*
ریاض فردوسی
*
قرآن مجید کے سورہ التوبہ میں مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے لئے سزاؤں کا بیان ہوا ہے۔مشرکین مکہ کے لئے سزا یہ بیان ہوء ہے کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا قتل کر دئیے جائیں گے۔ مشرکین مکہ کا جرائم یہ تھا کہ وہ لوگ شرک کرتے تھے اور جو دین محمد مصطفی ﷺ نے ان کو پیش کیا تھا وہ اس دین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔مختصر میں مکہ کے مشرکین اللہ تعالی کی وحدانیت،محمد مصطفی کی نبوت اور رسالت اور آخرت میں دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے کے منکر تھے۔ اس کے علاوہ مشرکین مکہ حضور کی جان کے دشمن بن گ تھے،آپ کو ملک سے نکالنے اور جان سے ماڑ ڈالنے کی تدبیریں بھی کیں اور بالآخر بدر،احد اور خندق کی جنگوں میں نبی کریم کے خلاف جنگیں بھی کیں۔دوسری طرف مدینہ منورہ میں ایک اور قوم آباد تھی جو اہل کتاب کہے جاتے تھے، ان اہل کتاب کے مذہبی اور سیاسی جرائم،قریش کے ساتھ مل کر ان کی مسلمانوں کے خلاف کی گئی سازشیں تفصیل کے ساتھ سورہ البقرہ،آل عمران،مائدہ اور انفال اور دیگر سور میں بیان ہوچکی ہے،مشرکین مکہ کے طرح اس قوم نے بھی محمد مصطفی کے دین کو قبول نہیں کیا(سوا اس قوم کے چند افراد نے)۔اگرچہ ان کی کتابوں انجیل اور تورات میں حضور کا ذکر مبارک،حلیہ شریف،سیرت طیبہ اور کردار کا ذکر جمیل تھا،ان تفصیل کے بنا پر وہ نبی کریم کو ایسے پہچانتے تھے جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے،لیکن اس کے باوجود یہ قوم بھی سوا چند لوگوں کے حضور پر ایمان نہیں لائ۔ اللہ تعالی کی ہمیشہ سے یہ سنت رہی ہے کہ جب کسی قوم پر پیغمبر کے ذریعہ اتمام حجت ہو جاتا ہے اور وہ قوم ایمان نہیں لاتی تو وہ قوم زمین پر زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتی ہے۔یعنی جب کسی قوم میں کسی رسول کو بھیجا جاتا ہے اور وہ رسول اس قوم کو وعظ،نصیحت،انذار،خوشخبری دلائل وغیرہ ہر طرح سے اللہ کے دین کو واضح کر دیتا ہے اور اس کے بعد بھی وہ قوم رسول کے لا ہ دین کوقبول نہیں کرتی تب وہ قوم اللہ تعالی کے عذاب کا مستحق ہو جاتی ہے۔قوم نوح،قوم عاد،قوم ثمود،قوم لوط،فرعون اور اس کی قوم ان ہی وجوہ کے بنا پر ہلاک کر دی گئے۔ قرآن مجید کے سورہ التوبۃ، آیت نمبر 29 میں اہل کتاب کے لیے یہ سزا بیان ہوء ہے۔ترجمہ: لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اس کو جس کو حرام کیا اللہ نے اور اس کے رسول نے اور نہ قبول کرتے ہیں دین سچا ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر۔
مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے سزاؤں کے مابین یہ فرق ہے کہ مشرکین مکہ سے جزیہ نہیں لیا جائے گا،انہیں ہر حال میں اسلام قبول کرنا پڑے گا ورنہ قتل کر د جائیں گے جب کہ اہل کتاب کو یہ رخصت دی گئی کہ اگر وہ دین اسلام قبول نہیں کرتے ہیں تو انہیں جزیہ دینا پڑے گا۔اس طرح اہل کتاب کے لیے اللہ تعالی نے جو سزا مقرر کی وہ یہ ہے کہ انہیں جزیہ دینا پڑے گا اور ذلت و خوار کی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔اہل کتاب اور مشرکین میں فرق کی وجہ!مشرکین کے لئے یہ حکم ہوا کہ جب تک یہ کفر سے توبہ کر کے اسلام نہ اختیار کرلیں اس وقت تک ان سے جنگ کی جائے گی لیکن اہل کتاب کو جزیہ کی ادائیگی پر امان دے دینے کی ہدایت ہوئی۔اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کی طرف رسول کی بعثت براہ راست تھی۔آپ نسلی اعتبار سے عربی تھے،عربی زبان میں آپ پر اللہ کا کلام اترا اور انہیں کو آپ نے اپنی دعوت کا مخاطب اول بنایا اور ہر پہلو سے انہیں کے معروف و منکر اور انہیں کے مطالبات کے مطابق آپ نے ان پر اتمام حجت کیا۔اس اہتمام کے بعد ان کے لیے کسی مزید مہلت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔چناچہ مشرکین بنی اسماعیل ذمی نہیں بنائے جاسکتے تھے لیکن دوسرے غیر مسلموں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اسلامی حکومت میں ذمی بن کر رہ سکتے ہیں۔جزیہ کے لفظی معنی بدلے اور جزاء کے ہیں،اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ رقم ہے جو کفار سے قتل کے بدلہ میں لی جاتی ہے۔اہل کتاب جب جزیہ دیے گا تو اطاعت کے ساتھ دے گا۔ حضرت عکرمہ نے کہا ہے : وہ جزیہ دے گا اس حال میں کہ وہ کھڑا ہوگا اور لینے والا بیٹھا ہوا ہوگا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ’’ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے ‘‘؛ "اور اوپر والا ہاتھ ہی عطا کرنے والا ہے ‘‘۔ پس آپ نے صدقہ میں دینے والے ہاتھ کو علیا (اوپر والا ہاتھ) قرار دیا ہے اور جزیہ میں دینے والے ہاتھ کو سفلیٰ ( نیچے والا ہاتھ) قرار دیا ہے اور لینے والے ہاتھ کو علیا (اوپر والا ہاتھ) قرار دیا ہے۔ عام طور پر جزیہ کو ٹیکس سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن جزیہ ٹیکس نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک جرمانہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے لوگوں سے ٹیکس کسی جرم کے ارتکاب کی وجہ سے وصول نہیں کرتی ہے لیکن اگر کوئی شہری بالفرض گاڑی چلاتے وقت ہیلمٹ نہیں پہن کر ٹریفک قانون کو توڑتا ہے تو اس وقت اس سے جو پیسے وصولے جاتے ہیں وہ جرمانہ ہوتا ہے۔سورہ التوبہ میں اہل کتاب کا جرم یہ بیان ہوا الذین لا یومنون ( ایمان نہیں لانا) اور قاتلو( جنگ کرنا) ان اہل کتاب کا سزا بیان ہوا اور پھر جزیہ اس سزا کا بدل ہو گیا۔ جزیہ اہل کتاب کا کفر پر ڈٹے رہنے کی سزا ہے۔
اہل کتاب کو جو سزا دی گئی اس کے لیے یہ کافی نہیں تھا کہ صرف جزیہ دیکر بچ جائے بلکہ اللہ تعالی نے ان کے لیے ایک ذلت آمیز زندگی بسر کرنا ان کے تقدیر میں لکھ دیا تھا،یہ اس لیے تھا کہ وہ اللہ کے مجرم تھے،اللہ کے باغی تھے،نبی کریم کو پہچان لینے کے بعد بھی جان بوجھ کر ان پر ایمان نہیں لا۔ ایک عام مجرم کو بھی جو دنیا میں سزا دی جاتی ہے وہ سزا بھی حقارت والی سزا ہوتی ہے، اسے عام لباس کی جگہ ایک قیدی کا لباس پہننا پڑتا ہے تاکہ اسے پل پل احساس رہے کہ وہ ایک مجرم ہے، اسے ایک چھوٹے سے سیل میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے، اسے جو کھانا کھانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے وہ آپ اور ہم نہیں کھا سکتے۔ یہ تمام چیزیں اس کے سزا کے حصے ہوتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کے ساتھ جو معاہدہ ( Treaty of Versailles) کیا تھا اور اس معاہدہ کے جو شرائط تھے وہ سب کے سب جرمنی کے لیے ذلت امیز شرائط تھے کیونکہ جرمنی کو جنگی مجرم قرار دیا گیا تھا اور جرمنی کو یہ تمام شرائط بلا چوں چراں کے تسلیم بھی کرنا پڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہودیوں کے سروں پر ذلت تھوپ دی۔چناچہ ارشاد ہے (ضربت علیھم الذل اینما ثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس۔ یہ جہاں بھی پائے گے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جب راستے میں تم مشرکین کو دیکھو تو انہیں سلام کہنے میں پہل نہ کرو اور انہیں راستہ کی کشادہ جگہ سے تنگ جگہ کی طرف ہف جانے پر مجبور کردو۔ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا حضورر نے فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں سے مصافحہ نہ کرو۔ یہ ذلت کی وہ تمام صورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے سر ان کے کفر کے سبب تھوپ دی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ) کو تحریری طور پر یہ ہدایت کی تھی کہ اللہ تعالی نے مشرکوں کو ذلیل کردیا ہے اب انہیں عزت کے مقام کی طرف واپس نہ لوٹائیو۔ مذکورہ آیت میں جزیہ لے کر اہل کتاب کے ساتھ جنگ بند کردینا بیان ہوا ہے ‘ اسی لئے شروع میں خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے ‘ لیکن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ رسول نے مجوسیوں سے جزیہ قبول فرمایا تھا تو حضرت عمر نے اپنا سابق عمل ترک کردیا۔جمہور فقہاء کے نزدیک جزیہ تمام کفار سے لیا جائے گا خواہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب صرف مشرکین عرب اس سے مستثنیٰ ہیں کہ ان سے جزیہ قبول نہیں کیا گیا۔
جزیہ اہل مفتوح کے ذمیوں اور اہل صلح کے ذمیوں سے لیا جائے گا۔زیر مطالعہ آیت میں جو حکم بیان ہوا ہے وہ مفتوح اہل ذمہ کا ہے یعنی جنہوں نے اسلامی حکومت سے جنگ کی ہو اور شکست کھا کر اس کی اطاعت پر مجبور ہوئے ہوں۔ معاہد اہل ذمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بغیر کسی جنگ و قتال کے بطور خود اپنی مرضی سے اسلامی حکومت کی رعیت بن کر رہنا اختیار کیا ہو۔ اسلام میں جزیہ کی ادایگی کے لیے کوئی خاص رقم مقرر نہیں کی گئی ہے۔ ذمیوں اور حاکم وقت کے مابین معاہدہ کے وقت جو رقم طے پا ئے گا وہی رقم بطور جزیہ ادا کرنا پڑے گا۔
فقہاء کی رائے ہے جزیہ ادا کرنے والوں میں جو شخص مالدار ہوگا اس سے زیادہ رقم وصول کئے جائیں گے۔ متوسط الحال شخص سے کم اور تنگدست مگر کام کاج کرنے والے سے اور کم رقم وصول کئے جائیں گے۔ابوداؤد نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے اہل نجران سے (کپڑے کے) دو ہزار جوڑوں کی شرط پر صلح کی تھی۔ابی ابن شیبہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر نے بنی تغلب کے عیسائیوں سے اس شرط پر صلح کی تھی کہ جتنا مال ایک مسلمان سے بطور وجوب لیا جائے گا ‘ اس سے دوگنا عیسائی سے لیا جائے گا۔ جزیہ کی وصولی اہل قتال و اہل حرفہ سے ہوگی۔ جزیہ ان لوگوں سے لیا جائے گا جو قتال کی اہلیت رکھتے ہوں گے اور ان اہل حرفہ سے جن کے لئے اس کی ادائیگی ممکن ہوگی۔ غیر اہل قتال مثلاً بچے، عورتیں، اندھے، اپاہج، راہبوں، بوڑھے، فقراء وغیرہ سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔حضرت عمر نے ایک ذمی بوڑھے کو بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا : کیا بات ہے ؟ بوڑھے نے کہا : میرے پاس مال نہیں ہے اور مجھ سے جزیہ لیا جاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا : ہم نے تیرے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ تیری جوانی (کی کمائی) کھائی ‘ پھر (بڑھاپے میں بھی) تجھ سے جزیہ لے رہے ہیں۔ پھر آپ نے اپنے کارندوں کو لکھ بھیجا کہ بڑے بوڑھے سے جزیہ نہ لیا کرو۔ شام کے سفر میں حضرت عمر رض نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو سزائیں دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو تکلیف نہ دو، اگر تم انہیں عذاب دو گے تو قیامت کے دن اللہ تعالی تمہیں عذاب دیگا۔ اسی طرح ہشام بن حکم نے حمص کے ایک سرکاری افسر کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر اس نے اسے ملامت کی اور کہا کہ میں نے رسول ? کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دیگا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔اگر کوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا۔جنگ یرموک کے موقع پر حضرت ابو عبیدہ رض نے اپنے امراء کو لکھا کہ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کر دو اور ان سے کہو کہ اب ہم تمہاری حفاظت سے عاجز ہیں اس لیے ہم جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔اس کا اثر یہ ہوا کہ حمص کے باشندوں نے کہا کہ ہم ہرقل کے عامل کو اپنے شہر میں ہرگز نہ گھسنے دیں گے تاوقتیکہ لڑکر مغلوب نہ ہو جائے۔
آل مروان کا ذمیوں پر ظلم!
جب بنو امیہ کے خلافت کا دور آیا اور بہت سارے ذمیوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو آل مروان ایک ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد بھی اس سے جزیہ وصول کرتے تھے۔یہاں تک کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے عراق میں اپنے عامل اور صوبہ دار کو یہ حکمنامہ تحریر کیا۔ ’’ اما بعد، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو داعی بناکر بھیجا تھا۔جزیہ وصول کرنے والا بناکر نہیں بھیجا تھا۔تمہیں میرا یہ خط جس وقت مل جائے اس کے فوراً بعد ان تمام ذمیوں سے جزیہ ہٹالو جو مسلمان ہوچکے ہیں۔ ‘‘ پھر جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے مسلمانوں پر دوبارہ جزیہ عائد کردیا۔اس زمانے کے فقہائ اور قراء نے عبدالملک بن مروان اور حجاج کے خلاف جنگ کے جواز کا جو فتویٰ دیا تھا اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہی تھا کہ یہ حکمران مسلمانوں سے جزیہ وصول کرتے تھے پھر یہی چیز ان کی حکومت کے زوال اور ان کی نعمت چھن جانے کا دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب بن گئی۔جزیہ ایک سزا اور عقوبت ہے جو انہیں کفر پر اڑے رہنے کی وجہ سے دی جاتی ہے لیکن جب یہ مسلمان ہوجائیں تو انہیں جزیہ کی وصولی کی صورت میں یہ سزا دینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔حضور نے مسلمانوں سے جزیہ لینے سے منع فرمایا ہے۔ہمارے ملک بھارت میں سلطان علائ الدین خلجی اور شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے ہندوؤں پر جزیہ لگایا تھا۔شہنشاہ اکبر نے ہندوؤں کو اپنی طرف کرنے کے لیے اور مغلیہ سلطنت کے استحکام کے لیے ان سے جزیہ لینا بند کر دیا تھا۔
جیسا کہ اوپر یہ بیان ہوا کہ جزیہ مفتوح قوموں سے لیا جاتا تھا۔آج کا دور فاتح اور مفتوح کا دور نہیں ہے۔آج کا دور جدید قومی ریاست کا دور ہے جہاں ایک ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کو چاہے وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں برابری کا درجہ دیا جاتا ہے۔آج کے وقت میں کیا کوئی مسلم حکومت اپنے ملک کے غیر مسلم باشندوں سے جزیہ کی وصولی کر سکتا ہے ؟ مثال کے طور پر کیا افغانستان میں طالبان کی حکومت وہاں کے مقیم غیر مسلم باشندوں سے جزیہ لے سکتا ہے جبکہ طالبان نے ان غیر مسلم باشندوں کو نہ ہی جنگ میں شکست دی ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا ہے۔دوسری بات ہمارے ملک میں کبھی کبھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں تو کسی بھی مسلم اکثریت والے علاقے میں اگر غیر مسلم اقلیت میں رہتے ہوں تو ان اقلیتوں کی حیثیت اہل ذمہ کے جیسے ہوتی ہے، ایسی صورت میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان اقلیتوں کی جان مال اور عزت کی حفاظت کریں۔