صاحبہ کوثر
پونچھ
جموں و کشمیر میں حالیہ برسوں میں سائبر جرائم کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ اور ڈیجیٹلائزیشن کی رفتار تیز ہونے کے ساتھ، یہ خطہ بھی سائبر جرائم کا شکار ہونے لگا ہے۔ جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی کی بدولت سماجی ترقی ہو رہی ہے، وہیں دوسری جانب یہ جرائم لوگوں کی پرائیویسی اورمالی تحفظ کو متاثر کر رہے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ اصل میںتعلیم، تحقیق، اور کاروباری کاموں کے لیے بنیاد کا کام کرتا ہے۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک انٹرنیٹ پر انحصار ناقابل تردید ہے۔ تاہم سائبر سیکیورٹی کے خلاف ورزیوں کا بڑھتا ہوا خطرہ اہم خدشات کو جنم دیتا ہے۔جموں و کشمیر میں سائبر جرائم کی مختلف اقسام سامنے آئی ہیں۔ جن میںمالویئر حملے بھی شامل ہیں ۔
ان حملوں کے ذریعے ہیکرز کمپیوٹر سسٹمز کو نقصان پہنچا کر معلومات چوری کرتے ہیں۔ان میںفشنگ ایک عام طریقہ ہے جس میں دھوکے باز جعلی ویب سائٹس یا ای میلز کے ذریعے لوگوں کی ذاتی معلومات حاصل کرتے ہیں۔جبکہ کریڈٹ کارڈ فراڈمیں بینکنگ کے شعبے میں خاص طور پر کریڈٹ کارڈ کی معلومات چوری کرنے کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔وہیںسوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نوجوانوں اور خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہیں طرح طرح سے دماغی طور پر سوشل میڈیامیں ہراس کیا جاتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر میں 2020 سے 2023 تک سائبر جرائم میں تقریباً 25 فیصدکااضافہ ہوا ہے۔یہ اضافہ خاص طور پر گذشتہ چند سالوں میں دیکھنے میں آیا ہے جب کویڈ وبا کی وجہ سے ڈیجیٹل سرگرمیاں تیز ہوئیں۔
ریاستی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں سائبر جرائم کے تقریباً 1200 کیسز رجسٹر کیے گئے، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ تھے۔سائبر جرائم میں اضافے کی وجوہات میںڈیجیٹل لٹریسی کی کمی اہم ہے، زیادہ تر آبادی کے پاس انٹرنیٹ کے استعمال کا علم تو ہے، مگر وہ سائبر سیکیورٹی سے ناواقف ہیں۔وہیںبینکنگ اور مالیاتی شعبے کے ڈیجیٹلائزیشن کے بعد سائبر حملوں کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔اس کے علاوہ کئی اداروں اور حکومتوں کے سائبر سیکیورٹی سسٹمز میں خامیاں موجود ہیں جو ہیکرز کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ ہندوستان سائبر سیکورٹی کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اسی لئے اس نے سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف قوانین بنائے ہیں۔سال 2000 کا انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ ملک میں سائبر سیکورٹی کو کنٹرول کرتا ہے ۔کچھ عرصہ قبل جموں و کشمیر میں کروڑوں کا گھپلہ کرنے والے بے نقاب ہوئے تھے۔
دھوکہ بازوں نے کرن نگر میں ’کیوریٹیو سروے‘ کے نام سے ایک فرضی کمپنی قائم کی اور متعدد افراد کو دھوکہ دیا، جس میں 59 کروڑ روپے کی بھاری رقم بٹوری ۔ دو ہفتوں کے اندر سرمایہ کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔ پہلے پہل تو کمپنی نے اپنے وعدوں کو پورا کیا، جس سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ مقامی یوٹیبرنے اسکیم کی مقبولیت کو بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، معاملات نے موڑ اس وقت لیا جب کمپنی کے مالکان اچانک غائب ہو گئے۔ یہ پہلا آن لائن پلیٹ فارم نہیں ہے جسے جواریوں نے مختصر مدت میں اپنی سرمایہ کاری کو دوگنا کرنے کے بہانے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لیے استعمال کیا ہو۔ ذمہ داری صرف ان لوگوں پر نہیں ہے جو اپنے سوشل میڈیا چینلز پر اس طرح کے برانڈز کی توثیق کرکے بات پھیلاتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اس طرح کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا انتخاب کیا ہے وہ بھی ذمہ دار ہیں، جو کہ ایک حد تک لاپرواہی اور انٹرنیٹ خواندگی کی ممکنہ کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
خطہ جموں کے سرحدی ضلع پونچھ میں بھی سائبر جرائم بہت دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ عمران حسین کا تعلق پونچھ کے سیری گاؤں سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس نے صرف دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ اسے انٹرنیٹ گھوٹالوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ ایک دن، براؤزر کے ذریعے اسکرول کرتے ہوئے، اسے ایک لنک ملا جس میں اس سے پیسہ کمانے میں مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ پلیٹ فارم میں شامل ہوگیا اور اس شخص نے اسے اپنی تفصیلات بتانے کی ہدایت کی تاکہ اس کی رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جا سکے۔ عمران نے اپنے بینک کی تفصیلات اس شخص کو بتادی جس نے بینک سے اُسکی تمام رقم نکال کر عمران کو بلاک کردیا۔ ایسا ہی ایک حادثہ پونچھ کالج کے سمیرنامی ایک لڑکے کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ اپنے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر اسے پیسے کمانے کا موقع ملا۔ کسی نے اسے پیسے بھیجنے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک لنک پر کلک کرنے کی ہدایت کی۔ جب اس نے لنک پر کلک کیا تو اس کا بینک اکاؤنٹ خالی ہوگیا، اور اسے بلاک کردیاگیا۔
پونچھ ڈیگری کالج کی ایک طالبہ نادیہ (بدلہ ہوا نام) جس کی تصاویر اس کے پرائیویٹ انسٹاگرام اکاؤنٹ سے لنک تھیں، کسی نے ان تصویروں کا غلط استعمال کرکے اسے بلیک میل کیا۔ تاہم، اس نے مجرم کو پکڑ لیا اور پولیس میں شکایت درج کرائی۔ ہر روزایسے بہت سے سائبر کرائیم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو اسکی جانکاری نہیں کہ جو انٹرنیٹ اتنا فائدے مند ہے اسے اُنھیں بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جموں و کشمیر میں سائبر جرائم کے بڑھتے ہوئے خطرات کے حوالے سے درج کردہ اعداد و شمار مختلف ذرائع سے اخذ کیے گئے ہیں، جن میں خاص طور پر جموں و کشمیر پولیس کی 2022 کی سائبر کرائم رپورٹ اور نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کی حالیہ رپورٹس شامل ہیں۔
ان رپورٹس کے مطابق، 2022 میں سائبر کرائم کے تقریباً 1200 کیسز جموں و کشمیر میں درج کیے گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ تھے۔مزید برآں 2020 سے 2023 تک سائبر جرائم میں 25 فیصد اضافہ کی معلومات حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے تحت پیش کردہ رپورٹس اور ریاستی سطح پر سائبر کرائمز کی تفصیلات سے حاصل کی گئی ہیں۔یہ ڈیٹا جموں و کشمیر میں موجود سائبرپولیس اسٹیشنز کے ریکارڈ اور سرکاری رپورٹوں کے ساتھ ساتھ عوامی تحقیقاتی اداروں کی شائع شدہ دستاویزات کی بنیاد پر فراہم کیا گیا ہے۔جموں و کشمیر حکومت نے سائبر کرائمز کے بڑھتے ہوئے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔اس کے لئے مختلف اضلاع میں سائبر کرائم یونٹس قائم کیے گئے ہیں۔وہیں عوامی آگاہی کے لیے مہمات چلائی جا رہی ہیں تاکہ لوگ سائبر جرائم سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین اور پولیس اہلکاروں کو سائبر سیکیورٹی کی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ ان خطرات سے نمٹ سکیں۔ جموں و کشمیر میں سائبر جرائم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر مالیاتی دھوکہ دہی اور دیگر آن لائن جرائم کے حوالے سے۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق، 2022 میں جموں و کشمیر میں سائبر جرائم کے 173 کیسز درج کیے گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر پورے ملک میں 2022 میں سائبر جرائم کے 65,893 کیسز ریکارڈ ہوئے، جن میں سے 64.8 فیصد کا تعلق مالیاتی دھوکہ دہی سے تھا۔مزید برآں، حکومت نے سائبر جرائم سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جن میںانڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سنٹر(I4C) کا قیام شامل ہے ۔جو ملک بھر میں سائبر جرائم سے متعلق مختلف امور کو مربوط کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔دراصل جموں و کشمیر میں سائبر جرائم کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی آگاہی اور مضبوط سیکیورٹی اقدامات ضروری ہیں۔اس کے لئے ڈیجیٹل لٹریسی کو فروغ دینا اور سائبر سیکیورٹی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس خطے کو سائبر جرائم سے محفوظ بنایا جا سکے۔ (چرخہ فیچرس)