اور سِسکیا ں رُک گئیں

0
0

۰۰۰
واجدہ تبسم گورکو
۰۰۰

 

 

 

تیز رو شنی کی چُبھن سے اُ س کی آ نکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ اُ سے لگا کہ ہر طر ف سے دُھندلا دُ ھند لا ہے اور ایک دَم سے تا ریکی پھیل گئی ہے ۔پھیر آ ہستہ آہستہ آ نکھیں کھو لیں اور اپنی اُنگلیو ںکو یکے بعد د یگرے ٹٹو لنے لگا ۔لگاکہ جیسے کوئی اُسے سا منے سے ٹا ر چ مار رہا ہو۔ اِسی ا ثنا میں ہلکی ہلکی با ر ش شروع ہوگئی اور وہ گھنے پیڑ کے سا ئے میں ایک بینچ پر جا بیٹھا۔بیٹھے بٹھائے اُس کے ذ ہن میںعجیب عجیب خیا لو ں نے جنم لیا۔ ا تنی دیر میں با رش زُ ور پکڑ چکی اور در خت سے پانی چِھن چِھن کر درخت کے پتوں کے ایک سا تھ دو نو ں گرِ رہے ہیں۔ پھرا چا نک بجلی چمکی اور وہ گھبر ا کر کھڑ ا ہو گیا۔ ایک دِم سے دُ وڑ لگا ئی اور سہما سہما گھر کی جا نب چل پڑا۔ با ر ش میں بھیگا اور بجلی چمکنے سے ڈرا سہما گھر پہنچنے تک بہت تھکا وٹ محسوس کر نے لگا اور کافی دیر تک اپنے گھر کے ما حو ل میں پُر سکو ت سر پکڑ کے بیٹھ گیا ۔تھوڑا چین پایااورکچھ کھا پی کے اپنے بسترے پر سونے کی کو شش کر نے لگا مگر اُ س کی آ نکھیں پہلے ٹا رچ جیسی کسی تیز رُوشنی کی چبُھبن سے اور پھربجلی کے چمکنے سے چکاچو ند ہو گئیں تھیں۔یہ تصّور اُ س کے ذہن پربُر ی طر ح سے سوار تھااِس لئے نیندبھی اُ س کی آ نکھو ںسے کا فی دُ ور تھی۔
وہ زند گی کے اُس موڈ پر تھا جہاں سنہر ے خوا بو ں کا سلسلہ مقناطیسی کشش عطا کر تا ہے ۔لب ہر وقت مُسکراتے رہتے ہیں۔ہر بات دِل کو اچھی لگتی ہے ۔خو شیا ں بِناآ ہٹ کے دِل کے اندر دا خل ہوتی ہے اور انگ انگ جھوم اُ ٹھتا ہے ۔زندگی اِ س قدر رنگین اورپیاری معلوم ہو تی ہے کہ اُ س کا ایک ایک لمحہ خوشی سے جینے کا من کر تا ہے اور من بھی من مو جی ہو جاتا ہے۔پھر اُمنگو ں اور تر نگو ں کے سا تھ آ گے بڑ ھنے کی تمنّا پیدا ہو تی ہے مگر اِن سب چیز و ں کے باوجود اِ س طر ح کی اَنہو نی نے اُ س کی ساری تمنّا ئیں جیسے سِسک سِسک کر دَم توڑ بیٹھی۔ آنکھو ں میں سجے سجا ئے خواب ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے اور وہ ناکام آرزؤں کا کسک آمیز لبادہ او ڑھے ہو نٹو ں پر کھو کھلی مُسکان سجائے زند ہ لاش کی مانند صُبح بسترے سے اُٹھا،آج جوکچھ بھی اُ س کے سا تھ ہوا وہ اُ سے کبھی بھو ل نہیں پائے گا۔
جب وہ پو ری طر ح جاگ گیا اور کمرے میں ٹہلنے لگا ۔کھڑ کی کھو لی پیڑ وں پر پر ند و ں کا چہچہا نا اور مو سم کی خُنکی اب اُ سے تھو ڑ ی بھلی لگنے لگی۔ انگڑ ا ئی لی اور ناشتے کی ٹیبل پر رکھے اخبا ر کو ہا تھ میں لے کر اخبا ر کی سُر خیو ں کو پڑ ھنے لگا۔ پڑھتے پڑھتے وہ آ رام سے ٹیبل پررکھے نا شتے کی پلیٹ میں سے رو ٹی کے گول گو ل ٹکڑ ے بنا بناکے کھا رہا تھا کہ ایک ٹکڑ ا حلق میں پھنس گیا جسے وہ ہچکیا ں بھر نے لگا۔ کچھ سُر خیا ں پڑ ھ کر مُسکر انے لگا اورکچھ پڑ ھ کر آ ہیں بھی بھر نے لگا مگر جب آ خر ی سُر خی کے سا تھ سا تھ ایک خبر اُ س نے پو ری پڑ ھی تو درد کے ما رے کراہ اُ ٹھااور اُ بھر تی ڈو بتی سِسکیا ں رُک گئیں۔ اللہ کا شکر ادا کر تے کر تے آ سما ن کی طر ف نظر یں اُ ٹھا ئیں۔ جس گھنے در خت کی چھا ؤ ں میں اُ س نے با رش سے بچنے کے لئے پنا ہ لی تھی اُ سی در خت پر بجلی گر ی تھی اور وہ در خت زمین بو س ہو گیا تھا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا