۰۰۰
مفتی محمد ثنائالہدیٰ قاسمی
۰۰۰
انسان فطری طور پر حسن وجمال کی طرف متوجہ ہوتا ہے،اگر یہ حسن وجمال عورتوں میں ہوں تو دوسرے اسباب وعوامل کی وجہ سے یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ جاتا ہے، اقبال کے لفظوں میں ’’اعصاب پر عورت‘‘ سوار ہوجاتی ہے، اس شہوانی خواہشات اور نفسیاتی بیماری کو قابومیں کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے بد نگاہی پر روک لگائی اور نگاہوں کو نیچی رکھنے کا حکم دیا پھر چوں کہ یہ بیماری مردوں میں زیادہ ہوتی ہے، اس لیے عورتوں کو حکم دینے سے پہلے مردوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، چونکہ بد نگاہی ایک نفسیاتی بیماری ہے، اس کا مریض لوگوں کی نگاہ میں کم آتا ہے، اس لیے اللہ نے اپنی با خبری کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں، اس کے بعد عورتوں کو بھی نیچی نگاہ رکھنے کا حکم دیا، شرم گاہ کی حفاظت کی تلقین کی اور پھر انہیں حجاب کا حکم دیا، اس کے دائرے کو بتایا اورکن لوگوں کے سامنے وہ بے حجاب رہ سکتی ہیں، ان کی تفصیلات بیان کیں، ان تمام اسباب پر بھی قد غن لگائی گئی، جن کی وجہ سے بد نگاہی کی طرف طبیعت مائل ہوا کرتی ہے، اللہ رب العزت نے بد نگاہی پر جو پابندی لگائی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن چیزوں یا اعضا کی طرف مطلقاً دیکھنا جائز نہیں ہے، اس طرف بالکل نہ دیکھیں اورجن کی طرف دیکھنا تو جائز ہے، لیکن شہوت سے دیکھنا ممنوع ہے، اس میں شہوانی نظر سے پر ہیز کریں۔اس سلسلہ میں سورہ نور کی آیت تیس اور اکتیس میں واضح اصول بیان کیے گیے ہیں جو عصمت وعفت کی حفاظت اور فواحش ومنکرات سے بچنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں، حضرت مفتی محمد شفیع صاحبنے معارف القرآن میں اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’نگاہ پست اور نیچی رکھنے سے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیرلینا ہے جن کی طرف دیکھنا شرعا ممنوع ونا جائز ہے۔ اس میں غیر محرم عورت کی طرف بْری نیت سے دیکھناتحریما اور بغیر کسی نیت کے دیکھناکراہی ًداخل ہے، اور کسی عورت یا مرد کے ستر شرعی پر نظر ڈالنا بھی اس میں داخل ہے۔(مواضع ضرورت جیسے علاج معالجہ وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہیں)کسی کا راز معلوم کرنے کے لیے اس کے گھر میں جھانکنا اور تمام وہ کام جن میں نگاہ کے استعمال کرنے کوشریعت نے ممنوع قرار دیا ہے، اس میں داخل ہیں۔ (ج 6ص387)صحیح مسلم میں ایک روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑ جائے تو اس کی طرف سے نگاہ پھیر لی جائے، دوسری روایت ے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی نظر قابل معافی ہے اور دوسری نگاہ ڈالنا باعث گناہ ہے، پہلی نظر چوں کہ بے اختیار پڑ گئی، اس لیے اس پر کوئی داروگیر نہیں،لیکن دوسری نظر ظاہر ہے بالقصد ہوگی؛ اس لیے وہ قابل مؤاخذہ جرم ہوگا۔
یہ حکم صرف مردوں کے لیے نہیں عورتوں کے لیے بھی ہے، بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ ہے کہ عورتیں اپنے محرم کے سوا کسی غیر محرم کی طرف نہ دیکھیں، خواہ نیت بْری ہو یااچھی، شہوت کے ساتھ ہو یا بلا شہوت کے، سب ممنوعات میں سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ام مکتوم اچانک بار گاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ ? اور میمونہ ? دونوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا اور جب انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نا بینا ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو نا بینا نہیں ہو تم تو اسے دیکھ رہی ہو، یہ واقعہ آیت حجاب کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں یہ روایت موجود ہے اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
بہت سارے فقہاء وعلماء نے عورت کی آواز، پائل کی جھنکار، زیب وزینت کے ایسے سامان جو مرد کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچنے کا سبب بنیں اس کے استعمال سے بھی احتراز کا حکم دیا ہے، اور اگر بات کرنا ضروری ہو تو عورتیں ایسے خشک لہجے میں بات کریں کہ جن کے قلوب میں مرض ہے، وہ ان کی خشونت کی وجہ سے عورتوں سے قریب نہ ہو سکیں، اس بد نگاہی میں خوشبو کے استعمال کا بڑا دخل ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کو خوشبو لگا کر باہر نکلنے سے بھی منع کیا گیا، کیون کہ غیر محرم تک عورتوں کی خوشبو کا پہونچنا نا جائز ہے، امام جصاص نے تو مزین اور مرصع ایسے برقعوں کے استعمال کو بھی ممنوع لکھا ہے، جس کی ظاہر آرائش مردوں کے لیے باعث کشش ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ بد نظری کے جو محرکات ہو سکتے ہیں، شریعت نے ان تمام پر بندلگانے کی تاکید کی ہے اور ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا یا کیا جاتا رہا، اس کے لیے آیت کے اختتام پر مؤمنین کو مخاطب کرکے توبہ کرنے کا حکم دیا، تاکہ فلاح وکامرانی ایمان والوں کا مقدر بن جائے۔ ان احکام کی روشنی میں ہم آج کے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے احکام کی طرح ہی پردہ نظر نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کے حکم کو پس پشت ڈال دیاگیا ہے، ہماری بچیاں ایسے کپڑے پہن رہی ہیں جو ’’کاسیات عاریات‘‘ کپڑے پہننے کے باوجود ننگا پن کے مظہر ہوتے ہیں اور تو اور جوٹی شٹ کا استعمال ہوتا ہے اس پر لکھا رہتا ہے ’’کس می‘‘ مجھے چومو،’’ٹچ می‘‘ مجھے چھوؤ، کسی ٹی شرٹ کی دوکان پر چلے جائیے، اس قسم کے جملے لکھے ٹی شرٹ آپ کو مل جائیں گے، ظاہر ہے یہ جملہ دعوت گناہ ہے اور نظریں خواہ مخواہ اٹھتی ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات میں بے محابا مرد وعورت کا اختلاط اور کسی کے مرنے پر عورتوں، مردوں کا بے پناہ ہجوم میں اور آرائش وزیبائش کی وجہ سے بھی ہر دو طرف سے بد نگاہی کا ارتکاب ہوتا ے، مختلف عنوانات سے لگنے والے میلوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی عقل مند آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے، نقاب بھی ایسے استعمال ہو رہے ہیں جو نگاہوں کے لیے باعث کشش ہیں اور جسم کے سارے خد وخال کو نمایاں کرتے ہیں، پھر یہ حجاب وبرقعہ کا استعمال بھی فی صد کے اعتبار سے انتہائی کم ہے، اسی لیے فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے حجاب پر پابندی کی بات آتی ہے، بلکہ کرناٹک میں یہ پابندی لگادی بھی گئی، اسے شریعت کا حصہ نہیں مانا گیا اور دلیل یہ تھی کہ اگر شریعت کا مطالبہ ہوتا تو ساری مسلم عورتیں اس کا استعمال کرتیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔
بد نگاہی ام المعصیت ہے، یہ اس قدر نقصان دہ ہے کہ اس کا اختتام فحاشی، عیاشی اور منکرات پر ہوتا ہے۔ حکیم اختر صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر کوئی اوپر کی منزل میں پہونچ جائے تو نیچے آنے کا راستہ ڈھونڈھ ہی لیتا ہے، آنکھ اوپر کی منزل ہے، جب آنکھ سے آنکھ لڑ گئی تو پھر نچلی منزلوں پر پہونچنا آسان ہوجاتا ہے،اس لیے آنکھ کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ زنا کے ارتکاب کے سارے دروازے بند ہوجائیں۔
بعض لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ اصل پردہ دل کا ہوتا ہے، اگر اسے مان بھی لیا جائے تو اس کا مظہر آنکھیں نیچی کرکے چلنا اور عورتوں کا پورے لباس میں رہنا ہے، دل میں حیا اور شرم ہوگی تو اس کے مظاہر بھی سامنے آئیں گے، اسی طرح بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ نقاب میں رہیے تولوگ گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک چہیتے مرید تھے صوفی عبد الرب، وہ کہا کرتے تھے کہ اگر اس وجہ سے نقاب اتار دیا کہ لوگ گھور گھور کر دیکھیں تو پھر ان کے گھورنے کے ڈر سے کون کون سے کپڑے اتاروگی۔علامہ اقبال نے کہا ہے۔ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیی ہیں تصویریں ہمارے دور میں بد نگاہی کی اور بھی کئی صورتیں رائج ہو گئی ہیں، سوشل میڈیا نے اس کو بڑھاوا دیا ہے ان میں سے فحش فلموں اور تصویروں کا دیکھنا بھی شامل ہے، نہ معلوم کتنے صفحات فیس بک یو ٹیوب، انسٹا گرام وغیرہ پر لوڈ ہیں، جن کو لوگ شوق سے دیکھا کرتے ہیں، ہیں تو یہ تصویریں؛ لیکن ان چلتی پھر تی تصویروں کا شرعا دیکھنا منکرات میں سے ہے اور ایسے لوگ جو فحاشی کو رواج دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذا ب مقرر کر رکھا ہے۔ (سور نور: آیت 19)
آخرت میں دردناک عذاب تو دخول جہنم ہے۔ امام غزالی نے مکاشف القلوب صفحہ ۱۰/ پر لکھا ہے کہ جو اپنی آنکھوں کو بد نگاہی سے بھرے گا، اللہ قیامت کے روز اس کی آنکھوں کو آگ سے بھر دے گا، دنیاوی عذاب یہ ہے کہ اس پر نسیان کا غلبہ ہوجاتا ہے، ضروری باتیں بھی یاد نہیں رہتیں، نیند آنکھوں سے غائب ہوجاتی ہے، بد نظری کی وجہ سے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے، اس کے اثرات اعضاء رئیسہ بشمول قوت مردمی پر پڑتے ہیں، اور آدمی کسی کام کا نہیں رہ جاتا، اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔
بد نظری سے بچنے کا طریقہ وہی ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے کہ آنکھیں نیچی رکھی جائیں، ان جگہوں سے پر ہیز کریں جہاں پر اس کا خدشہ ہو، تو یہ استغفار کے ساتھ اللہ کی توفیق بھی طلب کرتے رہیں، کیوں کہ اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ ہوہی نہیں سکتا، آخرت کے عذاب کو بھی سامنے رکھیے تو یہ مرحلہ آسان ہوجائے گا، بعض بزرگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر بد نظری ہوجائے تو اپنے اوپر خود ہی کچھ جرمانہ مقرر کر لے، نفل نمازوں کی تعداد صدقہ کی مقدار بڑھا دے اور بد نظری سے پر ہیز کے لیے اپنی قوت ارادی کو مضبوط رکھے، چاہے نفس پر جتنا بھی جبر کر نا پڑے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس نفسیاتی بیماری سے حفاظت فرمائے۔ اس دعا کا ورد کرتے رہنا بھی مفید ہے
اللہم اغفرلی وطھر قلبی واحصن