جرائم کے اسباب و محرکات کا خاتمہ کیسے ہو

0
0

محمد امین
یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور یہ دشمنی تا قیامت جاری رہے گی۔ اس کی دشمنی کا نتیجہ دنیا وآخرت کی بربادی ہے۔ اس لیئے وہ انسانوں کو ترغیبات نفس کے ذریعے نہ صرف اللّٰہ و رسول کا باغی بناتا ہے بلکہ اپنے جیسیانسانوں کا قاتل اور دشمن بناتا ہے۔ یہ جرم وہ براہ راست ، شیاطین اور انسانوں کے ذریعے کراتا ہے۔ قرآن کی دو آخریسورتوںمعوذتین میں تفصیل سے نہ صرف بیان ہوا ہے بلکہ اللّٰہ سے پناہ بھی طلب کی گئی ہے۔ سورہ الناس کی اس آیت میں کہ اے اللّٰہ د لمیں اٹھنے والے وسوسوں کے خناس سے اپنی پناہ میں لے لے جو چھپ کر دلوں میں جنوں اور انسانوں کے ذریعے وسوسہ ڈالتا ہییہ نظر نہ آنے والا شیطان دنیا کے ہر انسانی آبادیوں میں لا تعداد انسانوں کو اپنا شاگرد بنا کر اپنی کامیابی پر چین کی بانسری بجا رہاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ کام کیسے کراتا ہے۔ترغیبات نفس۔۔۔آدم علیہ السلام و حوا کو بھی ترغیبات نفس کے ذریعے ہی جنت کے شجر ممنوعہ کھانے پر آمادہ کیا۔ اور جنت سے نکلنا پڑا۔ آدمکے دو بیٹوں ھابیل اور قابیل کے درمیان بھی یہی سبب بنا۔ قابیل نے ترغیب نفس سے مغلوب ہو کر عورت کے لئے اپنے بھائیھابیل کو قتل کر ڈالا جو اس کا حق نہیں بنتا تھا۔ یہ روئے زمین پر پہلا جرم کبیرہ تھا جو انسانی قتل کی صورت میں اک بھائی نیدوسرے بھائی کے خلاف سر انجام دیا۔ اکثر جرائم نفس کی بیجا خواہشات کی وجہ سے ہی کیئے جاتے ہیں۔ جس میں لالچ ، ہوسدنیا ، آرزو احساس برتری ، انا پرستی کا نفسانی غلبہ ہے۔Man will be slaughtered for the glory shake.دنیا میں انسانی قتل و غارتگری اور جنگ وجدل صرف اور صرف اسی وجہ سے ہوئے۔ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے۔نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن۔بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔
مگر اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے واپسی پر فرمایا کہ ،" ہم اب جہاد اصغر سے واپس ہوکر جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں ، صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ جہاد اکبر کیا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہاد اکبر ہے۔"نہنگ و شیر و نر کو مارا تو کیا مارا۔بڑے موذی کو مارا نفَس امارہ کو گر مارا۔نفس امارہ جو براء کرنے کے لئے انسان کو ابھارتا ہے۔نفسانی خواہشات کو قابو میں وہ لوگ رکھتے ہیں جن کے دلوں میں خوف آخرت ہوتا ہے۔ قبر اور حشر کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔جن اصحاب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو جنت کی بشارت ملی وہ پہلے سے زیادہ اللّٰہ ڈرنے والے بن گئے۔ ورنہ آدمی شتر بے مہارکی طرح دنیا میں زندگی گزارنے لگتا ہے۔ اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہر طرح کے جرائم کا ارتقاب کرتا ہے۔ یہ اک خود احتسابی ہے جو جرم کا سد باب کرتی ہے۔جرائم کے فروغ کی دوسری وجہ ملک میں ظلم کا نظام اور عدل کا غیر منصفانہ ہونا ہے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جہاں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اور منصف طبقاتی فیصلے کرتا ہے۔" آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نیفرمایا اگر بادشاہ رعایہ کے باغ سے ایک پھل ناجائز توڑ لے تو اس کے سپاہی پورا باغ اجاڑ دیں گے۔ہمارا ملک انصاف کے معاملے میں دنیا میں 160 ویں نمبر پر ہے۔ عدلیہ ، مقننہ ، پولیس ، انتظامیہ حتیٰ کے ہماری فوج بھی جرائمکے سد باب کرنے میں اس لیئے ناکام ہیں کہ یہ خود کسی نہ کسی سطح پر جرم میں ملوث ہیں۔ یہ بات تو ہر خاص و عام کی زبان پرہے۔تیسری وجہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ملک میں سیاسی افرا تفری اور ریاستی اداروں میں بد عنوانی اور رشوت نے مہنگاء کو بے لگام کردیا ہے جس کی وجہ سے نہصرف لوگوں کا جینا حرام ہو گیا ہے بلکہ لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ چوری ، ڈاکہ ،قتل غارتگری کرنے کی طرف مائل ہے۔ہماری عدالتوں کا فرسودہ نظام انصاف عادی مجرموں کو بھی سزا دینے میں ناکام ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا