قیصر محمود عراقی
ایک وقت تھا جب زندگی بہت آسان اور سہل تھی، پیسوں کی اس طرح ریل پیل تو نہ تھی لیکن خواہشات محدود تھیں تو ضرورتیں بھی محدود تھیں۔ ایک شخص گھر میں کماتا اور سب کھا لیتے تھے، مہمان بھی دو پار کے سفر کرکے آجایا کرتے اور پھر کسی کا دل تنگ بھی نہیں ہوتا تھا۔ روپیہ بھی اتنا نہیں گرا تھا جتنا آج انسان گر گیا ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کے نام پر بجلی آئی ، گیس آئی اور گھر میں ٹی وی اور فون آگیا ۔ آغاز تو سب کا بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ تھا، بجلی کے آنے اور جانے کے پہلے سے باقاعدہ خبر اشتہار کی صورت اخبار میں شائع ہوتی تھی اور اس پر عوام سے معذرت بھی کی جاتی تھی، گیس کے بارے میں تو تصور بھی نہیں تھا کہ یہ بھی کبھی نایاب ہوگی، اسی لئے لوگ ماچس جلانے سے بہتر سمجھتے تھے کہ چولہا جلائے رکھا جائے۔ ٹی وی جسے گھر کے سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے لیکن پھر دیکھتے دیکھتے ہی ٹی وی چیلنچز کے بچے جوان ہوگئے تو اشتہارات کی دوڑ میں اچھے اور بڑے کی تمیز ہی چلی گئی۔ کمرشیلزم نے ایسی تباہی مچائی کہ ہر چیز کو انسان کی ضرورت بنادیا جو اس کی بنیادی ضرورت بھی نہ تھی۔ فون رابطوں کو آسان کرنے کیلئے آیا تھالیکن اس نے ہمیں میل ملاقات سے روک دیا ، اب جب فون پر روز بات ہوجاتی ہے تو کیا ضرورت ہے ملنے ملانے کی ۔ ہمیں اپنے وقت کے ضائع ہونے کا اتنا افسوس نہ تھاجتنا گھنٹے کا پیکیج ضائع ہونے کا ہوتا ہے۔ ہمیںکمرشیلزم نے ہاتھوں میں کچھ ایسا لگا دیا ہے کہ اب وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیں احساس بھی نہ ہوا۔
اس ترقی نے انسان کی ہوس میں اتنا اضافہ کیا کہ بچوں کے کھیل کے میدان ، چوڑی گلیاں، راستے غرض قبرستان پر تک قبضہ ہونے لگا، سڑکیں اتنی تنگ ہونے لگیں کہ آج سڑکوں پر گذرنا مشکل ہوگیا ہے۔ کل تک جہاں سفر کیلئے ٹرانسپورٹ بسیں اور لوکل ٹرین استعمال ہوتی تھی آج بینکوں کی آسان اقساط نے ہر شخص کو گاڑی کا مالک بنادیا ہے، چاہے وہ اس کو رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو یا نہ ہو۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی نئی نویلے گاڑیاں نظر آنے لگی، جس گلی میں جائیں وہاں آپ کو گاڑی ، آپ کا راستہ تنگ کئے ضرور کھڑی دکھائی دیگی۔
قارئین کرام! جب بینکوں کا قرضہ سود کی صورت عوام کی رگوں میں اترا تو پھر اسے اتارنے کیلئے ایک نوکری کے بعد دوسری نوکری کی ضرورت پڑنے لگی، گھر کا مرد گھر کی ضرورت پوری نہ کر سکا تو عورت کو گھر چھوڑ کر معاشی میدان میں اترنا پڑا ۔ مرد اور عورت کو ایک ایسے گاڑی کا پہیہ بنادیا گیا جس کا اسٹیئرنگ کسی اور کے ہاتھ میں تھا، نتیجہ اس سے گھر کے گاڑی تو چل پڑی لیکن بچے تربیت سے محروم ہونے لگے۔ کمرشیلزم نے ان بچوں کو بھی گود سے چھین کر اسکولوں کے حوالے کردیا، گود سے محروم یہ ننھے منے دودھ پیتے روتے بچے جب بڑے ہونے لگے تو رشتوں کا احترام بھول گئے، ترقی کی دوڑ میں رشتے ویسے بھی اہم نہیں ہوا کرتے، لہذا گذرتے وقت نے بچوں کو سکھایا کہ کس طرح قلم استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور پھر دوسرا خرید لیا جاتا ہے۔ صرف قلم ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو پرانی ہوجائے اسے گھر سے نکال دینا چاہئے کیونکہ چیزیں اب سستی ہوئیں تو اتنی ناقابل بھروسہ ہوگئیں کہ انہیں ٹھیک کرنے پر جتنی لاگت آتی اتنے میں نئی آجاتیں۔ دکانوں میں جہاں آٹے کا چالیس کلوکا تھیلا آیا کرتا تھا وہ سکڑ کر دس کلو پر پہنچ گیا ، صرف یہی نہیں بلکہ ہر چیز تعداد اور حجم میں سکڑنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے چھوٹے شئے دکانوں کی زینت بننے لگے۔ کمرشیلزم نے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ سب بیچ دو ، اور پھر سب کچھ بکنے لگا، سب سے پہلے ہم نے اپنا ایمان بیچا، پھر اپنا ضمیر بیچا اور پھر بکتے بکتے یہاں تک نوبت آگئی کہ اب بیچنے کیلئے کچھ بھی نہیں بچا ، ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم اب کچھ سوچنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ ہمارے ذہنوں میں ترقی کا جنون سوار ہے۔ ہم کولہوکے بیل کی طرح ہر روز گول گول گھوم رہے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری منزل کیا ہے؟ ایک دن جب ہم چلتے چلتے بوڑھے ہوجائینگے اور پھر جب ہماری آنکھوں سے ترقی کی پٹی ہٹائی جائیگی تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم کہیں بھی نہیں پہنچے، اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ البتہ وقت نے چلتے چلتے ہمارے پائوں کی ہڈیوں کا گودا ختم کردیا، کمرشیلزم ہمارے ساتھ بالکل وہی سلوک کرتا ہے جو اس بیل کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے استعمال کے بعد جب وہ مزید چلنے کے قابل نہیں رہتا تو پھر اسے ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کر لیا جاتا ہے۔
آخر میں گذارش ہے ان حضرات سے جو ترقی کی راہ پر گامزن ہیں کہ ترقی کی راہ پر چلنے والوں کبھی تو رک کو سوچوکہ تم مشین کا پرجا نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے انسان ہو ۔ تمہیں خود کو پہچاننا ہے اور جب تک اس قابل ہوجائوتو پھر اسے بھی پہچان جائوگے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ وہ تو تمہاری ہر وقت خبر گیری کیلئے تیار ہے۔ اس نے ہمیں ایک لمحہ کیلئے اکیلا نہیں چھوڑا لیکن ہم نے ہی اسے چھوڑدیا اور اس کو چھوڑ کر ہم نے ہزاروں در پکڑ لئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کا در چھوڑ کر ہم آج اس حال میں پہنچ گئے ہیں کہ زندگی تنگ سی ہوگئی ہے اور سکون ہم سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔ چلوآج اس ترقی کی دور سے نکل کا اس کا در تھامے جو ہماری ہی راہ تک رہا ہے۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668