باہمی تبادلہ خیال کی اہمیت و افادیت

0
0

 

 

 

 

 

 

 

محمد امین اللہ

زمانہ قدیم سے لے کر آج دور جدید میں بھی اس عمل مشاورت کی اہمیت و افادیت سے کسی کو نہ انکار ہے اور نہ ہی اس کے بغیرکسی بھی منصوبے کو احسن طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ فرد واحد چاہیے جتنا بھی قابل ذہین اور با صلاحیت ہو اس کا تنہا کیا گیافیصلہ اور کارکردگی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی۔ بادشاہوں کا دربار ہو یا انبیاء کرام اور رسولوں کی مجلس شوریٰ ہو فوجی مہما تہو یا کوئی ترقیاتی منصوبہ ،تجارتی ادارے ہوں یا تعمیراتی عمل ہر جگہ اور ہر کام میں باہمی مشاورت اور تبادلہ خیال کے بغیرمتفقہ اور مشترک رائے نہیں آتی اور بہتر نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔ اس لئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازاہے لہذا جب کسی ایجنڈے اور کام کے لئے باہمی تبادلہ خیال اور مشاورت ہوتی ہے تو بہتر سے بہترین طریقہ سامنے آتا ہے کیونکہ رائے دینے والے ہر کام کا جائزہ دونوں پہلوؤں سے لیتے ہیں اس میں نفع و نقصان دونوں سامنے رکھ کر رائے زنی ہوتی ہے۔
پتھر کے دور میں بھی قبائل کے سردار اپنے فیصلے اپنے خاص بندوں کی مشاورت سے کیا کرتے تھے۔ نمرود نے بھی حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے سے پہلے اپنی قوم سے رائے لی۔ فرعون بھی موسیٰ علیہ السلام کے خلاف قدم اٹھانے سے پہلے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔ جب ملکہ بلقیس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط آیا تو اس نے اپنے وزراء سے مشورہ کیا اور سر اطاعت خم کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے 12 حواریین تھے جو ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے ،قیصر روم نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کا فیصلہ قوم کی آرا سے کیا۔ گو کہ بادشاہ وقت آمر مطلق ہواکرتے تھے اور آج بھی ہیں مگر وہ کاروبار حکومت اپنے وزراء اور مشیروں کے تعاون اور مشورے سے ہی چلاتے تھے اور آج بھی چلاتے ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کام باہمی مشاورت سے انجام دیا جاتا ہے اس میں اللّٰہ کی نصرت و تائید حاصل ہوتی ہے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو براہ راست اللّٰہ کی ہدایات ہوتی تھیں مگر پھر بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے اصحاب بالخصوص خلفائ راشدین کے مشورے سے کیا کرتے تھے اور اصحاب کی آرا کو اپنے فیصلے میں شامل کیا کرتے تھے۔میثاق مدینہ میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انصار کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھا۔ جنگ احد کے موقع پر آپ کی رائے تو مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کی تھی مگر جب پرجوش اور نوجوان صحابہ کی اکثریت نے مدینہ سے باہر نکل کر رائے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں گئے اور جب ہتھیار بند ہو کر نکلے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو محسوس ہوا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہمارے فیصلے سے خوش نہیں ہیں تو صحابہ نے اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہتے تھے مگر اللہ کے رسول صلی اللّٰہ نے فرمایا کہ جب رسول ہتھیار بند ہو تو فیصلہ نہیں بدلا جاتا ہے۔ بعد میں قرآن کی آیت میں یہ بات نازل ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہی درست تھا چونکہ یہ مشاورت سے ہوا اس لیے اللّٰہ کی پکڑ سے تم لوگ بچ گئے۔
جنگ احزاب کے موقع پر مدینے کے اطراف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مشورے سے خندق کھودی گئی۔جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کا فیصلہ بھی مشورے سے کیا گیا حالانکہ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے توسب کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا جس کی تائید قرآن مجید میں بھی ہوئی ہے لیکن فیصلہ مشاورت سے تھا اس لئے اس فیصلے کو اللہ کی تائید حاصل ہوئی۔خلفائے راشدین کی سنت تھی کہ وہ اپنے فیصلے مشاورت سے کیا کرتے تھے جس کو مجلس شوریٰ کا نام دیا گیا۔حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت سارے معاملات میں نہ صرف آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مشورے دیتی بلکہ آپ ڈھارس بھی بندھاتی تھیں۔ یہ بات مشاہدے میں ہے کہ کسی خاندان کا سربراہ اگر کسی کام میں اپنی بیوی اور اپنے بیٹے بیٹیوں کومشورے کی غرض سے شامل کرتا ہے تو گھر میں ایک خوش گوار فضا قائم ہوتی ہے اور گھر کے ہر فرد کو احساس شمولیت ہوتی ہے اور گھر کے تمام لوگ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں متحرک ہوتے ہیں۔ نیا مکان خریدنا ہو ، شادی کے رشتے طے کرنے ہوں یا کوئی نیا کاروبار کرنا ہو تو با شعور لوگ نہ صرف گھر کے افراد بلکہ رشتے دار اور قریبی دوست و احباب سے مشورہ کرتے ہیں۔ مشورے کے بعد خدا نا خواستہ ناکامی ہو جائے تو پچھتاوا نہیں ہوتا۔دور جدید میں دنیا کی تمام ممالک میں ہر محکمے کے لئے ایک مشاورتی کونسل ہے۔ حکومتیں ملکی معاملات ، خارجہ پالیسی ،معاشی منصوبے گو یا ہر فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کرتی ہیں مگر اس سے پہلے وزارتوں کے سیکرٹریوں سے مشورہ اور
پالیسی کے خد و خال کی بریفننگ لی جاتی ہے اس کے علاوہ ہر شعبے کے ماہرین مشیر کے طور پر رکھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ممبران پارلیمنٹ اور سینٹ سے منظوری لی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر موضوع پر بڑی بڑی کانفرنسوں کا احتمام کیا جاتا ہے
جس میں ماہرین اپنی آرا کو مقالات کی صورت میں گائڈ لائن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی ملک کا سربراہ اکیلے ملک کے تمام معاملات کو چلا نہیں سکتا۔ بڑے سے بڑا ڈکٹیٹر بھی یہی طریقہ اپناتا ہے۔دنیا کی تمام سیاسی پارٹیوں میں انکی اپنی کور کمیٹیاں ہوتی ہیں جو اپنے سربراہ کو پارٹی پالیسی بنانے میں مشورہ دیتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی مجلس شوریٰ ہوتی ہے جو وقت ضرورت اپنے کسی بھی ایجنڈے پر متفقہ یا کثرت رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ اگرایسا نہ ہو تو پارٹیاں اور جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔کالج اور یونیورسٹی کے طلباء وطالبات تو امتحانات کی تیاریاں Study circle کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اسلامیجمعیت طلبہ اپنی شناخت رکھتی ہے جو نہ صرف اپنے ارکان و کارکنان کی بلکہ دیگر طلبائوطالبات کی تربیت باہمی تبادلہ خیالاور study circle کے ذریعے کرتی ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب اس رجحان میں کمی محسوس ہوتی ہے۔باہمی تبادلہ خیال اور study circle سے فرد کے اندر نہ صرف بولنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کے اندر بے باکی اور
خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ نیز قائدانہ صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ آج جتنے بھی پرانے لیڈر ہیں وہ سب کسی کالج یا یونیورسٹی میں اچھے مقرر اور ڈبیٹر رہے ہیں۔یہ چند اشعار احساس کی صورت پیش خدمت ہے تاکہ قارئین اپنی آرائ پیش کریں اس لئے کہ یہ مضمون باہمی تبادلہ خیال پر ہے۔
کشتیاں اب کنارے پر ڈوبنے لگیں۔
ساحل کے دیوتا نے کفن کی دکان کھولی ہے۔
بیویاں اب بازاروں میں گھومنے لگیں۔
مردوں نے چوڑیوں کی دکان کھولی ہے۔
حاکموں نے اک نیا فرمان جاری کر دیا۔
آج سے آب و ہوا میں تازگی مت ڈھونڈیئے۔پانی بجلی ، گیس ، مہنگائی ، امن و امان کی ابتر صورتحال حال اس پر حکمرانوں کی عیاشیاں اور عوام کی خامشی کیا اس شعر کے مصداق نہیں۔
بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے۔
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا