جماعت ”غیر قانونی“قرار دئے جانے کے بعد عوامی حلقوں میں غم و غصہ

0
0

امکانی گڑ بڑ سے نمٹنے کے لیے شہر خاص کے علاوہ یمین و یسار میں فورسز کی بھاری نفری تعینات
پولیس کی تازہ چھاپہ مار کارروائیوں میں مزید 6ارکان جماعت گرفتار
کے این ایس

سرینگرریاست کی معروف سیاسی ، مذہبی اور سماجی تنظیم جماعت اسلامی پر جمعرات کی شام مرکزی حکومت کی طرف سے غیر قانونی قرار دئے جانے کے بعد انتظامیہ نے کسی بھی امکانی گڑبڑ سے نمٹنے کے لیے وادی کشمیر میں جمعہ کی صبح سے ہی حساس مقامات پر فورسز کے اضافی دستوں کو تعینات کرنے کے علاوہ موبائل انٹرنیٹ سروس کی رفتار انتہائی کم کردی۔ادھر دوران دوران شب ہی پلوامہ کے کئی علاقوں میں پولیس نے چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران جماعت اسلامی سے وابستہ ارکان کو گرفتار کرتے ہوئے مختلف تھانوں میں مقید کردیا۔کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق ریاست کی معروف سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیم جماعت اسلامی پر جمعرات کی شام مرکزی حکومت نے پابندی عائد کردی۔ جمعرات کی شام دیر گئے سماجی رابطہ گاہ سائٹوں پر محکمہ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری آرڈر نے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑائی جس کے ساتھ ہی اندرون و بیرون ریاست پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اداروں نے آرڈر کو نشر کرتے ہوئے خبر کی تصدیق کی۔معلوم ہوا کہ اس بات کا فیصلہ وزیرا عظم نریندر مودی کی صدارت میں ہوئی مرکزی کابینی میٹنگ میں کیا گیا جس کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن زیر نمبر S.O 10699(E) بتاریخ 28فروری2019جاری کرکے کہا گیاہے کہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے ،جو اندرونی سلامتی اور عوامی نظم وضبط کے متضاد ہیں۔جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو غیر قانونی قرار دے کر 5سال تک اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔نو ٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ (الف)جماعت اسلامی کا جنگجو تنظیموں کے ساتھ نزدیکی رابطہ ہیںاور جموں وکشمیرودیگر مقامات پر انتہا پسندی اور عسکریت کی حمایت کرتی ہے۔(ب)جماعت اسلامی بھارت کے علاقے کے ایک حصے کی علیحدگی کے دعوے کی حمایت کرتی ہے اوردہشت گردوںاورعلیحدگی پسند گروپوں کو اس مقصد کیلئے لڑنے کی حمایت کرنے کیلئے ایسی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے ،جو بھارت کی علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالتی ہے۔(ج)جماعت اسلامی ملک میں قوم مخالف اور دیگر دشمنانہ سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے تاکہ منافرت کو ہوا دے سکے۔ اسکے علاوہ مرکزی حکومت اس خیال کی حامی ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکا اور قابو نہ کیا گیا تو اس سے یہ منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں جن میں اسکے علاوہ مرکزی حکومت اس خیال کی حامی ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکا اور قابو نہ کیا گیا تو اس سے یہ منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں جن میں (الف)اپنی منفی سرگرمیوں میں تیزی لائے گی جن میں بھارت کے علاقے میں قانونی طور قائم حکومت کو غیر مستحکم کرکے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی کوششیں شامل ہیں۔(ب)وہ جموں وکشمیر ریاست کو بھارت سے علیحدہ کرنے کی وکالت جاری رکھے گی، نیز ریاست کا مرکزکے ساتھ الحاق کی مخالفت کرے گی۔(ج)قوم مخالف اورعلیحدگی جذبات کی تشہیر کرے گی جو کہ ملک کی سالمیت اور سیکورٹی کیلئے خطرناک ثابت ہوگی۔(د)علیحدگی کی تحریک کو تیز کرے گی ،جنگجوﺅں کی حمایت اور ملک میں تشدد کو بھڑکائے گی۔ اسکے علاوہ مرکزی حکومت یہ بھی خیال رکھتی ہے کہ جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کے تناظر میں اسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دی جائے جس کا اطلاق فوری طور ہو۔اب اس لئے آئین ہند کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق مرکزی حکومت جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو ایک ’غیر قانونی جماعت‘ قرار دیتی ہے اور ہدایت دیتی ہے کہ یہ نوٹیفکیشن 5برسوں کیلئے قابل اطلاق ہوگی ۔ادھر حکم نامہ جاری کئے جانے کے ساتھ ہی وادی کے یمین و یسار میں عوامی حلقوں میں سخت ناراضگی پائی گئی جس دوران سماج کے مختلف طبقہ ہائے فکر نے سوشل میڈیا پر مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔ ادھر جمعہ کی صبح سے ہی انتظامیہ نے وادی میں امن و قانون کی صورتحال سے نمٹنے اور کسی بھی امکانی چلینج سے نبردا ٓزما ہونے کے لیے شہر خاص کے ساتھ ساتھ شمال و جنوب کے حساس مقامات پر فورسز کے اضافی دستوں کو تعینات کردیا۔ معلوم ہوا کہ انتظامیہ نے شہر خاص کے کئی علاقوں میں صورتحال کے پیش نظر سخت بندشیں عائد کی تھیں جس دوران یہاں سڑکوں پر کئی مقامات پر خار دار تاریں بچھانے کے علاوہ راہ گیروں کی پوچھ تاچھ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ادھر شہر کے بتہ مالو علاقے جہاں جماعت اسلامی کے مرکزی ہیڈکوارٹر واقع ہے کے ارد گرد بھی فورسز کی غیر معمولی نفری کو تعینات کردیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہاں جماعت اسلامی کی مرکزی مسجد میں نماز جمعہ سے قبل فورسز کی بھاری تعداد کوتعینات کیا گیا تھا تاکہ کسی بھی احتجاجی مظاہرے سے بروقت نپٹا جاسکے تاہم عینی شاہدین کے مطابق یہاں نماز جمعہ پرامن طور پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ، اننت ناگ، پلوامہ اور شوپیان میں بھی جماعت کی مرکزی مساجد کے ارد گرد فورسز اہلکاروں کے اضافی دستوں کو تعینات کردیا گیا تھا ۔ معلوم ہوا کہ اسلام آباد قصبہ میں قائم مسجد بیت المکرم جو جماعت علاقائی سطح پر جماعت کی اپنی مسجد ہے کے ارد گرد بھی جمعہ کو فورسز کا سخت پہرہ بٹھایا گیا تھا ۔ ادھر بارہمولہ میں بھی مسجد بیت المکرم کے اطراف و اکناف میں پولیس کے خصوصی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا اور یہاں پر بھی لوگوں کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جارہی تھی۔ اس دوران انتظامیہ نے کسی بھی امکانی گڑبڑ سے نمٹنے اور بے لگام افواہ بازی کی روک تھام کے لیے وادی بھر میں موبائل انٹرنیٹ کی تیز رفتار سروس کو جمعہ کی صبح سے ہی معطل رکھا۔ اس دوران پولیس نے جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے کئی علاقوں سے دوران شب جماعت اسلامی کے کئی کارکنوں کو گرفتار کرتے ہوئے مختلف تھانوں میں نظر بند کردیا۔ معلوم ہوا کہ پولیس نے تازہ چھاپہ مار کارروائی کے دوران پلوامہ کے ترال قصبے سے تعلق رکھنے والے جماعت کے 6کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے لری بل، پنگلش، ڈاڈسرہ، پانر، مندورہ اور لرگام علاقوں میں شبانہ چھاپوں کے دوران قریباً6افراد کو گرفتار کرتے ہوئے پولیس تھانہ ترال میں نظر بند رکردیا۔ادھر مشترکہ مزاحمتی قیادت بشمول سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے مرکزی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کو ”غیر قانونی“ قرار دئے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو بعد نماز جمعہ واقعے کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا