ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی
ایک تھا خرگوش، ایک تھی گلہری اور ایک تھا بندر، تینوں بچپن کے دوست تھے۔
تینوں نے عہد کیا کہ وہ زندگی بھر دوست رہیں گے، کسی بھی طرح وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
دن گزرتے گئے اور تینوں دوست اپنے وعدے پر قائم رہے۔
تینوں ہنسی خوشی جنگل میں زندگی گزارتے رہے۔
لیکن اسی جنگل میں ایک تھی دھوکہ باز لومڑی، اس سے ان کی دوستی دیکھی نہیں جاتی تھی، وہ ان کو الگ کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتی تھی۔
ایک مرتبہ لومڑی خرگوش کے پاس گئی اور کہا:
’’میں تمہاری دوست بننا چاہتی ہوں، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔
خرگوش نے تھوڑی دیر سوچا، اسے لومڑی کی دھوکہ دہی اور مکاری معلوم تھی، اس لیے کہا:
’’میں یہ دوستی نہیں چاہتا، کیوں کہ میرے وفادار دوست موجود ہیں‘‘۔
پھر لومڑی گلہری کے پاس گئی اور کہا:
’’گلہری! میں تمہاری دوست بننا چاہتی ہوں اور ہر چیز میں تمہارے ساتھ شریک رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
گلہری نے کہا:’’میرے دوست میرے لیے کافی ہیں، مجھے پھر تمہاری دوستی کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
لومڑی نے دل میں کہا:’’اب تو صرف بندر بچا ہے، اسے اپنی دوستی پر مطمئن کرنا ضروری ہے‘‘۔
پھر وہ بندر کے پاس گئی اور اسے آواز دی اور کہا:
’’عقل مند بندر! تمہارا استقبال ہے، تم جنگل کے مکھیا بن جاؤ تو کیسا رہے گا؟‘‘۔
بندر نے پوچھا:’’مکھیا! یہ کیسے ہوگا؟ اور میں کیا کروں گا؟‘‘۔
یہ سن کر لومڑی کو لگا کہ بندر کو مطمئن کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہا:
’’تم ہی جنگل میں سب فیصلے کرو گے، کیا تمہیں جنگل میں انتشار نظر نہیں آرہا ہے؟‘‘۔
بندر نے کہا:’’لیکن کوئی میرے فیصلوں کو نہیں مانے گا‘‘۔
لومڑی نے کہا:’’اس کی فکر مت کرو، میں اپنی طاقت سے سب کو مجبور کروں گی‘‘۔
بندر دوستوں سے کیا ہوا وعدہ بھول گیا، اور مکھیا کے منصب کے دھوکے میں آگیا، اس لیے لومڑی کی پیشکش قبول کی۔
خرگوش اور گلہری نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن اس نے ایک نہ سنی، بلکہ الٹا اس نے کہا:
’’تمہیں مجھ سے حسد ہو رہا ہے، میں اپنا فیصلہ ہرگز نہیں بدلوں گا‘‘۔
لومڑی نے مکاری دکھائی اور ایک چال چلی، اس نے بندر کو اپنے پرانے دوستوں پر کنٹرول کرنے اور لومڑی کی طاقت سے انھیں دھمکی دینے کے لیے کہا۔
بندر نے اپنے دوستوں کو حکم دیا کہ وہ لکڑیاں جمع کریں اور جنگل کے دوسرے کنارے لے جائیں۔ انھوں نے لومڑی کے ڈر سے یہ کام کیا۔
جب لومڑی کو یقین ہوگیا کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہوگیا ہے اور اس کی سازش کام کر گئی ہے تو وہ اپنا حقیقی رنگ دکھانے لگی، اور بندر پر ظلم کرنے لگی۔
بندر مکھیا سے لومڑی کے گھر کا نوکر بن گیا، وہ کھانا تیار کرتا، پانی لاتا اور گھر کی صفائی کرتا۔
اب بندر کی سمجھ میں لومڑی کی سازش آئی، لیکن وہ اب کچھ نہیں کرسکتا تھا، کیوں کہ وہ اپنے دوستوں کو کھوچکا تھا اور سب کا ناپسندیدہ بن چکا تھا۔
بہت دن گزرے، بندر مکھیا سے لومڑی کے گھر کا ایک کمزور نوکر بن چکا تھا۔
ایک مرتبہ خرگوش اور گلہری لومڑی کے گھر کے پاس سے جا رہے تھے کہ انھوں نے بندر کو لومڑی کا گھر صاف کرتے دیکھا، بندر کو شرم آئی اور وہ دوسری طرف گھوم گیا۔
دونوں دوستوں کو بچپن کا وعدہ یاد آیا، وہ اپنے دوست کو اس طرح ذلیل نہیں دیکھ سکے۔
خرگوش نے کہا:‘‘کیا تم اپنی اس حالت پر خوش ہو؟‘‘
بندر ان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ نہیں سکا۔
گلہری نے کہا:’’ہم تمہیں ایک موقع دیتے ہیں، کیوں کہ ہم سچے دوست ہیں، اور ہم وعدے کے پکّے ہیں‘‘۔
بندر بہت خوش ہوا اور اس نے کہا:
’’میرے دوستو! تمہارا شکریہ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی تم سے الگ نہیں رہوں گا اور میں وعدے کی پابندی کروں گا‘‘۔
لومڑی واپس آئی تو گھر میں بندر نہیں تھا، اس نے بھانپ لیا کہ وہ اپنے دوستوں کے پاس لوٹ گیا ہے۔
لومڑی بندر کے گھر گئی اور اس سے کہا:
’’مکھیا صاحب! تمہارا استقبال ہے، چلو، مجھے ایک ضروری کام میں تمہاری ضرورت ہے‘‘۔
بندر نے جواب دیا:’’اب میں مکھیا بن گیا ہوں! میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ تو نے میرے اور میرے دوستوں کو کیسے الگ کیا‘‘۔
تینوں دوست جمع ہوئے اور اپنے اتحاد سے لومڑی کو دور بھگانے میں کامیاب ہوگئے، انھوں نے اور ایک مرتبہ عہد کیا کہ وہ ہمیشہ دوست رہیں گے، کبھی جدا نہیں ہوں گے، کوئی بھی ان کے درمیان جدائی نہیں ڈال سکے گا۔
(عربی سے ترجمہ)