اصغر ویلوری کا شعری اختصاص

0
0
  • ۰۰۰
    ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
    09419336120
    شعبہ اُردو،باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
    ۰۰۰
  • شمالی ہندوستان کی طرح جنوبی ہندوستان میں بھی اردو کی نابغئہ روزگار ہستیاں موجود ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دہلی۔لکھنو ۔رام پور ۔عظیم آباد ۔حیدر آباد اور دوسری نواحی بستیاں آج بھی اردو  تہزیب کا مرکز ہیں۔لیکن کرناٹک میں کنڑ اور تامل ناڈو میں تلگو زبانوں کا چلن عام ہونے کے باوجود اردو کے عاشقوں کی تعداد ان ریاستوں میں بتدریج بڑ ھتی چلی جارہی ہے۔اصغر ویلوری کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔ایک کہنہ مشق شاعر بالخصوص رباعی گو شاعر کی حیثیت سے قدآور ہیں۔اردو ادبی حلقوں میں ان کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ان کے تقریبا” پندرہ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں جن میں زیادہ تر ان کی رباعیات شامل ہیں۔اصغر ویلوری کسی کالج یا یونی ورسٹی میں اردو کے پروفیسر نہیں رہے ہیں بلکہ وہ تو ریلوےکے محکمے میں ڈویژنل کمشنر منیجر کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔لیکن اردو سے بہت زیادہ مانوس ہونے کی وجہ سے اردوہی کو اپنے تجربات ومشاہدات اور جزبات واحساسات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔فی الحال اصغر ویلوری کے دو شعری مجموعے”کھلے الفاظ”(2003) اور”منتخب رباعیات اصغر”(2014) میرے پیش نظر ہیں۔جن کے مطالعے سے میں نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ مستفید بھی ہوا۔موصوف کے مزکورہ شعری سرما ےکی قرات کے دوران میں نے جو کچھ محسوس کیا یا میرے دل ودماغ پہ جس طرح کے تاثرات مرتسم ہوئے انھیں صفحئہ قرطاس پہ رقم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔”کھلے الفاظ”میں اصغر ویلوری کی غزلیں۔رباعیاں اور قطعات شامل ہیں۔جبکہ”منتخب رباعیات اصغر” سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں اصغر ویلوری کی صرف رباعیات شامل ہیں۔شمالی ہندوستان کی طرح جنوبی ہندوستان میں بھی اردو کی نابغئہ روزگار ہستیاں موجود ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دہلی۔لکھنو ۔رام پور ۔عظیم آباد ۔حیدر آباد اور دوسری نواحی بستیاں آج بھی اردو  تہزیب کا مرکز ہیں۔لیکن کرناٹک میں کنڑ اور تامل ناڈو میں تلگو زبانوں کا چلن عام ہونے کے باوجود اردو کے عاشقوں کی تعداد ان ریاستوں میں بتدریج بڑ ھتی چلی جارہی ہے۔اصغر ویلوری کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔ایک کہنہ مشق شاعر بالخصوص رباعی گو شاعر کی حیثیت سے قدآور ہیں۔اردو ادبی حلقوں میں ان کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ان کے تقریبا” پندرہ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں جن میں زیادہ تر ان کی رباعیات شامل ہیں۔اصغر ویلوری کسی کالج یا یونی ورسٹی میں اردو کے پروفیسر نہیں رہے ہیں بلکہ وہ تو ریلوےکے محکمے میں ڈویژنل کمشنر منیجر کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔لیکن اردو سے بہت زیادہ مانوس ہونے کی وجہ سے اردوہی کو اپنے تجربات ومشاہدات اور جزبات واحساسات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔فی الحال اصغر ویلوری کے دو شعری مجموعے”کھلے الفاظ”(2003) اور”منتخب رباعیات اصغر”(2014) میرے پیش نظر ہیں۔جن کے مطالعے سے میں نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ مستفید بھی ہوا۔موصوف کے مزکورہ شعری سرما ےکی قرات کے دوران میں نے جو کچھ محسوس کیا یا میرے دل ودماغ پہ جس طرح کے تاثرات مرتسم ہوئے انھیں صفحئہ قرطاس پہ رقم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔”کھلے الفاظ”میں اصغر ویلوری کی غزلیں۔رباعیاں اور قطعات شامل ہیں۔جبکہ”منتخب رباعیات اصغر” سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں اصغر ویلوری کی صرف رباعیات شامل ہیں۔        میرے نزدیک اصغر ویلوری معاصر اردو شاعری کا ایک معتبر نام ہے۔دراصل ان کی شعری جہات نے انھیں ایک ایسے بلند مقام پہ لاکھڑا کیا ہے جس مقام کو حاصل کرنے میں ان کے وسیع مطالعے ۔گہرے مشاہدے اورآفاقی نوعیت کے تفکر وتدبر کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔مزید برآں میرے لیے یہ بات باعث مسرت ہے کہ اصغر ویلوری کے پاس مومنانہ وضع قطع  اور سوچ کے ساتھ آدمی کو انسانی صفات سے متصف دیکھنے کی للک موجود ہے۔یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ معرفت الہیہ۔عقیدت وعظمت محمدیہ کے علاوہ متصوفانہ جزبات واحساسات کا غماز ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے سینکڑوں اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔زندگی کی تلخیوں اور حالات و وقت کی ستم ظریفیوں پہ ان کی گہری نظر رہی ہے۔اپنی مخصوص دھنک رنگ فکر ونظر سے انھوں نے حیات وکائنات میں وقوع پزیر حالات وواقعات کو نہایت موثر شعری جامہ پہنایا ہے۔ان کا کلام ان کی آپ بیتی ہوتے ہوئے بھی جگ بیتی معلوم ہوتا ہے۔پروفیسر قمر رئیس نے اصغر ویلوری کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ایک جگہ ان الفاظ میں کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں=”اصغر صاحب کےکلام میں بے شک کلاسیکی شعرا کی طرح مضامین کے تنوع اور کہیں کہیں مضمون آفرینیکا احساس ہوتا ہے۔لیکن بحیثیت مجموعی ان کا کلام واردات قلبی کا آئینہ دار ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر غزلیں ایک خاص کیفیت اور سادہ وپرکار اسلوب شعری کی گرفت میں رہتی ہیں۔اس تاثر کی ترسیل میں          کبھی کبھی ردیف بھی معاون ہوتی ہے”( کھلے الفاظ۔اصغر ویلوری۔سرمدی پبلیکیشنز موہن داس لین چنئی2003ص 12)       اصغر ویلوری نے روائتی شاعری کا پاس ولحاظ تو رکھا لیکن موضوعاتی تنوع ان کے کلام میں ایک نئے لب ولہجے کے ساتھ موجود ہے۔یعنی انھوں نے غزل ۔نظم ۔قطعہ اور رباعی کے ہیئتی آہنگ کا خاص خیال رکھا مگر موضوعاتی طور پر ان کی غزلیہ شاعری میں حسن وعشق ۔گل وبلبل ۔رقص وسرود ۔نسائی لب ورخسار اور ذلف وکاکل کا ذکر نہیں ہے بلکہ انھوں نے عصری معاشرے کی منافقانہ ذہنیت اور حیات انسانی کے پیچیدہ مسائل کو موضوع بنایا ہے۔وہ عمل صالح کو امن وسلامتی کا ضامن قرار دیتے ہوئے مخلوق کے بدلے خالق سے اپنا رشتہ استوار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ان کے کلام کی پاکیزگی۔شگفتگی ۔شائستگی اور ندرت خیال کابخوبی اندازہ انکے مندرجہ ذیل اشعار سے ہوجاتا ہے۔مثلا” ان اشعار پہ دھیان دیجیے–مری آنکھوں میں بس اتنا اثر دےنظر بس تو ہی آے وہ نظر دےتجھے میں اپنے سینے میں بسالوںمجھے وہ وسعت قلب و جگر دےبا وضو قبلہ رو ہوکر لکھنانعت لکھنا تو برا بر لکھنا ان کے اوصاف نہیں چند سطوران کے اوصاف کا دفتر لکھناہوگئی اپنوں کی ظاہر دشمنی اچھا ہواچھوڑ دی ہم نے بھی ان کی دوستی اچھا ہوا     اس طرح سے لاج رکھ لی ہم نے اصغر پیار کی  روتے روتے آگئی لب پر ہنسی اچھا ہوا       اک نگاہ نفرت کی دل کو توڑ دیتی ہے  پیار سے جو ٹکراو حادثے نہیں ہوتے  دوستی کا جو حق ادا نہ کرے  ان سے ہو دوستی خدا نہ کرے  بیٹھنا ہے تو گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھو  یہ تو دیوار کا سایا ہے چلا جاے گا  سوچ کے آیا تھا دنیا میں سب اپنے ہونگے  اپنا سایا بھی پرایا ہے چلا جاے گا  چھپاوں آئینے سے کیا حقیقت  بڑا کمبخت ہے سچ بولتا ہے  ہر لفظ کو سمجھا ہے تبھی حفظ کیا ہے  قرآن کی آیات کو رٹ کر نہیں دیکھا  کوئی پہلے تو کوئی بعد اصغر  سب کو جانا ہے سب کی باری ہے  جانے کس بات سے بد ظن ہیں زمانے والے  ہم ہیں دشمن کو بھی سینے سے لگانے والے  سینے میں مرے کس کے یہ قدموں کی صدا ہے   یہ کون ہے سانسوں میں مری بول رہا ہےدرج بالا اشعار میں سوز وگداز۔درد وکسک اور زمینی حقائق پہ شاعر کا مخصوص نقطئہ نظر قاری کو دور اور دیر تک سوچنے پہ آمادہ کرتا ہے۔دنیا کی ناپائداری ۔خالق کائنات کی صناعی اور فطری صداقتوں کے بیان میں شاعر کا تہہ دار شاعرانہ تخیل نئی منزلوں کا پتا دیتا ہے۔اصغر ویلوری نے نہ صرف زبان اور محاورہ کی سادگی وپرکاری کا خیال رکھا ہے بلکہ انسانی رشتوں ۔انسانی نفسیات اور اپنے عہد کے سلگتے ہوئے مسائل کا بھی انھیں گہرا ادراک ہے۔اس سلسلے میں وہ شعری اظہار پر قادر نظر آتے ہیں۔        رباعی کے بارے میں تقریبا” تمام اہل سخن کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ رباعی شاعری کی بہت مشکل صنف ہے اسکے تقاضوں سے وہی سخنور عہدہ برآ ہوسکتے ہیں جنھوں نے حیات وکائنات کو بہت قریب سے دیکھا۔سمجھا ہو اور اسکے عطاکردہ دکھ سکھ کو بھوگا بھی ہو اور اس سے متعلق ایک حکیمانہ نقطئہ نظر بھی رکھتے ہوں۔اصغر ویلوری ایک منفرد رباعی گو شاعر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ان کے انفراد اور کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف رباعی کے فنی تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں بلکہ انھوں نے زندگی کے مختلف تجربات واحساسات کو رباعی میں اس قدر سمویا ہے کہ زندگی کی بہت ساری حقیقتیں اپنی پوری اہمیت ومعنویت کےساتھ اجاگر ہوگئی ہیں۔میرے خیال میں یہ ہوشربا کام ایک ایسا شاعر انجام دے سکتا ہے جو اپنی شعری روایات سے واقف ہو اور اصل صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتا ہو۔اصغر ویلوری کی رباعیات ہمارے شعری ذوق وجدان کی تسکین کا باعث بنتی ہیں۔میرے اس بیان کی توثیق کے لیے چندر بھان خیال کی رائے ملاحظہ کیجیے۔وہ اصغرویلوری کے بارے میں ایک جگہ رقمطراز ہیں =”اصغر ویلوری ایسے فنکار ہیں جنھوں نے زندگی کونہ صرف جیا ہے بلکہ اسے بخوبی جانا اور سمجھابھی ہے۔اسی سمجھ نے رباعیات کی شکل میں ایسےگوہر پارے دیے ہیں کہ پڑھنے والا چونک چونک اٹھتا ہے”  (منتخب رباعیات اصغر۔ص7)چندر بھان خیال نے اصغر ویلوری کی رباعیات کے بارے میں جو راے قائم کی ہے مجھے اس سے پورا اتفاق ہے۔واقعی موصوف کی رباعیات قاری کو چونکا نے۔سوچنے اور دل وجگر کو تھامنے پر مجبور کرتی ہیں۔فکر کی گہررائی اور صداقتوں کی قاری ضرب سے کئی شعری پیکر ذہن پہ ابھرتے چلے جاتے ہیں۔یقین نہ آئے تو بذات خود انکی رباعیات پڑھتے چلے جائیے۔یہاں نمونے کے طور پر اصغر ویلوری کی چند رباعیات درج کی جاتی ہیں ملاحظہ فرمائیے—-ہر موج میں پنہاں ہے روانی تیریچڑیوں کی چہک میں ہے کہانی تیریہر شے تری یکتائی کی دیتی ہے دلیلملتی ہے ہر اک شے میں نشانی تیری——تو نیل میں رستہ بھی بنا دیتا ہےتو آگ کو پھولوں سے سجا دیتا ہےبندے جو ترے شکر میں ہیں سربسجودتو نعمتیں سب ان پہ لٹا دیتا ہے        ——–تو نے کہاکن ہوگئی دنیا روشن  سنگلاخ زمین بن گئی ساری گلشن  اک تیرے اشارے سے فنا ہے سب کو  اک تیرا ہی رہ جائے گا  با قی  مسکن——         اصغر ویلوری کی ان رباعیات میں دل کو چھو جانے والا سر تال موجود ہے۔شعری پیراے میں ان کا مبلغانہ انداز جہاں اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ نظام عالم کے پس پردہ خالق کل کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں تو وہیں دیگر مندرجہ رباعیات اپنی موضوعاتی بوقلمونی کے ساتھ قاری کو نفسیاتی۔ معاشرتی ۔نسائی ۔لسانی اور دنیا کی بے ثباتی پہ غور وتدبر کی دعوت دیتی ہیں۔تمام اشعار در دل پہ دستک سی دیتے ہیں۔مزید یہ کہ ان اشعار سے شاعر کا خلوص۔اس کی متانت اور پوری انسانیت کے لیے اسکی درد مندی کا پتا چلتا ہے۔           اصغر ویلوری کی شاعری حزن ویاس اور تزکیئہ نفس کی شاعری ہے۔غم واندوہ کے تندوتیز جھونکوں کو سہنے کے باوجود انھوں نےاپنے نفسانی اور انسانی وجود کا توازن برقرار رکھا ہے۔میں آخر پر اصغرویلوری کی شاعری کے بارے میں یہ لکھے بغیر آگے نہیں بڑھوں گا کہ عصری معاشرے میں رائج الوقت جتنی بھی ذہنی خباثتیں اور بد اعمالیاں ایک نیک ۔امن پسند اور شریف النفس آدمی کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں اصغر ویلوری کی شاعری ان تمام خباثتوں کے خلاف ایک طرح کا احتجاجیہ معلوم ہوتی ہے۔ان کے پاس خوبصورت  شعری زبان ۔فکر کی بلندی ۔تشبیہات واستعارات کا بر محل استعمال۔حسن معانی اور اصلاحی رنگ وآہنگ ان کی شاعری کی بنیادی خصوصیات ہیں۔دراصل آج کے مادیت پرست اور حقوق اللہ اور حقوق العباد والے سماج ومعاشرے کو اصغر ویلوری کی اصلاحی و آفاقی شاعری راہ راست پر لے آسکتی ہے****
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا