الیکشن 2019ءکے بعد

0
0

ڈاکٹر سےد فاضل حسین پرویز

فون:9395381226

 

23مئی 2019ءنماز فجر کے بعد امام صاحب بڑی رقت ا نگیز دعا کررہے تھے اے اللہ! ہم پر ظالم حکمران کو مسلط نہ کر ، ہماری حفاظت فرما، جو نتائج آنے والے ہےں وہ ہمارے حق میں کردے۔ امام صاحب کی دعا کے ہر لفظ کے ساتھ ےوں تو دل کی گہرائیوں سے آمین نکل رہا تھا مگر وسوسے کے طور پر جانے کیوں اس پٹھان کا لطےفہ اُبھر رہا تھا جو ہر روز تہجد کے وقت اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتا کہ اے اللہ! مجھے بےٹا دے‘ اے اللہ! مجھے بےٹا دے۔ اس کا روز کا ےہی معمول تھا۔ ایک دن آسمان سے فرشتہ اُترکر آےا اور اس نے پٹھان سے کہا اے اللہ کے نےک بندے تونے اتنی دعائےں مانگی ہے کہ اس سے عرش ہل گےا۔ تجھے بےٹا ضرور ملے گا مگر اے اللہ کے بندے تو شادی تو کرلے۔ ہم سب اس پٹھان سے کچھ الگ نہیں ہےں۔ ہم دعویٰ کرتے ہےں کہ اس ملک کے برابر کے شہری ہےں‘ مگر شہریت کا حق ادا کرنے کےلئے ووٹ ڈالنے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ ہم ظالموں کو تو مسند اقتدار سے کھینچ کر ہٹادےنا چاہتے ہےں مگر صرف زبانی طور پر ےا زےادہ سے زےادہ فیس بک ےا واٹس اَےپ پر اپنے خےالات کو شےئر کرکے۔ بی جے پی دوبارہ اقتدار پر آئی۔ اور پوری شدت کے ساتھ۔ اگزٹ پول سچ ثابت ہوئے۔ اپنے آپ کو جو تسلی ہم دےتے رہے تھے‘ وہ ختم ہوچکی ہے۔ اب پانچ سال اور ہے پتہ نہیں ہم میں سے کتنے اےسے ہوںگے جن کے لئے ےہ آخری الیکشن رہا ہو۔ اگلے الیکشن میں اگر ہوںگے بھی تو تب تک کے حالات کےا ہوںگے۔ اور جےسا کہ اس سے پہلے امیت شاہ نے کہا تھا کہ 2019ءکے الیکشن میں بی جے پی اگر دوبارہ اقتدار حاصل کرتی ہے تواگلے پچاس برس تک اُسی کا اقتدار رہے گا۔ کسی نے ےہ بھی کہا تھا کہ 2019ءکے الیکشن ہندوستان کے آخری الیکشن ہوںگے جو بھی ہو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جس کے پاس طاقت ہے‘ اقتدار ہے اور اس کے استعمال کا سلیقہ ہے‘ اس سے مقابلہ کون کرے گا۔ اپوزیشن کی نااہلی ثابت ہوچکی ہے۔ ا نہیں آپس میں لڑنے سے فرصت نہیں ہے۔ اقتدار کی لالچ، وزےر اعظم بننے کی خواہش، دوسروں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوششوں نے اپوزیشن کو اس حد تک رسوا کردےا کہ وہ آئینہ میں بھی اپنا چہرہ دےکھنے کےلئے شرمائےںگے۔ ا ب اس بات کو دہراکر کوئی فائدہ نہیں کہ کانگریس اور مہاگٹھ بندھن مل کر مقابلہ کرتے تو نتائج شاےد مختلف ہوتے۔جو بھی ہوا ہوگےا۔ اب افسوس، گلے شکوے کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ جنہوں نے محنت کی‘ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچنے کی کوشش کی وہ کامےاب رہے۔ انہیں کسی رےاست میں نقصان ہوا تو اس کی پابجائی کسی دوسری رےاست سے ہوئی۔ اور 2014ءکے مقابلے میں بہتر مظاہرہ کیا۔ نرےندر مودی کی قےادت میں بی جے پی اور این ڈی اے اس قدر طاقتور ہوچکی ہے کہ اب وہ ہندوستان کا رخ جدھر چاہے موڑ سکتے ہےں۔ عدلےہ، مےڈےا، نظم و نسق، پولیس، فوج، الیکشن کمےشن، سب پر ان کی گرفت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کانگریس اور دوسری جماعتوں میں دڑاڑیں پیدا ہوں۔ پارٹی کے خلاف بغاوت کا آغاز ہو اور آنے والے دنوں میں اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہ رہے۔ ےہ ایک فطری عمل ہے کہ دنےا جےتنے والوں کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ ہارنے والے کا ساتھ کوئی نہیں دےتا۔ اب دےکھنا ےہ ہے کہ مرکزی حکومت اپنے اپوزیشن کے خلاف کےا کےا کاروائیاں کرتی ہےں۔ ممتابنرجی کو ا قتدار سے بے دخل کرنے کے لئے کےا کےا جاسکتا ہے۔ ممتابنرجی کے لئے اس سے بڑا نقصان اور صدمہ کےا ہوسکتا ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کے قدم مضبوط ہوچکے ہےں۔ اور ےہاں سے اس کے (19) امےدوار کامےاب ہوئے ہےں۔ ےہ سچ ہے کہ بی جے پی کو مختلف رےاستوں میں مستحکم بنانے میں وہاں کی مقامی قےادت نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ ایک کو نقصان پہنچانے ےا کمزور کرنے کے لئے بی جے پی کے لئے راہیں ہموار کی گئیں۔ جےسا کہ مغربی بنگال میں ہوا۔ جہاں کمےونسٹوں نے ترنمول کانگریس کی بنےادوں کو کمزور کرنے کے لئے بی جے پی کی جڑوں کو سےراب کیا۔ اور وہ رےاستیں جو اپنے سےکولر کردار کے لئے مشہور تھےں‘ وہ بھی زعفرانی رنگ میں ڈھل گئی اور 2014 سے 2019ءکے درمےان ہندوستان کا ہندو ذات پات، بھید بھاﺅ سے آزاد ہوگیا۔ اب وہ صرف ہندو ہے۔ ورنہ ےادو ےادو کے حق میں ووٹ دےا کرتا تھا۔ جاٹ جاٹ کے حق میں، ٹھاکر ٹھاکر کے حق میں مگر ےہ مودی اور امےت شاہ کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے کم سے کم الیکشن کے دن ہندوتوا کو زندہ رکھا۔ اور ذات پات کو ختم کردےا۔ ورنہ شمالی ہند میں مہاگٹھ بندھن کو اچھی کامےابی ملتی۔ ایک المےہ ےہ بھی ہے کہ ہندوستان کا سےکولر کردار تقرےباً ختم ہوچکا ہے اور اب انہی لوگوں کی عزت اور مقبولیت ہے جو سےکولرزم کی مخالفت کرتے ہےں اور جنہوں نے گاندھی جی جےسے اس دیش کے مہاتما کے قاتلوں کو قوم پرست کہا‘ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ناتھورام گوڈسے کو بھی قومی ہیرو کا درجہ دے دےا جائے اور نصابی کتابوں میں اسے ایک قوم پرست کے طور پر شامل کرلےا جائے۔ 2019ءکے نتائج سے تو اےسا ہی لگتا ہے کیوں کہ جنہوں نے گاندھی جی کے قاتل کو قوم پرست کہا وہ کامےابی کی سمت رواں دواں ہے۔نوٹ بندی، بےروزگاری، وزےر اعظم کے مسلسل بےرونی دورے، رافل معاملت پر اتنا کچھ کہا گےا مگر اس کا اثر ووٹرس پر نہیں ہوا۔بلکہ ووٹرس نے ایک نظرےہ کو عملی جامہ پہنانے کے غرض سے ووٹ دےا ہے۔ان کا ےہ احساس ہے کہ بعض نقصانات اور تکالیف وقتی طور پر ہوںگی مگر آگے چل کر اس کے فائدے ہوںگے۔ پانچ سالہ بی جے پی دور اقتدار میں اقلیتوں کو کئی پرےشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بیف کے نام پر لنچنگ، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، کئی عدالتی فےصلے جس سے عدلےہ کا وقار اور اعتماد مجروح ہوا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اقلیتوں نے اس سے کچھ سبق نہیں لیا۔صرف بےان بازی کرتے رہے۔ اور بعض تنظیمےں مظلومین اور متاثرین کے نام پر اپنی دکانیں چلاتی رہیں۔ ہونا تو ےہ چاہئے تھا کہ پانچ سال تک جو کچھ سہا اس کے ردعمل کا اظہار اپنے متحدہ ووٹوں سے کےا جاتا مگر اےسا نہیں ہوا۔ جس طرح مذہبی معاملات میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلمان آپس میں متحد نہیں ہوتا سےاسی معاملے میں بھی اس کا اےسا ہی روےہ رہا۔ سب سے زےادہ افسوسناک پہلے تو ےہ ہے کہ جہاں ان کی اکثریت رہی وہاں وہ صرف تبصرے کرتے رہے۔ لوگ مشورے دےتے رہے۔ گھر سے نکل کر انہوں نے ووٹ نہیں دےا۔ ورنہ نتائج پر کچھ تو اثر ہوتا۔ مسلم قائدین چاہے وہ مذہبی ہو ےا سےاسی وہ بھی قوم کی رہنمائی میں ناکام رہے۔ اور اس کا خمےازہ آگے چل کر انہی کو بھگتنا ہوگا۔ کیوں کہ ہر پانچ سال میں حالات بدلتے جارہے ہےں تمام قومیں وقت اور حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کررہی ہےں مسلمان ماضی میں کھوےا اور حال میں سوےا ہوا ہے۔ مستقبل کے بارے میں تو اسے فکر نہ کل تھی نہ آج ہے کیوں کہ سب سے آسان جملہ ےا حل ےہی ہے کہ ”کل کا اللہ مالک ہے“۔بے شک کل کا ہی نہیں آج کا بھی اللہ ہی مالک ہے۔ اللہ رب العزت غافل کی مدد نہیں کرتا۔ الیکشن 2019ءسے پہلے بی جے پی نے ہر وہ کام کےا جس سے بی جے پی کی کامےابی ےقےنی ہوسکتی تھی۔ سرجیکل اسٹرائک کا خوب فائدہ اٹھاےا گیا۔ لیفٹننٹ ابھینندن کو خےر سگالی جذبہ کے تحت پاکستان نے رہا کےا تو ےہ مسٹر مودی کی طاقت بن گئی۔ بہرحال مودی اور ان کی ٹیم نے ہر اس جماعت کو غےر محسوس طرےقہ سے مدد کی جو مودی کی ےا بی جے پی کی راست ےا بالراست تائید کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر آندھراپردیش میں بی جے پی ےا نرےندر مودی نے غےر محسوس طرےقہ سے چندرا بابو نائیڈو کی اہمیت کو گھٹاےا اور جگن کو کامےاب بنانے میں اپنا رول ادا کیا۔ جگن نے ایک سے زائد مرتبہ نرےندر مودی کی حمایت کی تھی اور اس مرتبہ بھی انہوں نے اشارہ دےا تھا کہ وہ مودی کے ساتھ ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ جگن نے جہاں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا وہاں اس مطالبہ کو قبول کرلیا گیا۔ بہرحال بی جے پی کی کامےابی ان کی تنظیمی صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ ان صلاحےتوں کی کمی اپوزیشن جماعتوں میں صاف محسوس کی گئی۔ الیکشن 2019ءکے نتائج آنے والے دور سے خبردار کرتے ہےں۔ رونے دھونے، شکوے شکایتوں سے نہ مسائل حل ہوتے ہےں نہ حل ہوںگے۔ عملی طور پر ہم اپنے آپ کو حالات سے ہم آہنگ کےسے کرسکتے ہےں‘ اس کا جائزہ لےنے کی ضرورت ہے۔ جذباتی تقاریر سے کچھ دےر کے لئے رگوں میں خون جوش مارنے ضرور لگتا ہے‘ مگر نہ تو اس سے قوم کا کوئی بھلا ہوتا ہے نہ ہی کسی فرد کا۔ سےاسی اور مذہبی قائدین ضرور اس کا فائدہ اٹھاسکتے ہےں۔ وےسے اگلے الیکشن تک جو نسل ووٹ ڈالنے کی اہل ہوگی وہ تو اس قدر بے حس ہوگی کہ آج کے مذہبی اور سےاسی قائدین سے نفرت کرے گی۔ نرےندر مودی نے شاندار کامےابی کے بعد جو ٹوئٹ کیا اس میں ایک بار پھر سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب مل کر دےش کو مضبوط بنانے کی بات کہی ہے۔ دےکھنا ہے کہ ”سب“ میں اور ”وکاس“ میں مسلمان بھی شامل رہتے ہےں ےا نہیں!! ( مضمون نگار ایڈےٹر گواہ اردو وےکلی، حےدرآباد ہیں)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا