’بیٹی بچائو…بیٹی پڑھائو‘’

0
0

 

‘کے جملے نہیں بوسیدہ نظام اورغلیظ ذہنیت کابڑاآپریشن درکار

شازیہ چوہدری7889896079

اسلامی عقیدے کے لحاظ سے ایک عورت کو وہ مقام دیا گیا ہے کہ اس کی عزت احترام اور خدمت کرنے والے کے لیے جنت واجب کر دی گئی ہے چاہے وہ عورت بیٹی ہو بہن ہو بیوی ہو یا پھر ماں ہو ایک ماں کے روپ میں عورت کے پاؤں تلے جنت ہے اور ہندو شاستروں کے مطابق جہاں پر اک عورت کی عزت و قدر کی جاتی ہے وہاں دیوی دیوتاؤں کا واس ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی ہو رہی ہے ، ، اس کے پیروں تلے جنت ڈھونڈنے کے بجائے اسے پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔ اس کی عصمت کو تار تار کر کے ذندہ جلایا جا رہا ہے کیا فرق رہ گیا ہے آج سے چودہ سو سال پرانے دور میں جب عورت کو ذندہ درگور کیا جاتا تھا اور آج کے اس اکیسویں نہیں بلکہ بائیسویں صدی کہیں گے تو مبالغہ نہ ہوگا میں۔؟۔کوئی فرق نہیں۔۔۔بس فرق ہے تو فقط اتنا کہ اس دور میں پیدا ہوتے ہی عورت کو درگور کر دیا جاتا تھا لیکن آج یا تو پیدا ہونے ہی نہیں دیا جاتا یا پھر اس کو پال پوس کے درندوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنی ہوس پوری کریں اور اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر جب ان کی ہوس کا پیٹ بھر جاے تو زندہ جلا دیں۔حیدرآباد میں ویٹنری ڈاکٹر خاتون کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل واقعے نے ہر ذی شعور روح کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اجتماعی عصمت دری کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔۔گزرے کچھ سالوں میں عصمت دری کے سینکڑوں معاملے ہمارے ملک میں ہوئے ہیں اور ان میں سے دامنی نربھیا اور کٹھوعہ کی متاثرہ کے ایسے کیس ہیں جنہوں نے حکومت ہند کو عصمت دری میں ملوث لوگوں کے خلاف کڑی سے کڑی سزا منتخب کرنے پر مجبور کیا ہے لیکن صرف کاغزوں میں کیوں کہ اگر عملی طور پہ کچھ کیا ہوتا تو ایک بار پھر سے تاریخ خود کو نہ دہراتی اس ملک میں ایسے قانون بنتے ہیں جو گھستے گھستے گھس جاتے ہیں لیکن کبھی لاگو نہیں ہوتے کہنے کو تو عصمت ریزی میں ملوث لوگوں کے لیے سزاے موت ہے لیکن کیا کسی بھی ایسے شخص کو پھانسی کی سزا ملی ہے ؟ نہیں۔۔۔کٹھوعہ کیس کو لے لیں کیا اس میں مجرموں کو ان کے کیے کی وہ سزا ملی جو ملنی چاہیے تھی۔۔انائو کی معصوم کا حال ہم سب نے دیکھا کہ کیسے انصاف کی لڑائی لڑتے لڑتے اس نے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔۔۔۔۔  اس ملک میں جرم اس لیے بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ مجرموں کو پتہ ہے کہ عدالتی کارروائی کے چلتے تاریخ پہ تاریخ،تاریخ پہ تاریخ آتے آتے ایک دن ایسا اے گا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی وہ بڑھاپے کی دہلیز پہ پہنچ جائیں گے اور اپنی موت مر جائیں گے ۔ اس ملک میں مندر مسجد کا حل نکالنے کے لیے عدالت عالیہ ہنگامی بنیادوں پر کیس کی شنوائی چالیس دن میں پوری کر سکتی اور اپنا فیصلہ دے سکتی ہے لیکن بیٹیوں کو نوچ نوچ کر کھانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے نہ ہی عدالت کے پاس وقت ہے نہ ہی حکومت کے پاس ان کو فکر ہے تو صرف مذہبی ٹھیکیداری کی مذہب کی تعلیمات کیا ہیں ان سے کوئی غرض نہیں جس ملک میں ایک بیٹی محفوظ نہیں وہاں پہ مندروں مسجدوں کی حفاظت کی ٹھیکیداری عروج پہ ہے ۔ اگر عورت کی عزت و احترام سے دیوی دیوتائوں کا واس ہوتا ہے تو کیا ہمارا ملک جہاں پہ آئے روز عور ت کی ناموس کی دھجیاں اڑتی ہیں وہاں پہ دیوی دیوتائوں کا واس ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو شاید۔ملک کا ہر ایک ذی شعور شہری اپنے مذہبی ٹھیکیداروں سے پوچھنا چاہتا ہوگا۔۔۔ اور ہاں جس دیش میں عورت محفوظ نہیں جو کہ پوری نسل انسانیت کی ضامن ہوتی ہے اس دیش میں شری رام کے نام سے مندر کانرمان کرنے والوں سے خوش ہونگے؟؟ کیاایسے دیش میں شری رام اپنامندرچاہیں گے؟ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے ان لوگوں سے جو لوگ آئے روز بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو کے نعرے پہ ووٹ کی سیاست کرتے آئے ہیں ۔ ان کے منہ پہ ان بیٹیوں کی بے حرمتی نے ایسے طمانچے مارے ہیں کہ ان کو اپنے چہرے کی سرخی چھپانی مشکل ہورہی ہے۔حیدرآبادپولیس نے جس طرح ویٹرنری ڈاکٹر کیساتھ درندگی اوراِسے زندہ جلادینے والے درندوں کوانکائونٹرمیں موت کے گھاٹ اُتارااس کے بعد ملک میں جوخوشی کاماحول ہے یہ ہمارے نظام خاص طورپرعدلیہ سے انصاف میں سستی ،صرف تاریخ پہ تاریخ کی روایت کیخلاف عوامی غصے اورسسٹم سے اُٹھ چُکے اعتمادکی جانب ایک بڑااِشارہ اور حکومت کیلئے چشم کشاہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا