ایمان کی کسوٹی

0
0

۰۰۰
محمد امین اللہ
۰۰۰
کسوٹی کا نام سنتے ہی ہر شخص کے ذہن میں سنار کی دکان میں موجود سیاہ پتھر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جس پر سنار سونے کو گھس کر اس پر چند قطرے تیزاب کا ڈالتا ہے اور پھر بتاتا ہے کہ سونا کتنا خالص ہے اور اس میں کتنی ملاوٹ ہے۔ دودھ، پانی ،تیل ، پٹرول ، اشیاء خوردونوش سے لیکر تمام دھاتوں کے خالص پن کے ناپنے کا آلے اور پیمانے موجود ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن
ہے کہ جس ایمان کے خالص ہونے پر جنت جیسی نعمت اور دنیا کی سر بلندی ملنی ہے اور کو کسوٹی پر نہ پرکھا جائے جبکہ اللّٰہ
تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کو سخت ترین آزمائشوں سے گذارا ہے۔ نوح علیہ السلام کو نو سو سال ت کقوم کی عزیت کو برداشت کرنا پڑا پھر جا کر آپ نے ہلاکت کی بد دعا کی۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا ، ملک سے نکالا گیا ، اللّٰہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکے کی سنگ لاخ وادی میں چھوڑنا
پڑا۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے راستے میں قربان بھی کرنے گئے۔ یحییٰ کا سر قلم ہوا ، حضرت زکریا علیہ السلام کو
آرے سے چیر دیا گیا ، عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کی سزا ملی۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک جتنے بھی
رسول اور نبی آئے سب کو بگڑی نا مراد قوموں نے سخت ترین آزمائشوں سے گذارا۔ہمارے پیارے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مشرکان مکہ نے اور اہل طائف نے نا قابل برداشت اذیتیں دیں۔ تمام انبیاء اور رسولوںکی امتیوں کو وقت کے مشرکین نے بھی سخت ترین سزائیں دیں۔ اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایمانی استقامت اور عزیمت تو لازوال ہے۔
اک دن حضرت بلال حبشی رض کا مالک امیہ بن خلف نے آپ سے کہا کہ بلال تم احد کہنا چھوڑ دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا۔حضرت بلال حبشی رض نے جو ایمان افروز جواب دیا وہ ہمارے لئے مثل راہ ہے۔ آپ نے کہا امیہ تم مجھ کو بازار عکاظ میں لے جاتے ہو اور مٹی کا گھڑا خریدتے ہو تو اسے بجا کر دیکھتے ہو کہ یہ کھوٹا ہے یا کھرا۔ میں نے جس اللّٰہ سے جنت کا سودا کیا ہے تو کیا وہ میرے ایمان کی آزمائش نہیں کرے گا۔ حضرت خباب رض کی مالکن آپ کو انگاروں پر سلا دیتی تھی اور آپ کی پیٹھ کیچربی سے انگارے بجھ جاتے تھے۔ اک دن آپ خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علی ہوسلم جب آئے تو آپ درد کی شدت سے بولے یا رسول اللّٰہ اللّٰہ کی نصرت کب آئے گی۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا
خباب ابھی تو تم پر کچھ نہیں گذرا پچھلی امتوں کے لوگوں کو تو زندہ حالت میں لوہے کی کنگھوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے اور وہ مستقم رہتے تھے۔ایمان کا خالص ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اک مسلمان اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اک مرتبہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا عمر تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو تو آپ نے فرمایا میں اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ آپ ص سے محبت کرتا ہوں۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا مجھے کچھ سوچنے دیجی? آپ نے چند
لمحوں کے بعد کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں اپنی جان و مال اور اولاد ہر چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتاہوں۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اے ایمان والو اپنے باپوں اور بھائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں جو کوئی ایسا کرے گا وہ گنہگار
اور ظالم ہے۔اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ،تمہارے رشتے دار ، تمہارے مال اور تمہاری تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا خدشہ ہے اور وہ تمہاری حویلیاں جو تمہیں عزیز ہیں
اگر یہ سب تمہیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے اور اللّٰہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو کہ اللّٰہ تعالیٰ عذاب لے آئے اللّٰہ فاسقوں کو ھدایت نہیں دیتا۔ التوبہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ایمان لاؤ اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر جب اصحاب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ایمان با الیقین کا حکم صادر کیا گیا ہے تو اکیسویں صدی کے کمزور ایمان والے مسلمانوں کے ایمان کی کیا کیفیت ہوگی۔ جبکہ میدان بدر میں ایمان والوں نے اپنے قریبی رشتے داروں کو جو مشرک تھے اورلڑنے آئے ان کو قتل کیا اور قیدی بنالئے۔ ایمان والو کے لئے رشتوں کی حیثیت اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک دین کا رشتہ قائم ہے۔ایمان کی تکمیل کے حوالے سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایاسیدنا ابو امامہ رض فرماتے ہیں کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللّٰہ کے لئے دوستی کی اللّٰہ کے لئے دشمنی کی ، اللّٰہ کے لئے دیا اور اللّٰہ کے لئے روک لیا اس کاایمان مکمل ہوآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کاندھے پر بیٹھے ہوئے پرندے کی مانند ہے یہ کسی وقت بھی ضائع ہو سکتا ہے۔اصحاب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پوچھا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہم اپنے ایمان کو کس طرح جانچنے کہ یہ برقرارہیکہ نہیں۔ آپ ص نے فرمایا جب تم کوء نیکی کا کام ہوتے ہوئے دیکھو تو تمہارا دل خوش ہو جائے اور کوئی بدی کو دیکھو توشدید تکلیف محسوس کرو تو سمجھنا تمہارا ایمان موجود ہے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میری امت کے معاملات سے لا تعلق رہے وہ مجھ سے نہیں۔ آج غزہ کے مظلوم اوربے کش مسلمانوں کی تباہی پر خاموش رہنے والے حکمران اور عوام کس طرح اپنے آپ کو امت محمدیہ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ایمان کی آزمائش اور کسوٹی پر پورا اترنے والوں کو دیکھنا ہو تو جنگ خندق کے مرحلے کو دیکھو جب کفار و مشرکین ، یہودونصاریٰ کی مشترکہ لشکر نے مدینے کا محاصرہ کر لیا تھا اس وقت کامل ایمان والے اصحاب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پکار اٹھے کہ اللّٰہ اور رسول نے اسی دن کا وعدہ کیا تھا مگر جو منافقین مدینہ تھے وہ حالات کے جبر کا رونا رو رہے تھے۔ اور چودہ صدیاںگزرنے کے بعد اہل غزہ و فلسطین عالم کفر کی مشترکہ فوج سے بر سر میدان ہیں اور بدر خندق کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے ہتھیارڈالنا تو دور کی بات ہے شہادت کو اسی طرح گلے لگائے میں اک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور عالماسلام کے منافق حکمران مرنے کے ڈر سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔میدان بدر سے یہ صدا آرہی ہے۔اللّٰہ کی نصرت اب قریب آ رہی ہے۔ ان الذین قالوا ربنااللہ ثم استقام تتنزل علیھم الملا ئکت الا تخاف ولا تحزن و ابشرو با الجنت الذی ان کنتم تعدوں۔
جنہوں نے کہا اللّٰہ ہمارا رب ہے اور اس ہر مستقم رہے تو ان پر فرشتے یہ ( کہتے ہوئے) نازل ہوتے ہیں کہ نہ گھبراؤ نہ غم کرو اوراس جنت کی بشارت سنو جس کا وعدہ تم سے کیا گیا ہے۔ایمان کی پرکھ لالچ، خوف ، حرص و ہوس اور تکبر سے ہوتا ہے اگر اک مسلمان اس کے پھندے میں آ گیا تو اس کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے۔ عزاجیل بھی اللّٰہ کا مقرب خاص تھا مگر تکبر نے اس کو ابلیس بنا دیا۔ایمان کی کسوٹی دراصل یہ دنیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ اک ابادی سے گذر رہے تھے تو آپ نے بیچ چوراہے پر اک نہایت ہی بد شکل بوڑھیا کو دیکھا ،پیغمبرانہ نظر نے پہچان لیا کہ یہ تو دنیا ہے ، آپ نے پوچھا دنیا تو اس حال میںاس طرح کیوں بیٹھی ہے دنیا بولی میں لوگوں کو لبھانے اور اپنا کا دیوانہ بنانے کے لئے بیٹھی آپ نے فرمایا تیری اس بد شکل پرکون فریفتہ ہوگا دنیا کھلکھلاء ہنسی اور بولی میں دیکھنے والوں کو دلہن کی طرح نظر آتی ہوں۔ آپ نے پوچھا دنیا تو نے کتنیخسم (شوہر)رکھے دنیا پھر ہنسی اور بولی بے شمار بے شمار ، آپ نے پوچھا کیا لوگوں نے تم کو چھوڑ دیا ،اس بار دنیا زور سے
ہنستے ہوئے بولی میں نے سب کو ہلاک کر دیا۔یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند۔بتانے وہم و گماں لا الہ الااللہ۔
اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دنیا جہنم میں ڈالی جائے گی تو چیکھے گی چلائے گی باری تعالیٰ پوچھے گا میرے بندوں کو ورغلانے اور مجھ سے جدا کرنے والی کیوں چیکھ چلا رہی ہے ، دنیا بولے گی کہ باری تعالیٰ مجھے تنہا کیوں ڈال رہا ہے میرے چاہنے والوں کو بھی میرے ساتھ ڈال پھر چاہنے والے بھی ڈالے جائیں گے۔ر تمہاری اولاد تم کو اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں جو ایسا کریں وہبڑے ہی زیا کار لوگ ہیں۔ سورہ کے متعدد سورتوں میں مال اولاد ، چیدہ گھوڑے ، سونے چاندی کو صرف دنیا کی زینت قرار دیا گیا ہے اور دنیا کے تماممال و متاع کو آخرت میں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں ہوگی۔جنازے کے نماز کے آخری دو جملے یہ ہیں کہ اللّٰہ مجھ کو اسلام پر قائم رکھ اور ایمان کے ساتھ اس دنیا سے اٹھانا۔دنیا کا کوئی بھی صاحب ایمان معلومات کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاملات کی بنیاد پر جنت کا حقدار قرار پائے گا۔عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
ہر غیبت کرنے والے اور طعنہ دینے والے کے لئے ہلاکت ہے جو مال جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے یہاس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔ سورہ الہمزہ۔سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔یہ دنیا کے مال و متاع ، اور رشتے ناطے ہی ایمان کی کسوٹی ہیں جو پیروں کی زنجیر بن کر اللّٰہ کے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا