بابائے قوم مہاتما گاندھی کے فکر ونظر کی عصری معنویت

0
0
٭پروفیسرمشتاق احمد
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
                          موبائل:9431414586
                    ای میل:rm.meezan@gmail.com
عالمی تاریخ کے مطالعے سے یہ عقدہ اجاگر ہوجاتا ہے کہ ایک عظیم شخصیت کے افکار ونظریات کی اہمیت وافادیت تغیر زمانہ کے ساتھ مزید مستحکم ہوتی جاتی ہے اور نئی نسلوں کے ذہن ودل کو متاثر کرتے رہتے ہیں ۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی بھی ان ہی عظیم شخصیتوں میں شامل ہیں جن کی دانشوری اور اسباق زیست کی قدروقیمت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ ہم حسبِ معمول اس سال بھی30جنوری کو بابائے قوم کے یومِ شہادت پرحیات وخدمات پر سیمینار ، مذاکرہ ، اسکول وکالج میں بچوں کے درمیان مضمون نگاری وغیرہ کے ذریعہ خراجِ عقیدت پیش کریں گے اور یہ عمل صرف ملکی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہوگا ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم یومِ شہادت کو رسمی طورپر منانے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ورنہ اگر واقعی گاندھی کے فکر وفلسفہ کے تئیں ہم سنجیدہ ہوتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے تواپنے ملک کی جو موجودہ تصویر ہے وہ ہمارے سامنے نہیں ہوتی۔ کیوں کہ گاندھی جی کے افکار نظریات صرف لٹریچر نہیں ہیں بلکہ تقاضہ یہ ہے کہ اس پر عمل بھی ہو۔ چوں کہ ہم گاندھی جی کو کتابوں کی چیز سمجھنے لگے ہیں اور محض خانہ پُری کے لئے ان کی یومِ ولادت اور یومِ شہادت پر سیمینار ومذاکرے کی رسم ادا کرتے ہیں اس لئے ہماری زندگی میں ان کے فکر وفلسفہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نتیجہ ہے کہ بابائے قوم نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر پوری نہیں ہوسکی۔لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ بابائے قوم نے عدم تشدد اور فلاحِ وبہبودِانسانیت کے جو اسباق سکھائے تھے ان اسباق کو ہم فراموش کر چکے ہیں ۔ اگر ہم نے ان کے افکارو نظریات کے دس فی صد حصے کو بھی اپنی فکر ونظر کا محور ومرکز بنایا ہوتاتو ملک میں فرقہ پرستی کی چنگاڑی شعلہ کا روپ اختیار نہیں کرپاتا ۔ہجومی تشدد کا بول بالا نہیں ہوتا، مذہب کے نام پرذہنی تعصبات وتحفظات کے واقعات رونما نہیں ہوتے اور اگر کہیں اس طرح کے حادثات وواقعات ہو جاتے تو ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوتے ، اُپواس کرتے اور اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک ملک کی فضا سازگار نہیں ہوتی۔ یاد کیجئے کہ جب آزادی کا سورج طلوع ہو رہا تھا ، دہلی میں جشنِ آزادی کا ماحول تھا لیکن بابائے قوم بنگال کے نواکھولی میں یاترا پر تھے۔ محض اس لئے کہ وہاں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا تھا۔ بابائے قوم نے وہاں جا کر ہندو اور مسلمان دونوں سے مل کر نہ صرف وجہ دریافت کی بلکہ دونوں کے درمیان یگانگت کو مستحکم کیا اور اس وقت تک وہاں سے نہیں لوٹے جب تک کہ دونوں فرقے کے درمیان پیار ومحبت کا ماحول سازگار نہیں ہوا۔ دونوں فرقوں کے لوگوں سے یہ اپیل کرکے واپس لوٹے کہ اگر پھر کسی طرح کے نازیبا حالات کی خبر ملے گی تو مجھے دکھ ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جب آزادی کے دن دہلی اور گردونواح میں فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے ، ایک دوسرے کو مارنے پیٹنے کی خبرآنے لگی تو بابائے قوم نے مون دھارن کیا اور اُپواس پر بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک انہیں یہ یقین نہیں دلایا گیا کہ اب دہلی کے حالات ٹھیک ہوگئے ہیں ۔ آج پورے ملک میں گائو کشی کے نام پر جس طرح ہجومی تشدد کا مظاہرہ ہو رہاہے ، بے قصور معصوم موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں ۔ ان دلسوز واقعات پر ہمارے سیاست داں گھڑیالی آنسو تو خوب خوب بہا رہے ہیں کیا کوئی ایسا ہے جو پہلو خاں کی موت کے خلاف وہاں جا کر اُپواس کرے ؟ کیا کوئی ایسا ہے جو ہجومی تشدد کے خلاف مون برت کرے ؟کوئی ہے جو فرقہ پرستی کے خلاف بھوک ہڑتال کرے؟ میرے خیال میں ان تمام سوالوں کا جواب منفی میں آئے گا۔اگر جواب مثبت میں نہیں آرہا ہے تو پھر ہمیںکیا حق ہے کہ ہم گاندھی کی یومِ ولادت کا جشن منائیں اور ان کی یومِ شہادت پر خراجِ عقیدت پیش کریں ۔ نامور صحافی ودانشورلوئی فیشر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان نے ہمیشہ ہی دنیا کو روشنی بخشی ہے ۔یہ وہ دھرتی ہے جہاں بدھ جنم لیتے ہیں ، وہی بدھ جنہیں ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے ۔کروڑوں ملک کے باہر اور مٹھی بھر اندر ،مستقبل میں  یہی مٹی دنیا کو گاندھی جیسا مہاتما سونپتی ہے لیکن وہ بھی کہیں گم ہو جاتے ہیں !میرا سوال بھی یہی ہے کہ کیا آج ہندوستان گاندھی کی راہ پر ہے ۔
مارٹن سوآریز نے اپنی کتاب ’’Pop gose to Alaska‘‘ میں لکھا ہے ’’اگر عیسیٰ مسیح اور بدھ ہونے کی راہ چاہئے تو گاندھی کو سمجھ لیجئے ‘‘ ۔ آج ہم خود اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے گاندھی کو سمجھ لیا ہے ۔ اگر نہیں تو کیوں؟
بابائے قوم مہاتما گاندھی نے صفائی کے متعلق اپنا ایک مستحکم نظریہ دیا تھا ۔لیکن صرف نظریہ ہی نہیں بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہناتے تھے اور جہاں کہیں گندگی دیکھتے وہاں اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے تھے اور تحریری اور تقریری دونوں طورپر جہاں کہیں جاتے صفائی کی اہمیت کو اجاگر کرتے اور جہاں کہیں گندگی دیکھتے تو اس پر اپنی ناراضگی بھی جتاتے۔ ’’ینگ انڈیا‘‘ کے فروری 1927کے شمارے میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’میں بہار کے گیا شہر میں گیا تھا وہاں جو گندگی دیکھی اس نے مجھے بد دل کردیا ہے کیوں کہ میری ہندو آتما گیا کے گندے نالے میں پھیلی دِکھی ‘‘۔ آج صفائی پر سیاست ہو رہی ہے ۔ اخباروں او رمیڈیا میں صفائی کا اشتہار آرہا ہے اور اس پر اربوں کھربوں اخراجات آرہے ہیں ۔ لیکن اس صفائی کرنے والے مزدوروں کی زندگی کے تعلق سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا رہاہے۔ حال ہی میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ دہلی کے نالے کی صفائی کرتے ہوئے چار افراد زہریلی گیس کے شکار ہوئے اوران کی موت ہوگئی ۔ کیا آج کے تکنیکی دور میں ان مزدوروں کی زندگی نہیں بچائی جاسکتی تھی اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض صفائی مہم کا ڈھنڈورا پیٹنا بابائے قوم کے نظریۂ صفائی پسندی کی تبلیغ نہیں ہے بلکہ ہر فرد اگر اپنے ارد گرد کی گندگی کو دور کرنے کا عہد لے تو خود بخود گاندھی جی کا خواب پورا ہوجائے گا اور تمام تر سیاست کی دکانیںبند ہو جائیں گی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم بابائے قوم کو سچی خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لٹریچر کو ہی نہیں بلکہ کیرکٹر کو بھی اپنانے کی کوشش کریں کہ یہی ہم ہندوستانیوں کے مفاد میں ہے اور پوری انسانی برادری کے لئے بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی پوری دنیا میں امن کے پیامبر تسلیم کئے گئے  مارٹن لوتھر ہو ں کہ نیلسن منڈیلا، ان لوگوں نے تو گاندھی کو ہی اپنا آئیڈیل مانا اور ان کی راہ کو اپنا کر ایک مثالی انسان بنے۔ حال ہی میں براک اوباما نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ اگر ہم نے گاندھی جی کے فکر ونظر کو اپنی زندگی کا حصّہ نہ بنایا ہوتا تو آج ہم جہاں ہیں وہاں نہیں ہوتے۔مگر افسوس ہے کہ بابائے قوم کی اپنی دھرتی پر ایسے کتنے لوگ ہیں جو ان کے فکر ونظر کی بدولت ایک مثالی انسان بنے ہیں ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔ کاش ہم ان کے افکار ونظریات سے استفادہ کئے ہوتے اور اپنی زندگی کی راہ طے کی ہوتی تو شاید آج ملک میںجو ہیجانی کیفیت ہے اس کے ہم شکار نہیں ہوئے ہوتے۔ اس لئے اس یومِ شہادت پر ہم یہ عہد کریں کہ گاندھی جی کو یاد کرنا صرف رسم کی ادائیگی کی چیز نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے لئے اپنی زندگی میں تغیر وتبدّل لانے کی ضرورت ہے کہ گاندھی کے فکروفلسفہ کا تقاضہ یہی ہے اور ملک وقوم کے مفاد میں ان کے افکار ونظریات کی اہمیت مسلّم ہے۔
٭٭
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا