این جی اوز کی آڑ میں۔۔۔۔

0
0

غیر سرکاری تنظیموں میں سے اکثر صرف کاغذات تک ہی محدود
حق نواز نہرو

ڈوڈہ؍؍ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران مرکزی خطہ جموں و کشمیر میں 6000 سے زائید غیر سرکاری تنظیموںیعنی این جی اوز کا ایک بڑا جال بچھ گیا ہے۔اِن غیر سرکاری تنظیموں میں سے اکثر صرف کاغذات تک ہی محدود ہیں۔جبکہ این جی اوز کی ایک قلیل تعداد ہی زمینی سطح پر موجود ہے۔ جہاں تک وادی چناب کا تعلق ہے یہاں بھی این جی اوز کی بھر مار ہے جنکا وجود رجسٹرار سوسائٹیز کی طرف سے اجرزء شدہ رجسٹریشن سند تک ہی محدود ہے۔ دیکھا جائے تو قصبہ ڈوڈہ میں بھی این جی اوز کی ایک کثیرتعداد موجود ہے۔ ایسی این جی اوز کے حل و عقد اپنی آرگنائزیشن کا بینر اپنی بغل میں دبائے رہتے ہیں تاکہ جہاں کہیں جلسہ جلوس دیکھا جھٹ سے اپنا بینر آویزاں کیا اور دو چار فوٹو لیکر خود کو عوام میں بالعموم اور خیراتی اداروں میں بالخصوص زندہ رہنے کی گویا سند بناڈالی۔ایسا کئی بارمشاہدے میں آیا ہے جسکی مثالماضی میں ایک بار بگلہ بھرت میںدیکھنے کو ملی جب ایک انسانی حقوق جانکاری پروگرام جسے یوتھ فار ہیومن رائٹس وادی چناب اور آٹھ راشٹریہ رائفلز باہمی تعاون سے منعقد کر رہا تھا۔ پروگرام کے دوران چند خوش پوش نوجوان ایک بینر اور کیمرہ کے ساتھ وارد ہوئے جب تک منتظمین سمجھ پاتے کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں نہ تو پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا اور نہ ہی منتظمین سے اُنکی کوئی جان پہچان ہی تھی ۔انہوں نے اپنا بینر ایک دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا اور پروگرام میں موجود لوگوں کے فوٹو لینے شروع کر دیئے۔ راقم نے اُن میں سے ایک نوجوان کو بُلا کر اُس سے اس بات کی وضاحت چاہی کہ وہ اس پروگرام میں بن بلائے مہمان بن کر کیوں آئے تو انہوں نے ایک دم اپنا بینر اُتار کر راہِ فرار اختیار کر لی۔اس گروپ کا تعلق پرانوں سے تھا جو نہرو یوا کیندر ڈوڈہ کے ساتھ منسلک تھے۔ ایک ایسا مشاہدہ حال ہی میں ایک بار پھر سے ہوا جب ایک قومی پروگرام کے دوران ٹاؤن ہال ڈوڈہ میں ایک ملازم سرکار نے ایک مشاعرہ کے دوران ایک بینر نکال کر اُسے ایک دیور پر آویزاں کرنا چاہا کیوں کہ انہوں نے بھی جذبہ خیر سگالی کے تحت ایک عدد این جی او کی رجسٹرایشن کروا رکھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس این جی او کی طرف سے ابھی تک کوئی بھی قابلِ ستائش کام انجام نہیں دیاجا سکا ہے لیکن زندہ رہنے کی تگ و دو میں انہوں نے سلگائے گئے تنور میں اپنی روٹیاں ضرور سینکنا چاہیں تھیں۔ وادی چناب میں بیشتر ملازمینِ سرکار اپنی فرائضِ منصبی کی انجام دہی میں تو لیت و لعل سے کام لیتے ہیں لیکن ضلع انتظامیہ اور اپنے افسران پر رعب قائیم کرنے کے لئے یا تو کسی این جی او سے وابستہ رہتے ہیں یا اٹیچ باتھ روم کی طرح اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یعنی این جی اوقائیم کر لیتے ہیں۔ ایک بار این جی او قائیم ہو گئی تو پروگراموں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو کبھی ختم نہ ہونے والی ایک کڑی بن جاتی ہے۔کل تک کا ملازم سرکار این جی او کی آڑ میں نہ صرف اپنے افسران بلکہ ضلع انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں کے شانہ بشانہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایسے ہی ناعاقبت اندیش افسران کی خود کو چیف گیسٹ بنائے جانے کے شوق کا نتیجہ ہے کہ ایسے ملازمین کو عوام کے لئے ایک دردِ سر بنا دیتا ہے۔ایسے ملازم ایک بار کسی اعلیٰ افسر کے نک چڑھے بن گئے تو پھر مونڈن کی تقریب سے لیکر یومِ آزادی کی تقریب یا کسی وی آئی پی کی آمد پر منعقد کی جانے والی مجلس میں بھی ناظم بن جاتے ہیں یا کسی سیاسی لیڈر کی سفارش کرواکر خود کو ایسی مجالس میں مدعو کروالیتے ہیں۔قصبہ ڈوڈہ جسے ضلع صدر مقام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اس این جی او کلچر میں سب سے پیش پیش ہے۔ آج قصبہ میں جسے دیکھئے کسی نہ کسی این جی او کا ممبر یا خود ساختہ چیرمین یا صدر بنا ہوا ہے۔ اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک ہی چھت کے نیچے یعنی ایک ہی کنبہ میں سبھی اہلِ خانہ کے نام سے ایک ایک این جی او رجسٹرڈ کی جا چُکی ہے جن کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ کبھی کبھار اخباروں میں بیان بازی کرلیتے ہیں ۔کئی ملازمین نے کسی خاص جگہ تعینات رہنے کے لئے این جی او کو گویا لائسنس بنا لیا ہے۔تحصیل گندو میں ایک مدرس اسی این جی او کو آڑ بنا کر ایک ہائر اسکنڈری میںپچھلی ایک دہائی سے بھی زاید عرصہ سے تعینات ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرتا۔ یہی حال ضلع صدر مقام ڈوڈہ ، تحصیل صدر مقام بھدرواہ ، تحصیل ٹھاٹھری کا بھی ہے ۔ اُدھر خطہ ء چناب کے دیگر دو اضلاع کشتواڑ اور رام بن میں بھی حالات اس سے مختلف نہیں بلکہ ان اضلاع میں کئی ملازمین سرکار نے میڈیا کو بھی آڑ بنا کر سرکاری افسران اور ملازمین کو چونا لگا یا ہے ۔کیا یوٹی انتظامیہ کے حل و عقد اور ضلع اور تحصیل انتظامیہ میں تعینات افسران اس بات پر دھیان دینگے؟۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا