ایک حقیقت کچھ مسٹری باقی کلائمکس کا انتظار!

0
0

 

  • زندگی میں کچھ ایسے حادثات یا یہ کہیں جاں بوجھ کر کسی سے رچی گئی سازشون سے ناچاہتے ہوئے بھی ہر انساں کو روبرو ہونا پڑتا ہے جو ہر عام و خاص انساں کو جھنجوڑ کے رکھ دیتی ہیں بڑی سے بڑی شخصیات سے لیکر عام عوام بھی خوفزدہ ہوجاتی ہیں ۔ اس بارے میں بات کرنے یہاں تک کے سوچنے سے بھی گریز اختیار کرتے ہوئے حقیقت ہونے کے باوجود بھی اسکو سیاح رات کا ایک ڈراو نا خواب سمجھ کر بھلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔پر کسی کے تسلیم کرنے نہ کرنے یا کسی کے ذکر کرنے نہ کرنے سے حقیقت،سچائی کبھی چھپی نہیں رہتی بلکہ ہزاروں لاکھوں پرتوں میں سے بھی اپنے ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔۔ زندگی میں کچھ ایسے حادثات یا یہ کہیں جاں بوجھ کر کسی سے رچی گئی سازشون سے ناچاہتے ہوئے بھی ہر انساں کو روبرو ہونا پڑتا ہے جو ہر عام و خاص انساں کو جھنجوڑ کے رکھ دیتی ہیں بڑی سے بڑی شخصیات سے لیکر عام عوام بھی خوفزدہ ہوجاتی ہیں ۔ اس بارے میں بات کرنے یہاں تک کے سوچنے سے بھی گریز اختیار کرتے ہوئے حقیقت ہونے کے باوجود بھی اسکو سیاح رات کا ایک ڈراو نا خواب سمجھ کر بھلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔پر کسی کے تسلیم کرنے نہ کرنے یا کسی کے ذکر کرنے نہ کرنے سے حقیقت،سچائی کبھی چھپی نہیں رہتی بلکہ ہزاروں لاکھوں پرتوں میں سے بھی اپنے ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔۔ جیسے خون کا رنگ کتنا بھی پانی سے بہانے کی کوشش کریں وہ اپنا وجود نہیں کھوتا، اسکی بوو اسکا سرخ رنگ بھلے پھیکا پڑجائے پر اسکی صفت اس سے جڑی رہتی ہے، اسی طرح حقیقی دنیا میں گذرے حادثات کہیں یا سازشیں یہ بھی سرخ پانی کی طرح ہیں جو کبھی اپنی پہچان نہیں چھوڑتے اور ایسے حادثات اکثر ہندی فلموں میں دکھائے جاتے تھے وہ اب حقیقت میں ہم سبھی کے درمیان ہورہے ہیں۔ جیسے فلموں میں مسٹری،ٹریجڈی اور آخر میں کلائمیکس ہوتا ہے ، جس میں جھوٹ، دھوکے سے جڑا گناہ، دردناک قتل اور الجھے ہوئے راز ہوتے ہیں جو کئی کرداروں سے جڑ کر ہر ایک کے چہرے پہ خوف و ماتم برپا کرتے ہیں ، یہاں پہ بھی کچھ اسی طرح کئی حقیقی کردار شامل ہیں، جن میں شیطانی ذہنیت سے لائس طاقتور ولن ،بکی ہوئی پولیس، خریدے گئے گواہ، انصاف کےلئے بنا ہار مانے لڑتا ہوا شخص اور موت کی آغوش میں سوئے بے گناہ اہم کردار جو آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہوئے بھی ہر دل دماغ میں اپنی چھاپ چھوڑتے چلے گئے ۔آج اس حقیقی دنیا میں بھی کچھ اسی طرح کی فلمی چھبی نظر آرہی ہے۔جسکی سیاہ شروعات پولیس سے کئے گئے ایک فرضی انکاؤنٹرسے ہوئی ہے ۔۔۔ پہلا اپیسوڈ:۔کچھ سال پہلے 2005 میں سہراب الدین کو گجرات پولیس نے فرضی انکاؤنٹرمیں مار دیا اور اسکا الزام گجرات گورنمنٹ کے طاقتور ہوم منسٹر امیت شاہ کےسر پر لگا تھا جسکی وجہ سے امیت شاہ سر کو جیل بھی جانا پڑا۔۔دوسرا اپیسوڈ:۔ابھی یہاں سے شروع ہوتا ہے فلم کا دوسرا سرا جسکے اہم کردار ایک سچے حق پرست نیک ( سی بی آئی )جج جن کا نام جسٹس لوہیا سے شروع ہوتا ہے ، جو سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس کی جانچ کر رہے تھے اور جانچ جب اپنے آخری مرحلہ پر تھی کہ اچانک جسٹس لوہیا کی رہسمئی موت ہوگئی جو اُس وقت اپنے ذاتی دورے پر ناگپور گئے ہوئے تھے اور اس موت کو قدرتی موت کی چادر اڑھادی گئی۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی جسٹس لوہیا کی رہسمئی موت کئی سوال کھڑے کر رہی تھی۔ کیونکہ ایک نامور ہائی پروفائل شخص کی موت اسطرح مشتبہ حالت میں ؟ یہ کچھ ہضم نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ یہاں پہ یقین نہ کرنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کےلئے چند وجوہات درپیش آرہے تھے ۔ اتنے ہائی پروفائل شخص جو ہائی کورٹ کے جج ہونے کے باوجود ناگپور دورے پر انکے ساتھ سیکورٹی گارڈس کا موجود نہ ہونا، بھلے وہ ذاتی دورے پر ہی کیوں نہ ہوں اور انکی موت اسی وقت پہ ہونا جب سہراب الدین انکاؤنٹرکیس اپنے آخری مرحلہ پر تھا ۔۔۔۔پھر انکی موت کے فوراً بعد امیت شاہ کو تمام الزامات سے پوری طرح سے بری قرار دے دیا جانا ؟یہ ساری باتیں ایک مسٹری کی طرح کہیں نہ کہیں ہر ایک کے ذہن میں کئی الجھے سوال پیدا کر رہی تھی۔۔۔پر ان سوالوں کو دنیا کے روبرو لانے کی جرا ٔ ت کی مہاراشٹر کے نامور انصاف پسند صحافی بندو راج نے،،جسٹس لویا کی موت کو ہی شک کے گھیرے میں لیتے ہوئے سپریم کورٹ میں رٹ داخل کرکے اپنی صحافت انسانیت کا فرض ادا کرتے ہوئے پھر سے انصاف کی مانگ کی ۔۔۔تیسرا اپیسوڈ:۔پر یہاں سے اس فلم کے تیسرے اپیسوڈکا آغاز کچھ اسطرح سے ہوا جس سے پورے ہندوستان میں ایک تہلکہ مچ گیا اور یہ ہندوستان کی تاریخ میں کسی چمتکار سے کم نہیں ، جو نہ کبھی پہلے سنا نہ دیکھا نہ ہوا تھا، اس دن کو جمہوریت کےلئے ایک سنہرا دن کہیں تو بھی اسکی شاں میں کم ہوگا ۔۔۔ جب 12 جنوری کو سپریم کورٹ کی نچلی بنچ میں بی جے پی حکومت کے دبائو میں آکر اگر جسٹس لوہیا کیس کو خارج کیا جاتا،تو اگلے دن 13 جنوری ممبئی اور چنڈی گڑھ ہائی کورٹ سے بھی جسٹس لوہیا کی موت کا کیس خارج ہوجاتا اور امیت شاہ صاف بچ جاتے شاید اسی لئے سپریم کورٹ کے سینئرججز کے اوپر موجودہ حکومت کی طرف سے دبائو ڈالا جارہا تھا کیونکہ امیت شاہ کو سزا ہونا یعنی بی جے پی حکومت کےلئے نقصاندہ ثابت ہوتا۔۔۔اسی لئے امیت شاہ کو بچانے کے خاطر بی جے پی کی حکومت کی اور سے سپریم کورٹ کے سینئرججز پہ دبائو دالا جارہا تھا۔۔۔ شاید یہی وجوہات ہونگی جسکی وجہ سے سپریم کورٹ کے چار سینئرججز جسٹس چالمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بھیم رائو لوکور، جسٹس کوریں جوزف سپریم کورٹ کے ان چاروں ججز نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف جاکر ملک کی عدلیہ کے وقار کو بچائے رکھنے اورسیکولرزم کو قائم رکھنے کی خاطر مجبوراً پریس کانفرنس کر ہندوستان کی سواسو کڑور عوام کی عدالت میں آنا پڑا اور یہ دن ہندوستان کی تاریخ میں انشاءاللہ سنہرے حرفوں میں لکھا جائیگا ۔ ۔  ابھی اسکو دھماکہ کہیں یا چمتکار یا سپریم کورٹ کے چار سینئرججزکی ہمت وطن پرستی کہ یہ معاملہ ہر ایک کی زبان پہ چرچا کا باعث ہی بنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئروکیل دوشونت داوئے نے بیان دیا ہے ۔ انہوںنے کہا ہے کہ سی بی آئی جج جسٹس لوہیا کے موت کے معاملے کی شنوائی کرنے والے جسٹس ارون مشرا کے بی جے پی کے نیتائوں سے قریبی تعلقات ہیںاور انہوںنے یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئرجج جسٹس لویاہ کی رہسمئی موت کے کیس کی سنوائی نہیں کرنی چاہیے۔۔دوشونت دوائے کے اس خلاصے کے بعد جسٹس لوہیا معاملے میں جانچ کی مانگ کرنے والے تحسین پونا والا نے بھی بیان دیا ہے کے داوئے نے ان سے پہلے بھی کہا تھا کہ جسٹس ارون مشرا چیف جسٹس دیپک مشرا کے گرو ہیں۔ اسلئے انہیں اس کیس کی شنوائی نہیں کرنی چاہیے۔ابھی آگے کے اپیسوڈمیں دیکھنا ہے کہ اور کیا کیا خلاصے ہونگے اور کتنے الجھے ہوئے راز فاش ہونگے اور ان سب کے درمیان آخر کار جیت کس کی ہوگی ،سیکولرزم والی ذہنیت کی یاکمیونلزم ذہنیت رکھنے والوں کے سازشوں کی ؟؟؟۔۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا