جموں کے کالجوں میں کشمیری مدرسین کی اسامیوں کامعاملہ

0
120

جموں//جموں یونیورسٹی کے ڈوگری ڈیپارٹمنٹ کے اسکالروں نے جموں خطہ میں کام کررہے کالجوں میں کشمیری زبان کورائج کرنے کے لئے حکومت جموں وکشمیرکی جانب سے جاری کئے گئے حکم نامے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیااوراس حکمنامے کوواپس لینے کامطالبہ کیا۔یہاں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈوگری اسکالر کیلا ش گنڈوترہ نے کہاکہ حکومت نے حال ہی میں جموں صوبہ کے 47 کالجوں میں جو 47 کشمیری لیکچراروں کی اسامیوں کیلئے منظوری کاحکمنامہ جاری کیاہے وہ ڈوگروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔انہوں نے کہاکہ بھاجپاہندوئوں کے نام پرڈوگروں کے ساتھ دوغلی سیاست کامظاہرہ کررہی ہے۔انہوں نے کہاکہ کشمیری حکمران جموں سے ڈوگروں کوباہرنکالناچاہتے ہیں۔اس دوران مظاہرین نے کہاکہ ڈوگرہ کلچر کو ختم کرنے کے لئے کچھ شرارت پسند ذہن کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس کی مثال ہیری ٹیج کمپلیکس کی خستہ حالی ہے اوراب یہاں پرکشمیری زبان کو ٹھونس کررہی سہی کسرپوری کی جارہی ہے۔انہوںنے کہاکہ کشمیری مہاجرین اورمقامی ڈوگروں کے درمیان تنائو پیداکرنے کی یہ ایک سازش ہے ۔انہوں نے کشمیری زبان کی 49 اسامیوں کو وجود میں لانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اورکہاکہ ظاہربات ہے کہ ان آسامیوں پرکشمیری زبان جاننے والے لیکچرارہی بھرتی ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ ریاست میں کشمیری زبان بولنے والے صرف 20 فیصد لوگ ہیں جبکہ دیگرڈوگری ،پہاڑی، گوجری وغیرہ بولتے ہیں۔اس دوران مظاہرین نے کہاکہ حکومت کے اس قدم کی وجہ سے کالجوں اوریونیورسٹیوں کے طلبا میں بے چینی پیدا کی جارہی ہے جوکہ بڑھ سکتی ہے اورریاست جوکہ پہلے ہی امن وقانون کی خراب صورت حال کاشکار ہے  میںحالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔گنڈوترہ نے کہاکہ جموں خطہ کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حقوق کوپہلے ہی دیگرخطوں کے لوگوں نے سلب کیاہے جس کی وجہ سے یہاں نوجوانوں میں مایوسی پائی جارہی ہے ۔انہوںنے مزیدکہاکہ جموں خطہ کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس خطہ کے ساتھ سابقہ حکومت میں بھی امتیازی سلوک روارکھاگیا ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا