اینٹ بھٹہ مزدورجبری مشقت کے لئے مجبور

0
155

شیطان ریگر
بھیلواڑہ، راجستھان

ملک کی آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی اینٹوں کے بھٹہ مزدور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ جغرافیائی طور پر چاہے ملک کو آزادی ملی ہو یا حکومت نے کتنی ہی اسکیمیں کیوں نہ بنائی ہوں، سچ یہ ہے کہ آج بھی ملک میں مہاجر مزدوروں کو حقیقی آزادی نہیں ہے۔ نہ تو انہیں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہے اور نہ ہی انہیں کسی اسکیم کا فائدہ ملتا ہے۔ ملک میں اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے جو روزگار کی تلاش میں ایک ریاست سے دوسری ریاست میں ہجرت کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر غریب، ان پڑھ، قبائلی اور معاشی طور پر بہت کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح راجستھان میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں بڑی تعداد میں اینٹوں کے بھٹے چلائے جاتے ہیں جن میں اتر پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور راجستھان کے مختلف اضلاع کے مہاجر مزدور کام کرتے ہیں۔

ان مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اینٹوں کے ان بھٹوں پر کام کرنے والے زیادہ تر مزدور تارکین وطن ہیں جس کی وجہ سے بھٹہ مالکان آسانی سے ان کا استحصال کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں میں مزدوروں کی بھرتی کا عمل مقامی بروکرز (ٹھیکیداروں) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جو مزدوروں کو اچھی تنخواہوں کا لالچ دے کر اپنے گاؤں میں ایڈوانس دے کر یہاں لے آتے ہیں۔ بھٹے پر پہنچنے کے بعد، ان مزدوروں کو ایک ہی بھٹے پر پورے سیزن یعنی تقریباً 8 سے 9 ماہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس بھٹے پر اسے کتنی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے، وہ کام کے سیزن کے دوران بیچ میں گھر بھی نہیں جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی کارکن سیزن کے وسط میں کسی وجہ

سے گھر جانا چاہے تو اسے اس کی مقررہ اجرت کا نصف ہی ادا کیا جاتا ہے۔

بہار کے ضلع بنکا سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور سومیش، جو گزشتہ 10 سالوں سے بھیلواڑہ ضلع میں ایک اینٹوں

کے بھٹے پر کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں، ’’اس سیزن میں، میں اپنے خاندان کے ساتھ دس ہزار روپے ایڈوانس کے ساتھ بھٹے پر کام کرنے آیا ہوں۔ اب ہمیں پورا سیزن یہاں کام کرنا پڑئے گا،بھٹہ مالک اور ٹھیکیدار ہمیں سیزن کے درمیان میں چھٹی بھی نہیں دیتا ہے، راشن لانے کے لئے ایک پرچی دیتا ہے، جس کے بعد ہی ہم راشن کی دکان سے سامان لا سکتے ہیں۔ مالک ہمیں خرچے کے لیے نقد رقم نہیں دیتا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگر میں تمہیںپیشے دوں گا تو تم اس کی شراب پی جائوگے یا کہیں بھاگ جائو گے ۔ بھلاہم مزدور اپنی مزدوری چھوڑ کر کیسے بھاگ جائیں گے؟اس کی وجہ سے اچھی رقم ملنے کے باوجود کئی بار ہم دوسرے بھٹے پر نہیں جا سکتے ہیں۔اگر ہم وہاں سے چلے جائیں تو اس بھٹے کا مالک ہمارے واجبات ادا نہیں کرے گا۔‘‘ان اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوروں کو ان کے پورے خاندان کے ساتھ کام پر لایا جاتا ہے۔ زیادہ تر مزدوروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کس بھٹے پر لے جایا جا رہا ہے۔

ٹھیکیدار کی طرف سے مزدوروں کو بھٹہ پر لانے کے بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کہاں آگئے ہیں۔ ان مہاجر مزدوروں میں سے زیادہ تر کا تعلق دلت اور قبائلی برادریوں سے ہے اور زیادہ تر ناخواندہ ہیں۔ کئی مزدور بھٹہ مالک کا نام تک نہیں جانتے ہیں۔ بہار اور یوپی سے لائے گئے زیادہ تر مزدوروں کو ان کی اجرت کے بارے میں بھی نہیں معلوم کہ انہیں یہاں کتنی مزدوری ملے گی اور انہیں کب تک کام کرنا پڑے گا؟ زیادہ تر ٹھیکیدار اپنے نیٹ ورک بروکرز کے ذریعے ان ریاستوں میں معاشی طور پر کمزور اور ان پڑھ مزدوروں کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر انہیں اچھی اجرت کا لالچ دے کر یہاں لے آتے ہیں۔ جہاں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہوتی ہیں۔ گھر کے نام پرصرف کچی اینٹوں سے بنے ایک چھوٹا سا کمرا ہوتا ہے۔ جس میں ایک عام آدمی کھڑا بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ ان مزدوروں کے ساتھ آنے والے خاندانوں کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنہیں بیت الخلا اور نہانے کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی ہے۔ انہیں ہر روز فجر سے پہلے کھلے میں رفع حاجت کے لیے جانا پڑتا ہے۔

مہوبا، اتر پردیش کی رہنے والی سنیتا کہتی ہیں،’’میں یہاں اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ گزشتہ چار سالوں سے کام کر رہی ہوں۔ مجھ جیسی کئی خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ اس بھٹے پر کام کر رہی ہیں۔ لیکن ہم خواتین کے لیے، یہاں سہولت کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے، ہم دن میں تھوڑا ہی کھاتے ہیں تاکہ دن میں حاجت کی ضرورت پیش نہ آئے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمیں کھلے میں جانے کو مجبور ہونا پڑے گا جو ہمارے لئے شرمندگی کی بات ہوتی ہے۔ سب سے بڑی مشکل حیض کے وقت آتی ہے جب ہم درد کی وجہ سے کام نہیں کر پاتے ہیں لیکن کام کرنا مجبوری ہوتی ہے، ورنہ ہماری مزدوری کٹ جاتی ہے۔زیادہ پیسے کمانے کے لئے ہم اپنے بچوں کو بھی اس کام پر لگا دیتے ہیں لیکن ٹھیکیداربچہ مزدوری کا حوالا دیکر بچوں کے کام کی ادائیگی نہیں کرتا ہے۔ حالانکہ جب بچے کام کر رہے ہوتے ہیں تو وہ انہیں روکتا بھی نہیں ہے۔ سیزن ختم ہونے کے بعد ہم گاؤں چلے جاتے ہیں اور واپس آنا نہیں چاہتے ہیں لیکن وہاں کوئی روزگار نہیں ہے اس لئے ہمیں مجبوراً یہیں واپس آنا ہوتا ہے۔‘‘مزدور اینٹوں کے بھٹوں پر دن رات کام کرتے رہتے ہیں۔ یہاں کام کرنے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہے۔ تمام کام ایک پیس (اینٹ کے ٹکڑے) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر اجرت دی جاتی ہے۔ تاہم اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کو باقاعدہ اجرت نہیں ملتی ہے۔ شروع میں اور درمیان میں ایڈوانس دیا جاتا ہے، کھانے کے اخراجات کے نام پر 15 دن میں ایک بار خرچہ دیا جاتا ہے۔

بھلواڑہ ضلع کے کئی اینٹوں کے بھٹوں پر بہار کے مزدوروں کو کھانے کے اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں دیے جاتے ہیں۔ انہیں پیسوں کے نام پر صرف پرچی دی جاتی ہے۔ اس پرچی کے ساتھ انہیں ایک مخصوص راشن کی دکان پر جانا پڑتا ہے اور بغیر سودے بازی کے سامان خریدنا پڑتا ہے۔ یہ دکان بھٹہ مالک یا ٹھیکیدار کے کسی رشتہ دار کی ہوتی ہے۔سیزن کے آخر میں بھٹوں پر اجرت کا حساب لگایا جاتا ہے اوررقم ادا کی جاتی ہے۔ان میں بیشتر رقم کسی نہ کسی بات کا حوالا دے کر کاٹ لی جاتی ہے۔ جس میں راشن کی رقم بھی کاٹی جاتی ہے۔ کئی بار سیزن کے اختتام پر کئی مزدوروں سے راشن اور دیگر ادائیگیوں کے نام پر اتنی رقم کاٹ لی جاتی ہے کہ انہیں معمولی اجرت بھی نہیں ملتی ہے۔یعنی جی توڑ محنت کے بعد بھی وہ آخر میںکھالی ہاتھ ہوتے ہیں۔اس حوالے سے اتر پردیش کے باندہ ضلع کے متھلیش رائداس جو کہ ایک بھٹے پر کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’’میں پچھلے کئی سالوں سے اپنے خاندان کے ساتھ یہاں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کر رہا ہوں، ہمیں آدھی اجرت بھی نہیں ملتی ہے۔

یہ ایک ایسا جال ہے جس میں ایک بار مزدور آتا ہے تو سارا سیزن پھنسا رہتا ہے، اسی لیے ہم یہاں آکر محنت کرنے پر مجبور ہیں۔اگر ہم جیسے ناخواندہ لوگوں کے لیے اپنے گھر پر ہی روزگار کا کوئی بندوبست ہوتا تو خاندان کے ساتھ ہجرت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔اگر ہم اینٹوں کے بھٹہ مزدوروں کے اوقات کار پر نظر ڈالیں تو ان مزدوروں کو کم از کم اجرت بھی نہیں ملتی ہے۔ اینٹوں کے بھٹے دیہات سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم اور صحت سے کوسوں دور ہیں۔ دوسری ریاست کے باشندے ہونے کی وجہ سے سرکاری اسکیمیں ان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر مزدور ووٹ کے حق سے بھی محروم ہیں، کیونکہ یہ مزدور اکثر باہر کی ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔جہاں کے ووٹر لسٹ میں ان کا نام نہیں ہوتا ہے۔ایسے میں جب الیکشن ہوتے ہیں تو بھٹہ مالک ان مزدوروں کو ووٹنگ کے وقت گھر جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے تاکہ اس کے کام میں کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔ ووٹ بینک نہ ہونے کی وجہ سے مقامی سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کے لیے ان کے حق میںآواز اٹھانے میں دلچسپی نہیں دکھاتی ہیں۔

ان اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوروں کو قرضے دے کر کام پر لایا جاتا ہے۔ انہیں کبھی باقاعدہ اجرت نہیں دی جاتی ہے۔ یہ مزدور کہیں جانے کے لیے آزاد بھی نہیں ہیں۔ یہ سب بھٹہ مالک کی مرضی پر منحصر ہے۔ ان مزدوروں کو کم از کم اجرت بھی نہیں ملتی اور بھٹوں پر کام کرنے کا کوئی حاضری رجسٹر نہیں ہے۔ ان کے کام اور اجرت کے حساب کتاب سے متعلق کوئی پختہ دستاویز بھی نہیں ہوتاہے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ کون سا مزدور کس بھٹے پر کتنے عرصے سے کام کر رہا ہے اور اس کی اجرت کتنی ہے؟ دوسرے لفظوں میں کہیں تو، ملک میںاتنے سارے لیبر قوانین کے باوجود، ان اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں پر ایک بھی لیبر قانون نافذ نہیں ہوتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا