بہار کاآپریشن لوٹس- انکار سے اقرار تک

0
0

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بہار میں اپریشن لوٹس کامیاب ہو گیا ہے ، نتیش کمار نے عظیم اتحاد سے رشتہ توڑ کر این ڈی اے کا دامن پھر سے تھام لیا ہے ، انہیں اپنے نظریات اتنے محبوب نہیں ہیں، جتنے وزیر اعلیٰ کی کرسی ،ا س لیے انہوں نے سترہ سال میں نویں بار بطور وزیر اعلیٰ حلف لیا ہے ، جو ہندوستان کی تاریخ میں ایک رکارڈ ہے ، سترہ سال میں نو مرتبہ حلف لینے کا سیدھا مطلب ہے کہ یہ وہ ڈرامہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور پوری مدت کار انہوںنے پوری نہیں کی ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ و ہ وزیر اعلیٰ بننے کے لئے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دیتے ہیں، ان کے بارے میں گڑھنے والوں نے یہ لطیفہ بھی گڑھ لیا ہے کہ حلف برداری کے بعد ان کا موفلر یا چشمہ گونر ہاو?س میں چھوٹ گیا تو وہ لینے گیے، گورنر نے دیکھتے ہی کہا کہ اچھا اب کی بار اتنی جلدی ابھی تو پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے ہیں، یقینا یہ صرف لطیفہ ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، لیکن لطیفہ بنانے والے نے وزیر اعلیٰ کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ہی یہ لطیفہ گڑھا ہے۔
اپنی پوری مدت کار میں بھاجپا کے ساتھ چھ مرتبہ سرکار بنا کر 4938اور رجے ڈی کے ساتھ دو مرتبہ حکومت سازی کرکے 1535دن انہوں نے اقتدار کو سنبھالا، ایک بار انہوں نے استعفیٰ دے کر جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنادیا تھا، لیکن کرسی سے دوری وہ بر داشت نہیں کر سکے اورچند ماہ میں ہی پھر سے وزیر اعلیٰ بن گیے، انہوں نے ان رکارڈ اسمبلی میں اپنی تقریر میں مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا نے کو اپنی احمقانہ حرکت سے تعبیر کیاتھا اورپھر انہوں نے اس طرح کی احمقانہ حرکتوں کا اعادہ نہیں کیا، اب صبح استعفیٰ دے کر شام کو وزیر اعلیٰ پھر سے بن جانے کا طریقہ اختیار کیاہے جو ہر قسم کے جوکھم اور خطرات سے پاک صاف ہے۔ اپنے اس نظریہ کی وجہ سے وہ عالمی شخصیت بن گیے ہیں ، کوئی بعید نہیں کہ گنیز بک ا?ف رکارڈمیں وہ جگہ پالیں، کیوں کہ وہ پوری دنیا میں تنہا ایسے لیڈر ہیں جو ’’وزیر اعلیٰ‘‘ بننے کے لیے ’’وزیر اعلیٰ‘‘ کے عہدہ سے استعفیٰ دیا کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں سیاست میں امیت شاہ اور شرد پوار کو چانکیہ تصور کیاجاتا ہے، امیت شاہ نے کئی ریاستوں میں اپنی ایسی بازی گری کی کہ آپریشن لوٹس کا میاب ہو گیا ، مہاراشٹرا میں یہ اپریشن پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے ، وہاں حکومت ایک ناتھ شنڈ کامیابی سے چلا رہے ہیں، اور فرنڈیس جو وہاں کبھی وزیر اعلیٰ تھے، نائب کی کرسی پر براجمان ہیں اور انہیں اس میں کوئی عار نہیں ہے،اسی اپریشن کے نتیجے میں شیو سینا اور این سی پی ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور انہیں دوسرے نام اور انتخابی نشان کی تلاش ہے امیت شاہ نے کئی بار اس بات کی کوشش کی کہ بنگال میں متا بنرجی پر بھی اس اپریشن لوٹس کا استعمال کیا جائے، لیکن اس میں اب تک انہیں کامیابی نہیں ملی ہے، جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو بھی اپریشن لوٹس کے لیے جیل بھیج دیا گیا ، لیکن وہاں حکومت تک بھاجپا نہیں پہونچ سکی، ان دنوں ساری توجہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ارند کیجریوال پر مرکوز ہے ، لیکن اب تک وہاں دال نہیں گل سکی ہے، لیکن جب انچ تیز ہو تو دال گلنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔
بہار میںاپریشن لوٹس کی مہم بہت پہلے سے چل رہی تھی ، یہاں اپریشن لوٹس کے لیے استعمال ہونے والے جراحی الات میں دھن اور عہدہ کی لالچ کند ہو گئی تھی ، نتیش کمار سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کو’’ انڈیا اتحاد‘‘ کے نام سے ایک جٹ کرنے میں کامیاب ہو گیے تھے، اس کی کئی میٹنگیں ہوئیں، جس میں قومی اور علاقائی پارٹیوں میں سے اٹھائیس نے شرکت کی ،ا س اتحاد کا نام ’’انڈیا‘‘ رکھ کر ار ایس ایس کے پورے تھنک ٹینک کو پریشانی میں انہوں نے ڈال دیا، قریب تھا کہ نتیش جی کے اس اتحاد کے کنوینر یا وزیر اعظم کا چہرہ بنانے کی بات ہوتی کہ یک بیک ممتا بنرجی نے کانگریس کے قومی صدر ملکا ارجن کھڑگے کو وزیر اعظم کا چہرہ بنانے کی وکالت کردی اور عاپ نے اس کی تائید کرکے بات کو باوزن کر دیا، گوملکاارجن کھڑگے نے اپنے سیاسی شعور کا استعمال کرکے اسے قبل از وقت قرار دے کر بات ختم کر دی پھرنتیش کمار کے لئے کنوینر کے عہدہ کی تجویز ائی، جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا، مرکزی حکومت یہی چاہتی تھی کہ کسی طرح انڈیا اتحاد ٹوٹ جائے، وہ تو اسے ’’گھمنڈ یا اتحاد‘‘ اور ’’انڈی‘‘ کہا کرتی تھی، ادھر ممتا نے ساری سیٹوں پر مغربی بنگال میں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ مان نے پنجاب کی تمام سیٹوں پر انتخاب لڑنے کی بات کہہ کر انڈیا اتحاد کے منصوبے کو سخت نقصان پہونچایا،راہل گاندھی کی نیائے یاترا کو بھی انڈیا اتحاد کی پارٹی نے اپنی زمین مضبوط کرنے کے طور پر دیکھا اوربار بار یہ بات کہی کہ ہم سے مشورہ نہیں لیا گیا، اور ہمیں اطلاع نہیں دی گئی ، اس لیے ہم اس میں شامل نہیں ہیں، پہلے یہ بات ائی تھی کہ ممتا بنرجی اور نتیش کمار اپنے اپنے صوبوں میں نیائے یاترا میں شامل ہوں گے ، لیکن نتیش کمارنے پالا بدل لیا او رممتا سے شاید بات ملاقات ہوجائے۔
سیاسی گلیاروں میں یہ بات موضوع بحث ہے کہ نتیش کمار نے پالا کیوں بدلا، یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، بات جون ۳۲۰۲ء کی ہے جب مرکزی حکومت کے اشارے پر بہار میں ای ڈی سرگرم ہوئی، اپریشن لوٹس کی کامیابی کے لیے یہ اخری حربہ ہوا کرتا ہے، جون تا ستمبر ۳۲۰۲ء بہار میں یہ اخری حربہ کام کر گیا،ایک ٹھیکہ دار کی گرفتاری عمل میں اگئی اور اس کے یہاں سے جو ڈائری بر امد ہوئی، جس کو ای ڈی نے لال ڈائری کا نام دیا اور دعویٰ کیا کہ اس میں کوڈ میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے ،یہ وہ موقع تھا جب جد یو کے لیڈران کے دل میں حفظ ما تقدم کے طور پر’’ یو ٹرن‘‘ کا خیال ایا۔
اْدھر مرکزی حکومت نے پوری طاقت اور توانائی لگا کر ، سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرکے رام مندر کا افتتاح کر دیا، حزب مخالف اور شنکر اچاریہ کی مخالفت کے باوجود بھاجپا اور ا رایس ایس کے لوگوں نے پورے ہندوستان میں ہندتوا کی تحریک کو گھر گھر پہونچا کر بھاجپا کے ووٹوں کو متحد کیا، افتتاحی تقریب اور اس کے بعد رام للا کے درشن کے لیے امڈی بھیڑ نے دیگر سیاسی پارٹیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیاکہ کہیں اس کے ہاتھ سے ہندو ووٹ پورے طور پر کھسک تو نہیں گیا، رام کے اثرات کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کئی نے کی، لیکن بھاجپا نے ایک دوسرا داو چل دیا، یہ داو کام کر گیا اور نتیش کمار جو کئی سال سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے خوش ہو گیے اور انہیں لگا کہ گھر واپسی کا یہ بہترین موقع ہے، چنانچہ نتیش کمار نے الگ سے منصوبہ بندی کرنے کے بجائے این ڈی اے کا حصہ بن جانے میں عافیت سمجھی، حکومت بھی اپنی ، ای ڈی کا خطرہ کم اور پارلیمانی الیکشن میں جیتنے کے امکانات زیادہ ، سب مل ملا کر نتیش جی نے پالا بدلنے کا من بنا لیا، پارٹی کے صدر للن سنگھ اس کے خلاف تھے،ا س لیے نتیش جی نے پارٹی کی صدارت پر قبضہ کرنا ضرور ی سمجھا اور للن سنگھ کو حاشیے پر ڈال کرخود پارٹی کے قومی صدربن گئے، اب راستہ صاف تھا، لالو جی تیجسوی کی تاج پوشی کے لیے پریشان تھے، مفادات الگ الگ ہوں تو پہلے تصادم ہوتا ہے ،ا ور پھر راستے بھی الگ الگ ہوجاتے ہیں، چنانچہ راستے الگ ہو گئے نتیش کمار بڑے چانکیہ بن کر سامنے ائے اور اپنی اور وجے کمار چودھری کی کرسی بچا کر حکومت کو داو پر لگا دیا، صبح استعفیٰ دیا اور شام کو پھر وزیر اعلیٰ بن گیے، وہ جانتے ہیں کہ اپنی سیکولر شبیہ کو بچا کر بھاجپا کے ساتھ چلنا تلوار کی تیز دھار پر چلنے جیسا ہے، جو لالو جی کے ساتھ چلنے سے زیادہ دشوار گذار ہے، اس پلٹی کے وقت انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ عوام کے حافظے میں ان کی یہ بات اب تک محفوظ ہے جو انہوں نے سترہ مہینے پہلے کہی تھی کہ میں مرجاوںگا ، مٹی میں مل جاوں گا، بھاجپا کے ساتھ نہیں جاوں گا، عوام کو یہ بھی یاد ہے کہ اس موقع سے سمراٹ چودھری نے اعلان کیا تھا کہ میں اپنی پگڑی اس وقت تک نہیں اتاروں گا ، جب تک نتیش کمار کو کرسی سے نہیں اتارلوں گا، اب وہ بھی بھاجپا کی طرف سے نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گیے ہیں،اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اجودھیا جا کر اپنی پگڑی اتاردیں گے اور مونڈن کرائیں گے، حالاں کہ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ وہ اب بھی پگڑی نہیں اتارتے، اپنے عہد پر قائم رہتے تو ۴۲۰۲ء کے بعدوہ کامیاب بھی ہو سکتے تھے، جو لوگ کہتے تھے کہ بھاجپا کے دروازے نتیش کمار پر ہمیشہ کے لیے بند ہو گیے، انہوں نے دیکھ لیا کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ اور اب وہی کہہ رہے ہیں کہ سیاست میں دروازے کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں، خود نتیش جی اسے گھر واپسی سے تعبیر کر رہے ہیں، بقول ان کے وہ جہاں تھے وہاں اگیے ہیں اور اب یہاں سے اِدھر اْدھر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے وہ اب اِدھراْدھر نہ ہوں، لیکن بھاجپا انہیں پارلیامنٹ کے انتخاب کے بعد ادھر ادھر کر سکتی ہے، اس معاملہ میں باشندگان بہار کو نہ نتیش جی پر اعتماد ہے اور نہ ہی بھاجپا پر، دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن کیے تھے، اس لیے ساتھ ہو لیے، بھاجپا کو یقین تھا کہ رام کے نام پر ووٹوں کو یک جا کرنے کی کوشش بہار میں کامیاب نہیں ہوتی ہے، اور دلت ووٹ جدیو کے ساتھ ہے، دوسرے جو لوگ دلت کے قائد بنے بیٹھے ہیں وہ پہلے ہی سے این ڈی اے کے ساتھ ہیں، چراغ پاسبان، پشوپتی پارس اور جیتن رام مانجھی سب بھاجپا کے ساتھ ہیں، اوپندر کشواہا کو حلف برداری تقریب میں مدعو کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پھر سے این ڈی اے میں اسکتے ہیں، بھاجپا نے ایک کرمی کو نائب وزیر اعلیٰ بنوا دیا ہے تاکہ وہ وزیر اعلیٰ کو بھی قابومیں رکھیں اور کرمی سماج کو بھی۔ بہار میں اس برادری کی ابادی تقریبا چار فی صد ہے، وجے کمار سنہا بھومی ہار ہیں، اس برادری کی ابادی بہار میں تین فی صد ہے، کہار برادری سے پریم کمار اتے ہیں، یہ انتہائی پس ماندہ طبقہ کی نمائندگی کے لیے وزارت میں جگہ پا گیے ہیں، اس طرح وزراء نے جو پہلے مرحلہ میں حلف اٹھایاان میں بہار میں ذات پات کی سیاست کا خاص خیال رکھا گیا ، اعلیٰ ، پسماندہ، انتہائی پس ماندہ اور دلتوں کی نمائندگی اس وزارت میں موجود ہے، بتانے والے بتاتے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں نو وزراء میں سات برادری کے مائندوں نے اپنی جگہ بنالی ہے، توسیع کے وقت کچھ اور برادریوں کو وزارت سے جوڑ دیا جائے گا۔گورنر ہاوس میں حلف برداری کی تقریب جن حضرات نے لائیو دیکھی ہے ، انہیں احساس ہو گیا ہوگا کہ نتیش کمار کے چہرے پر حلف لیتے وقت کرب کے اثار نمایاں تھے، یہ کرب اس بات کا اظہار تھا کہ سب کچھ ان کے من مطابق نہیں ہوا،ہوگا بھی نہیں، بھاجپا نے اس بار پہلے سے مضبوط گھیرا ڈال دیا ہے، بھاجپا کے دو دو نائب وزیر اعلیٰ بہت سارے موقعوں پر بھاری پڑیں گے، جیتن رام مانجھی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے ذریعہ اپنی ہتک بھول کر بیٹا کو وزارت دلانے میں کامیاب ہو گیے، کیوں کہ چار ارکان اسمبلی ہونے کی وجہ سے ان کی حیثیت کنگ میکر کی بن گئی تھی،
حالات کے اس شکست وریخت نے ایک ازاد ممبر اسمبلی کی بھی تقدیر کھول دی اور وہ بھی وزارت کی کرسی پا گیے، نو وزرائمیں مسلم کوئی نہیں ہے، شاید توسیع کے موقع سے وزیر اعلیٰ کو یاد ائے کہ بہار میں مسلمان انہیں کے ذریعہ کرائے گیے مردم شماری کے مطابق سترہ فی صد سے زائد ہیں،ا ور نتیش کمار کے چہرے کو دیکھ کر ان کا ووٹ بھی جد یو کو ملتا رہا ہے، اگلے پارلیمانی الیکشن میں ان کے ووٹ کی بھی اہمیت ہوگی تو دو ایک مسلم ایم ایل اے بھی ان کی پارٹی سے وزیر بن جائیںتو بعید نہیں، لیکن ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اور اگر بھاجپا نے بغیر مسلم وزیر کے کابینہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تو نتیش کمار کی ایک نہیں چل پائے گی۔ایسا یقین ہے کیوں کہ اب وزیر اعلیٰ کی حیثیت ایسے موقعوں سے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن جیسی ہوگی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا