۰۰۰
محمد اسحٰق عارفؔ
9906216065
۰۰۰
بھلیسہ؍؍ایک طرف اگرچہ حکومت تعلیم کو عام کرنے اور معیارِ تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے اور اس کے لئے ہر آئے دن نئی نئی اسکیمیں وجود میں لاکر اُن کے نفاذ کو یقینی بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور نت نئے سرکولر جاری کر کے اُن پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے احکامات جاری کئے جا رہے ہیں۔مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو پورے جموں و کشمیر خصوصاً وادیٔ چناب کے دیہی علاقوں میں تعلیمی معیار تشویشناک حد تک گر چکا ہے اور زیرِ تعلیم طلباء و طالبات کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے۔ جموں وکشمیر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا معیار ہمیشہ سرکاری اسکولوں سے بہتر رہا ہے مگر اب بے جا حکومتی مداخلت ، خواہ مخواہ کی پابندیوں اور غیر ضروری طور پر پیدا کی جا رہی پیچیدگیوں کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی زوال کی راہ پر گامزن ہیں جب کہ بیشتر سرکاری اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلباء و طالبات کا تو خدا ہی حافظ ہے۔آٹھویں،نویں اور دسویں جماعت میں زیرِ تعلیم طلباء و طالبات پرائمری سطح کے معیار پر بھی نہیں اُتر رہے ہیں اور اُنہیں اردو،انگریزی اور ریاضی وغیرہ کی بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں ہیں۔والدین بھی غفلت کا شکار رہتے ہیں اور وہ اُس وقت ہاتھ پاؤں مارنا شروع کرتے ہیں جب اُنہیںمعلوم ہوتا ہے کہ مختلف سرکاری اسکولوں میں اُن کے بچوں کی زندگی کے انتہائی قیمتی آٹھ دس سال ضائع ہو چکے ہیں ۔اس کے بعد کچھ والدین پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کر کے اُن سے’ اللہ دین کے چراغ‘ جیسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔پرائیویٹ اسکولوں میں عرصہ دراز سے داخلہ ٹیسٹ رائج رہا ہے جس وجہ سے ان اسکولوں میں صرف ایسے بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا جو متعلقہ جماعت میں داخلے کے اہل ہوں۔مگر اب محکمہ تعلیم نے ایسے اہلیتی امتحانوں پر پابندی لگا اُن کواس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ کسی بھی طالب علم کا اہلیتی امتحان نہ لیں اور انگوٹھہ چھاپ طلباء و طالبات کو بھی داخلہ حاصل کرنے سے منع نہ کیا جائے۔اب وہ دن دور نہیں لگتاجب سرکاری اور غیر سرکاری نجی اداروں کے تعلیمی معیارکا فرق ختم ہو جائے گا اورسب کو ایسے ہی یکساں تعلیمی مواقع نصیب ہوں گے جیسے سرکاری اسکولوں میں دستیاب ہیں۔اس سب کے ذمہ دار اگرچہ اساتذہ اور والدین بھی ہیں،مگر تعلیمی معیار کو اس حد تک پہنچانے میں سب سے بڑا کردار حکومتی اور محکمہ تعلیم کے اُن چند کتابی پالیسی سازوں ، جن کو زمینی سطح کا کوئی ادراک نہیں ہے ،غیر ضروری سرکولرز جاری کرکے اپنے احکامات پر من و عن عمل کروانے کو یقینی بنوانے والے آفیسران وحکومتی اہلکاران اور نفسیات کے اُن مریضوں کے سر جاتا ہے جو اپنے آپ کو تعلیمی میدان کا سب سے بڑا شہسوار گردانتے ہیں اور جو بچوں کو ہر قسم کی پابندی سے آزاد ی کو ہی تعلیمی میدان میںآگے بڑھنے کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نظر تعلیمی معیار پر نہیں بلکہ اس بات پر رہتی ہے کہ اُن کے احکامات پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے،اُن کی بنائی ہوئی نام نہاد اسکیموں کا نفاذ کتنا ہو رہا ہے اور اور اُن کی خودساختہ نفسیات کا کتنا خیال رکھا جا رہا ہے۔چند دہائی قبل تک اساتذہ کا ’گرو‘ اور’ معمارِ قوم‘ کاجو مقام تھا وہ اُن سے چھین لیا گیا ہے اور جس عزت اور احترام کی نگاہ سے پہلے وقتوں میں اُنہیں دیکھا جاتا تھا،وہ آج کے وقتوں میں اگر تھوڑابہت کسی معاشرے میں دیکھنے کو مل بھی جاتا ہے،اُسے بھی ہمارے پالیسی سازپوری طرح ختم کرنے کے در پہ نظر آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں پرانے طریقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں مگر اسکولوںمیں وہی کچھ پڑھایا جاتا ہے جو پرانے لوگوں نے کیا ہے یا جو وہ ہمیں دے کر گئے ہیں۔آئی اے ایس اور دیگر مسابقاتی امتحانوں کی چند کتابوں کا رٹا لگا کر آج کے دور میں کوئی پیغمبر،رسول یا رشی منی، کوئی ارسطو،کوئی مونٹیسوری،کوئیالبرٹ آئن اسٹائین،کوئی ڈاکٹر رادھا کرشنن،کوئی ڈاکٹر ذاکر حسین،کوئی ابولکلام آزاد، کوئی رابندر ناتھ ٹیگور پیدا نہیں ہو سکتا۔لہٰذا ایسے خود ساختہ ماہرین و مفکرین کی تعلیمی پالیسیاں بھی پرانی لوگوں کی بنائی ہوئی پالیسیوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں جو زمینی سطح کو مدِ نظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔ہمارے یہاں وادیٔ کشمیر اور خطۂ چناب میں پرانے لوگوں نے جو نظامِ تعلیم بنایا تھا وہ یہاں کے جغرافیہ ،یہاں کے موسم اور یہاں کی زمینی صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا تھا۔تعلیمی سال کا آغاز یکم مارچ کو ہوتا تھا،گرمیوں میں موسم کی مناسبت سے پندرہ دن کے آس پاس اسکول بند رکھے جاتے تھے، امتحانات نومبر میں اور نتائج کا اعلان شروع دسمبر میں ہوتا تھا جس کے بعد اڑھائی ماہ کی سردیوں کی چھُٹیاں ہوتی تھیں۔سرمائی تعطلیات کے دوران بورڈ اور یونیورسٹیوں کے امتحانات کے نتائج بھی تیار کئے جاتے تھے اور یکم مارچ سے نئے سال کی سرگرمیاں شروع کرنے کو یقینی بنایا جاتا تھا تاکہ طلباء و طالبات کا کم سے کم وقت ضائع ہو۔اس طرح سال بھر اسکولوںمیں اُنہیں نصابی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے کم سے کم نو ماہ ملتے تھے۔مگر اب ہمارے پالیسی سازوں نے کچھ ایسا طریقہ کار وضع کیا ہے کہ طلباء و طالبات کو اسکولوں میں نصابی تعلیم مکمل کرنے کے لئے چھ ماہ بھی نہیں ملتے۔یکساں نصاب اور ایک امتحان کے نام پر یہاں کے پورے تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا گیا ہے مگرپھر بھی کہیں سافٹ زون اور کہیں ہارڈ زون بنانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے اور کہیں ایک زبان اور کہیں دوسری زبان کو ترجیح دینا اُن کی ایسی مجبوری ہے جس کا اُن کے پاس کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ صدیوں کے تجربے سے ترتیب دئیے گئے پرانے لوگوں کے نظام تعلیم کو وقت کی مناسبت سے تھوڑی بہت ضروری تبدیلیوں کے ساتھ باقی رہنے دیا جائے۔اساتذہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالا جا رہا ہے اور اُن سے وہ کام لئے جا رہے ہیں جن کا اُن کے منصب سے کوئی سروکار نہیں۔بہت سارے اساتذہ سے دوسروں محکموں کے کام لئے جا رہے ہیںاور اُن کا درس و تدردیس سے کوئی تعلق نہیں ،مگر اس کے با وجود قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ اُن کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے تعینات کئے گئے ہیں۔اسکولوں میں غیر ضروری کاغذی اور دیگر کام اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ بہت سارے اساتذہ درس و تدریس کا کام چھوڑکر اُسی میں مشغول رہتے ہیں۔پھر آئے دن کی نت نئی سرگرمیوں(Activities) کے کلنڈر جاری کئے جا رہے ہیں کہ اساتذہ کا بچا کھچا وقت اُن میں ہی گزر جاتا ہے۔ کبھی کسی ویب سائٹ پر فوٹو اور دیگر معلومات اپلوڈ کرنی ہیں اور کبھی کسی وٹس اپ نمبر یا گروپ میں ویڈیو بنا کر بھیجنی ہے جو صرف اور صرف وقت کا زیاں ہے ۔ ان کاموں سے آفیسران کی انا کو تسکین ملنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے۔امتحانات کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے اور صدیوں سے رائج پاس اور فیل ہونے کی اصطلاحیں خود ساختہ ماہرینِ نفسیات نے ختم کر دی ہیں اور نئی نئی اصطلاحات وضع کی جا رہی ہیں۔نام نہاد امتحانات کے لئے نئے نئے طریقوں سے پرچۂ سوالات بنانے ہیں،مارکنگ ، ری چیکنگ اور پرائیویسی کا بھی پورا خیال رکھنا ہے،امتحانی عملہ بھی تعینات کرنا ہے اور پتہ نہیں شفاف امتحانات کو کن کن طریقوں سے یقینی بنانے کی ہدایات اور احکامات جاری ہوتے ہیں،مگر کسی طالب علم کو چاہے اُس نے پورے امتحان میں کسی ایک سوال کا جواب بھی نہ لکھا ہو،ہر حالت میں پاس کرنا ہے۔ تعلیم کے معیار کو جانچنے کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔
بچوں کی کمزوریوں کو کیسے دور کیا جائے،اساتذہ کی صلاحیتوں میں کیسے اضافہ کیا جائے،تعلیمی و تربیتی نظام کو کیسے بہتر بنایا جائے، اس کے بارے میں کوئی پالیسی ترتیب نہیں دی جاتی ۔بہر صورت جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی کتابیں ہی خریدنی اور پڑھانی ہیں ،کسی بھی اسکول کو کوئی اور کتاب شامل نصاب کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے،مگر آخر سال تک بورڈ کی کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ دسویں جماعت کے امتحانات ۲۲ اپریل 2024 ء سے شروع ہوئے ہیں،مگر نومبر2023 ء کے بعد کسی بھی اسکول میں کسی ایک طالب علم نے بھی حاضری دینے کی زحمت نہیں اُٹھائی ہے اور بے بس والدین بھی اُن کو اسکول بھیجنے میں ناکام رہے ہیں۔اب جو بچے چھ ماہ سے اسکول سے کٹ چکے ہیں،امتحان میں اُن کی کارکردگی کیا ہو گی،اس کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔75فیصد سے کم حاضری والے طلباء و طالبات کے لئے شارٹیج کا جو نام نہاد ضابطہ بنایا گیا ہے،وہ آج تک کسی پر لاگو نہیں ہوا ،چاہے کوئی پورے سال بھی اسکول میں حاضر نہ ہوا ہو۔آج بھی بیشتر سرکاری اسکولوں میںنصف سے زائد اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں،ضرورت کے مطابق تدریسی عملہ دستیاب نہیں، ضرورت کے مطابق کمرے نہیں،دیگر ضرورت کا سامان نہیں، بہت سے اسکولوں پر چھت تک نہیں اور بچے کھلے میدان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔کوئی ایک سرکاری اسکول بھی اُس معیار پر نہیں اُترتا جو پرائیویٹ اسکولوں کوتسلیم (Recognise) یا جموں کشمیر بورڈ کے ساتھ منسلک(Affiliate) کرنے کے لئے بنایا گیا ہے،تعلیمی معیار اور بچوں و اساتذہ کے لئے اسکول میں مہیا سہولیات کی چیکنگ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔بیشتر اسکولوں کی حالت آج بھی ویسی ہے جیسی بیس برس پہلے تھی،مگر سُدھار کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔توجہ اگر کسی بات پر ہے تو وہ اساتذہ کو تنگ کرنا اور طلباء و طالبات کو ایسی آزادی فراہم کرناہے جس سے وہ مکمل طور پر بے لگام ہو کر اپنے مستقبل کو تاریک سے تاریک کر سکیں۔ایسی صورتِ حال میںحکومت اور محکمہ تعلیم کے ایسے آفسران اور پالیسی سازوں ، جن کے دل میں تھوڑا سا بھی اخلاص باقی رہ گیا ہے اور جو مستقل کو روشن دیکھنے کے خواہاں ہیں، کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ رائج تعلیمی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں ،جغرافیائی اور موسمی صورتِ حال کے مطابق اُن میں ایسی تبدیلیاں کریں جو مفید ثابت ہوں،غیر ضروری احکامات اور پابندیوں سے اساتذہ کو آزاد کریں، اُن کو جدید سہولیات مہیا کریں اوراسکولوں کے انفراسٹریکچر کو بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز کریں تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ خطہ کے تعلیمی ماہرین،فکر مند اساتذہ اور والدین اور سماج کے ذی شعور حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اربابِ اقتدار کو اس طرف توجہ دلا کر اس سلسلہ میں اپنا کردار اور ذمہ داری ادا کریں اس سے پہلے کی تعلیم کا جنازہ ہی نکل جائے۔