ایک علیٰ پایا شخصیت سے محروم ہوا بھلیسہ

0
0
 شجر کے سہارے تھا پرندوں کا ہجوم
 اجل کی ہوا نے سب کو بے گھر کر دیا۔۔(خیالی)
چوہدری خدا بخش خیالی بھلیسہ
            یہ دنیا دارالفناء ہے، ہر بندے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
  کل نفس ذائقۃ الموت (ہر جی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے)۔
آج صبح مبائیل پہ ایک ایسی تصویر سامنے آئی کہ چند منٹ سوچتا ہی رہ گیا۔۔کیا یہ سچ ہے۔دوستو جب جناب الحاج غلام حسین ملک صاحب کی خبر سنی کہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔دارلفنا سے دارلبقا کا سفر کر چکے ہیں۔تو میرے دل پہ عجیب سے کیفیت طاری ہوگئ۔
        ‌‌‌‌بےشک الحاج غلام حسن ملک آن کا نام تھا۔لیکن اہل ادب والوں سے پوچھو کہ ملک صاحب کون تھے۔آج ملک صاحب نہیں گزرے بلکہ بھلیس کی ایک ادبی تحریر کا سانس نکل گیا دوستو۔
مجھے تو ایسا لگا کہ جیسے ایک قیمتی انمول ہیرا کسی اونچے مقام سفید مہکدار پھولوں میں لپٹ کر چھپا دیا گیا۔دنیا پہ ان کی زندگی کا حوالہ کوئی ان کا خاص ہی کرسکتا ہے۔
ملک صاحب کی خدمات کسی تعریف کی محتاج نہیں بلکہ۔روز روشن کی طرح قیامت تک جاری وساری رہیں گی۔تعلیمی شعوبہ ان کی خدمات کا مرکز رہا ہے۔سیکڑو گھروں مین ملک صاحب کے چراغ عیاں ہیں۔
بلاشبہ شاعری ایک فطری جذبہ ہے جو انسان اور معاشرے کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شاید وہ واحد نعمت ہے جو انسان کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد تک کلام الہی کی شکل میں ملتی رہتی ہے۔ دنیا میں ہر کوئی محبت کی اپنے انداز میں تعریف  بیان کرتا ہے- کسی کی نظر میں محبت نام ہے وفا کا، نبھانے کا، مان جانے کا، اطاعت کا، سر تسلیم خم کر دینے کا، سن لینے کا مگر  محبت کو جس انداز میں شاعروں نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے وہ دنیا کے لئے ہر دور میں توجہ کا مرکز اور باعث کشش رہا ہے۔
ملک صاحب کی سیرت پہ روشنی ڈالنا میری قلم کے بس کا روگ نہیں۔۔۔۔۔وہ خاموش طبیعت۔۔۔انکھوں میں روحانی جلال۔۔۔زمیں پہ چلنے کا نرم سہ سلقہ سفر۔۔۔۔علمی غوطہ زنی میں مشغول رہنا۔۔۔سلیقہ ادب۔۔۔۔لیاقت کا انداز۔۔۔۔شیریں سی گفتگو۔۔۔۔لبوں کی گلابی سی مسراہٹ ۔۔۔اُن کے موضوع کی تخلیق وتخیل گہرائی کا مرکوز رہاہے وہ ایک انشاپروز شاعر تھے۔وہ ایک نہایت ہی نرم مذاج شخص تھے یہ خدا داد صلاحیت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کیا کیا یاد کریں۔۔۔ملک صاحب ایک بہترین شاعر، ایک بلند پایا سماجی،اخلاقی اور دینی  شخصیات تھے۔تاریخ بھلیسہ میں وہ ہمیشاں  یاد رہیں گے۔
           ان کی تحریریں  کتابوں میں موجود ہیں۔جو ہمارے نوجوانون کیلے ایک بہترین خزانہ ہے۔ملک صاحب کی ۹۰٪ زندگی علم و ادب پہ ٹکی رہی صرف ۱۰٪وہ باقی جات کاموں میں  رہے۔
آخر میں دعا کرتا ہوں
1) اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔
 یا اللہ تعلی مرحوم ملک صاحب کو کروٹ کروٹ آرام علیٰ اور اپنی جواررحمت کے صدقے ساتوں جنتوں میں حیصہ فراہم کرے اور لواحیقین ودوست،احباب اور شاگردوں کو صبروجمیل عطا کرے۔آمین
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا