہوگا کہ وہ کس طرح سے اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلیں کیوں کہ ذرا سابھی پی ایم مودی نے قبل کی حکومت کی طرح اکڑ دیکھانے کی کوشش کی اور آمریت پر اتر آئے تو حکومت گرنے کے چانس بڑھ سکتے ہیں انہیں اپنے دونوں کینگ میکروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور انکی بات بھی بغیر شرط قبول کرنی پڑے گی کیوں کہ ابھی سے ہی دونوں کینگ میکروں نے پی ایم مودی کو اپنے مطالبے کا اشارہ دے دیاہے۔
بہر کیف! پی ایم مودی دونوں کینگ میکروں کی باتوں پر کتنا توجہ دیتے ہیں اور انکے مطالبے پر کتنا عمل کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ابھی سے ہی اس بات کی چرچہ ہے کہ پی ایم مودی نے تیسری بار ’’ وزیر اعظم ‘‘ بن کر تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کے لئے مجبوری میں انہیں ملا تو لیاہے ضرور لیکن کھیلا اب شروع ہونے والا ہے کیوں کہ پی ایم مودی کی تاریخ چیخ چیخ کر یہ بتا رہی ہے کہ انہوں نے کئی ریاستوں کی حکومتوں کو توڑا ہے وہ اس کھیل میں ماہر ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں کینگ میکر یعنی نیتیش کمار اور چندر بابو نائڈو اپنے مطالبے پر دبائو بناتے رہ جائیں اور پی ایم مودی انکے ہی ایم پیز کو توڑ کر اپنے صف میں کھڑا کر لیں اور پھر یہ دونوں کینگ میکر تنہا رہ جائیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کیوں کہ پی ایم مودی کو نہ تو مسلم ریزویشن قبول ہے اور نہ سی اے اے ، این آر سی ، یو سی سی اور ذاتی مردم شماری پر کوئی بات انہیں کرنی ہے اور نہ ہی دونوں ریاستوں کو انہیں خصوصی ریاست کا درجہ دینا ہے۔ ایسے میں دونوںکینگ میکر چاہیں گے کہ وہ اپنی حمایت واپس لے لیں لیکن شاید اس وقت تک کافی تاخیر ہو چکی ہوگی دونوں کینگ میکروں کے ایم پیز خریدے جا چکے ہونگے۔ چلئے یہ تو قیاس آرائیاں ہیں لیکن کبھی کبھی قیاس آرائی بھی حقیقت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جہاں تک انڈیا اتحاد کا تعلق ہے تو وہ فی الحال کسی کا کھیل بگاڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھ رہی ہے اس نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ مضبوط اپوزیشن کا کردار نبھائیں گے۔
ختم شد
حیدرآباد (تلنگانہ)
8790193834
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا