انداز بیاں گرچہ اتنا شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جاے تیرے دل میں میری بات۔

0
0

۰۰۰
چوہدری یاسین شاہین
۰۰۰
میں اپنے مضمون کی شروعات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک حدیث سے کرنا چاہوں گا اور اس کے بعد آج کل کے معاشرتی ماحول کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرتا جاؤں گا۔
فرمایا رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ کسی حاجت مند کو صدقہ دینا (صرف) ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہیں، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی
اب میں اپنی بات قارئین کرام و تمام اہل خیر حضرات کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ آج کل ہم باہر سے آنے والے سفیروں کی ایک فہرست تیار کر لیتے ہیں اور پھر ہم اپنی جگہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے صدقات کا بوجھ اپنے سر سے اتار لیا۔ معاشرے میں اس ذہنی بیماری نے جنم لے لیا جس کی وجہ سے دیندار طبقہ تو اپنی جگہ کسی اپنے ہمسایہ کی مدد کر دیتا ہے کسی غریب مسکین کی امداد تو کر دیتا ہے مگر سماج کے اندر جو چیز شدت اختیار کر رہی ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنے ذمے سے صرف زکات کو اتارا لینا ہے بس پھر وہ چاہیے کسی کو بھی دی جاے۔
زرا سوچیئے!!!!!! کہ کیا ہم اس لئے دنیا میں آئے ہیں کہ ہم اپنے سر سے بوجھ کو اتار دیں۔ فرض کو نبھا جاے بس۔ کیا ہمیں اپنے ہمسایہ اپنے رشتیداروں کے بوجھ کو اپنے سر پر اٹھانے کی زمیداری نہیں۔ کیا کسی غریب رشتے دار،غریب ہمسایہ کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ دنیاوی اختلافات اپنی جگہ ، حقوق العباد اپنی جگہ، مگر ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم نے خود کھڑے ہو کر کسی غریب رشتے دار کسی غریب ہمسایہ کے گھر جا کر اس کا حال احوال نہیں جانا۔ ہم نے اپنے گھر میں بلا کر اپنے غریب رشتیداروں کے ہاتھ میں زکات کے نام پر چند پیسے تمھا دیئے اور اپنے آپ کو اس کے سامنے امیر ترین شخص قرار دیا۔ کیا ہم اس کے بجائے یہ نہیں کر سکتے کہ ہم زکات و صدقات کے لیے ماہ رمضان میں ایسا ماحول بنائیں کہ جس ماحول میں ہمارے سماج میں کوئی غریب اپنے آپ کو زکات لیتے ہوے غریب محسوس نہ کرے۔ کیوں نہ ہم کسی یتیم کا ماں باپ بن کر اس کے کاندھے پر ایسا شفقت کا ہاتھ رکھیں کہ زکات دیتے وقت وہ اپنے آپ کو یتیم محسوس نہ کرے بلکہ عید کی خوشیوں میں وہ اپنے یتیمی کے درد کو ہماری وجہ سے کچھ پل کے لئے بھول جاے۔ ہم وہ ماحول بنائیں کہ ہم یہ اپنے اندر احساس پیدا کریں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ اہم کام کرنے والے کی فہرست میں رکھا۔
ہمارا ماحول اتنا گر چکا ہے کہ زکات دینے کے بعد ہم اپنے اہل وعیال کے درمیان بیٹھ کراس قسم کا شکر کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں کسی غریب کا ذریعہ بنایا۔ جس کی وجہ سے ہمارے اہل وعیال کی نظروں میں ایک غریب ،ایک یتیم، ہمشہ گرا ہوا رہتا ہے۔مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوچ شکر کی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ سوچ غرور و تکبر کی ہو سکتی ہے۔ جس سوچ نے اللہ سے دور کر دیا۔
تو آئیں ہم زکات و صدقات میں پہل اپنے رشتے داروں اپنے ہمسایہ اپنے گاؤں اپنے شہر سے اس ماحول سے کریں کہ جس سے ہمارا ہر طبقہ انسانیت کی ایک ہی صف میں کھڑے رہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا