- محمد عنایت اللہ القاسمی
خادم مرکزی جامع مسجدتالاب
9419100621
8492000786 - ۰۰۰۰۰۰ بنی نوع انسان میں رب کائنات نے نیکی اور بدی دونوں مادے رکھے ہیں اگر انسان کی تر بت اچھی اور بہترجگہ میں ہوتو نیکی کی فطرت غالب آتی ہے اور اگر مقام تربیت بری رہی تو برائی غالب آتی ہے ۔نیکی سے بدی اور بدی سے نیکی کی طرف آنے میں ماحول اور معاشرہ کاخاصہ اثر ہوتاہے ۔بندگان خداکو نیکی پر لانے کے لئے سلسلہ انبیاء حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شروع ہو کر امام الانبیاء محبوب کبری محمد عربی ﷺ پر ختم ہوا ،بدی پرچلانے کے لئے انسان کے ساتھ اس کے دو دشمن لگے ہوئے ہیں نفس اور شیطان ،نفس وشیطان کی محنت سے انسان کبھی کبھی اتنا سرکش ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی بھی ہوش نہیں رہتی کہ میں کیاکررہا ہوں ۔اور نافرمانی کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے جس کاسوچنا بھی کبھی وہ گناہ سمجھتاتھا ،غلطی چھوٹی ہو کہ بڑی جب انسان کواحساس ہوجائے اور رب العالمین کی حضور میں معافی مانگے تو کیا اس کی تلافی ممکن ہے ؟جی ہاں بندہ چاہے کتنا بڑاگناہ اور نافرمانی کر کے بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجائے تو پھر دیکھے رحمت خداوندی کیسے جوش میں آتی ہے ،شریعت مطہرہ میں شرک ،زنا،شراب خوری ،جھوٹ،نماز چھوڑنا،قتل کرنا جیسے گناہ کبیرہ ہیں جن کے ارتکاب سے خالق کائنات سخت ناراض ہوتے ہیں ،لیکن اگر کوئی انسان ان تمام گناہوں کاارتکاب کرکے بارگاہ خداوندی میں پہنچتا ہے تورحمت خداوندی اعلان کرتی ہے ــ’’بیشک اللہ تمام گناہوں کومعاف کرنے والا ہے‘‘طبرانی (ایک کتاب کا نام)اس میں حضرت ابن عباسؓ کا بیان نقل کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وحشی کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے ایک شخص کو بھیجا ۔۔۔ یہ وحشی حضرت نبی کریمﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا قاتل تھا ۔۔ وحشی نے کہا کہ محمدعربی ﷺ کیسے مجھے اپنے دین میں داخل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں جب کہ ان کاقول ہے کہ جوشخص قتل ،شرک،زناکرے گا اس کو قیامت کے دن دوہراعذاب ہوگا او رمیں نے یہ سب کچھ کر لیا ہے ۔اس پر انہیں ارشاد خداوندی سنایا گیا’’مگرجوشخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور اچھے عمل کرے‘‘وحشی نے کہا یہ شرط توبہت سخت ہے شاید میں ایسا نہ سکوں ،کیا اس کے علاوہ بھی کوئی صورت ہے اس پر آیت خداوندی سنائی گئی ’’بیشک اللہ شرک کو معاف نہیں کرتے اس کے علاوہ جس کو چاہیں معاف کریں گے ‘‘وحشی نے کہا اس میں مغفرت کو مشیت پر موقوف رکھاگیا ہے ،میری شرک سے توبہ کے بعد بھی معلوم نہیں میری توبہ قبول ہو گی کہ نہیں اس پر سورہ ’’زمر‘‘ کی آیت نمبر۵۳ نازل ہوئی ’’آپ کہہ دیجئے اے میرے بندوجنہوںنے اپنے اوپر زیادتیا ں کی ہیں تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہویقینا اللہ تمہارے تمام گناہوں کو معاف فرمادیں گے‘‘ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ اس آیت میں گناہ سے مرادگناہ کبیرہ ہیں۔مغفرت کے لئے ایمان کی شرط تمام علماء کے نزدیک لازمی ہے ۔آیت مذکورہ میں رب کائنات نے تمام کے لفظ کااضافہ کر کے بندوں کو تسلی دی کہ جواور جتنے چھوٹے بڑے گناہ کر کے آو گے سب معاف کردوں گا،آیت کے شان نزول میں گناہوں سے توبہ ایمان لانے کے ساتھ ہے مگر مفسرین نے لکھا ہے کہ حکم عام ہے چاہے و ہ شرک سے توبہ کر کے آئے اور چاہے کوئی ایمان کی حالت میں ہی کوئی گناہ کر بیٹھے اور پھر توبہ کر لئے اللہ دونوں صورتوں میں تمام گناہوں کو معاف فرمادیں گے ۔ بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے کہ ایک آدمی نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی نہیںکی تھی جب مرنے لگا تو اس نے گھروالوں کو وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد جلا ڈالناپھر جلی ہوئی خاک کو آدھی سمندر میں اور آدھی خشکی میں اڑا دینا کیونکہ اگر خدا کا مجھ پر قابوچل گیا تو خداکی قسم وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جو سارے جہاں میں کسی کو نہیں دے گا ،جب وہ شخص مر گیا اور گھر والے وصیت کے مطابق عمل کرچکے تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا سمندر نے وہ خاک یکجا کر دی جواس میں اڑائی گئی تھی اور خشکی کوحکم دیا تو اس نے اپنے اندر کی ساری خاک جمع کر دی پھر اللہ اس شخص سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا اس نے جواب دیااے میرے رب تیرے ڈر سے تو خوب واقف ہے اللہ نے اس کو بخش دیا ۔بغوی نے لکھا ہے کہ ضمضم بن جوش نے کہا میں مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا تو ایک بوڑھے آدمی نے جس کو میں پہچانتا نہ تھا مجھے پکار کر کہا اے شخص کسی آدمی سے تو ہر گز یہ نہ کہنا کہ اللہ تیری مغفرت نہ کرے گا اور تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا میں نے کہا آپ پر اللہ کی رحمت ہو آپ کون ہو ان بزرگ نے کہا میں ابوہریرہؓ ہوں میں نے کہا کہ یہ لفظ تو ایسا ہے جو نفرت کے وقت ہر شخص کہتا ہے غصہ ہو تواپنے گھروالوں کو بھی کہتا ہے اور بیوی کو بھی او رخدمتی آدمیوں کو بھی بزرگ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے جو باہم دوست تھے ایک عبادت میں بڑ ی محنت کرتاتھا اور دوسرا گنا ہ کرتا رہتا تھا عابد اپنے گناہ گار دوست سے کہتا تھا اب ان حرکتوں سے باز آجا گناہ گار جواب دیتا تھا میں جانوں اور میرا رب تو مجھے یوں ہی رہنے دے ایک روز عابدنے اپنے دوست کو کسی بڑے گناہ میں مبتلا پایا تو حسب معمول کہا اب باز آجا اس نے جوا ب دیا مجھے یوں ہی رہنے دے کیا تجھے میرا نگراں محتسب بنا کر بھیجا گیا ہے عابد نے کہا خدا کی قسم اللہ تجھے کبھی معاف نہیں کرے گااور نہ کبھی جنت میں تجھے داخل کرے گا ،غرض اللہ کی طرف سے جب ملک الموت نے آکر دونوں کی روحیں قبض کر لیں اور دونوں اللہ کے پاس جمع ہوئے تو اللہ نے اس گنہ گار کو حکم دیا تو میری رحمت سے جنت میں چلا جا اور دوسرے سے فرمایا کیا تو میرے بندوں سے میری رحمت کو روک سکتاہے بندے نے کہا نہیں پروردگار ایسا تو ممکن نہیں ،اللہ نے فرمایا اس کو دوزخ میں لے جاو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس نے جو بات کہی تھی اسی نے اس کو دنیا اور آخرت میں اس کو تباہ کیا۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں ایک واعظ وعظ کہہ رہاتھا اور لوگوں کے سامنے دوزخ اور دوزخ کی طوق وزنجیر کا ذکر کر رہا تھا آ پ جاکر اس کے سر کے پیچھے کھڑے ہوگئے او رکہا اے وعظ کرنے والے لوگوں کو ناامید کیوں کر رہاہے پھر سورہ زمر کی آیت نمبر ۵۳ پڑھی ۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ ہم کسی غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب تھے کچھ لوگوں کے پاس سے آپ کاگذر ہوااور دریافت فرمایا کون لوگ ہو انہوں نے عرض کیا ہم مسلمان ہیں ،ان میں ایک عورت بھی تھی جو ہانڈی میں سالن پکا رہی تھی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھاجب کوئی شعلہ اٹھتا تھا تو وہ بچہ کو الگ کر لیتی تھی ،وہ حضورﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا ،کیا آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں حضورﷺ نے فرمایاہاں کہنے لگی آپ پر مرے باپ قربان ،کیا اللہ ارحم الرحمین نہیں ہے ؟حضورﷺ نے فرمایا کیوں نہیں کہنی لگی ماں اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی یہ سن کر حضورﷺ سرنگوں ہوگئے اور رونے لگے کچھدیر کے بعد سر اٹھا اور فرمایا اللہ اپنے بندوں میں سے صرف اسی کو عذاب دے گا جو اس سے سرکشی کرنے والا ہو اور لاالہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دے ۔ حضرت ثوبان ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے نزدیک دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں اس آیت کے مقابلہ میں ہیچ ہیں (پسندنہیں)بیہقی کی روایت میں اتنا اور ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اور جس نے شرک کیا (یعنی کیا اس کے گنا ہ بھی معاف ہوں گے )حضورﷺ نے کچھ دیر کے لئے سر جھکا لیا پھر تین بار فرمایا مگر جس نے شرک کیا (یعنی آخر وقت تک شرک پر رہا اور شرک ہی پر مر گیا ) تو اس کی بخشش نہیں ہو گی۔رحمت خداوندی کی اور بہت ساری روایات ہیں جن کا احادہ یہاںممکن نہیں ،بس ہمیں یہ خیال رکھنا چاہے کہ یقیناہم سے دن رات اللہ کی نافرمانیاں ہوتی ہی رہتی ہیںمگر انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہے بلکہ گناہ غلطی ہوجانے کے بعد فورااللہ کے حضور سجدی ریز ہوناجانا چاہے اور پانے گناہوں کی معافی مانگنی چاہے اللہ بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کرنے والے ہیں ۔حدیث پال میں آتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ باوجود بخشے بخشائے روزانہ ستر مرتبہ استغفار پڑھاکرتے تھے ہمیںاس کے مقابلہ میں کتنااستغفار پڑھناچاہے ،اس طرح انسان کو روزانہ اپنا یہ معمول بنا لینا چاہے کہ کسی بھی وقت یا کسی بھی نماز کے بعددو رکعت نماز صلوۃ التوبہ (توبہ کی دورکعت)پڑھ کر اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی بخشش کرلے ۔۔بیشک اللہ تمام گناہوں کومعاف کرنے والا ہے۔