فہیم اخترلندن
ذی الحج اسلامی کیلنڈر کا ایک اہم مہینہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان آخری اسلامی مہینے ذوالحجتہ کی دس تاریخ کو عید الا ضحی مناتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی لاکھوں خوش نصیب الحمداللہ حج کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں جذبہ قربانی سے سرشار کروڑوں مسلمان اپنے اپنے طور پر جانوروں کی قربانی کر کے اللہ سے اپنی محبت کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔جس سے مسلمانوں میں اللہ سے قربت کا احساس ہو تا ہے اور وہ اللہ کی اس ہدایت کو مرتے دم تک قائم و دائم رکھتا ہے۔
ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8سے 12تاریخ کو دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ پہنچ کر ایک مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں جسے حج کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حج زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ قرآن مقدس نے سورۃ الحج میں فرمایا ہے ۔ ’ وَاَذِن في النَّاس ِ بِا لَحّجِ یَا تُوکَ رِجَالاً وَ عَلی کُلّ ضَا مِرٍ یَاتِینَ مِن کُلّ ِ فَجٍِ عَمِیقٍ‘۔(اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے، لوگ تیرے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے)۔
حج اسلام کے 5ارکان میں سے سب سے آخری رکن ہے۔ہر سال حج کی ابتدا 8ذوالحجہ سے شروع ہوتی ہے۔ تمام حاجی میقات سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ جہاں وہ طواف کرتے ہیں۔ پھر منیٰ کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ جہاں وہ یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن قیام کرتے ہیں۔ اسی دن کو یومِ عرفہ، یوم سعی ، یوم حلق و قصر وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج کنکریاں پھینکنے کے لئے جمرہ عقبہ جاتے ہیں ۔ پھر مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منٰی جا کر ایام تشریق گزارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج مکمل ہوتا ہے۔
ہجرت کے نویں سال میں حج فرض ہوا ۔ حضرت محمد ﷺ نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجتہ الوداع کہا جا تا ہے۔اس حج میں حج کے تمام ارکان کو درست کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ : ’خذوا عنيمنا سککم‘۔ (اپنے ارکان حج مجھ سے لے لو)۔حضرت محمد ﷺ نے اسی حج کے دوران اپنا مشہور خطبہ حجتہ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔
حج ادا کرنے کے پانچ شرائط ہیں۔ پہلی شرط مسلمان ہونا ، غیر مسلموں پر حج فرض نہیں اور نہ ہی ان کے لئے مناسک حج ادا کرنا جائز ہے۔ دوسری شرط عقل ہے، پاگل مجنون پر حج فرض نہیں ۔ تیسری شرط بلوغ ہے، نابالغ بچے پر حج فرض نہیں ۔ چوتھی شرط آزادی ہے، غلام و باندی پر حج فرض نہیں۔ پانچویں شرط استطاعت ہے ، استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ حج محض ان افراد پرفرض ہے جو اس کی جسمانی و مالی استطاعت رکھتے ہوں (عورت ہے تو شرعی محرم بھی لازم ہے)۔
ہم تمام مسلمان کی ایک خواہش ضرور ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک بار حج ضرور کرے۔ اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے ایک ارکان حج بھی ہے۔ جیسے جیسے دنیا بھر میں مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہورہی اور سعودی حکومت کی سہلویات آسان ہو رہی ہے۔ حج کا سفر بھی اب بہت آسان ہوتا جارہا ہے۔تاہم میرا اپنا تجربہ عمرہ کے حوالے سے یہ ہے کہ تمام سہولیت کے باوجود عمرہ اور حج کی ادائیگی ایک منفرد اور تھکاوٹ والی عبادت ہے۔ جو انسان اللہ کی محبت اور جذبہ سے ادا کر لیتا ہے اوراس عبادت کو سوچ کر ذہن زندگی کی آسائشوں سے لاپرواہ ہو جاتاہے۔
مجھے اس بات سے دلی خوشی ہوتی ہے جب کوئی حج کم عمری میں ادا کرتا ہے۔ خاص کر انڈونیشا ، ملیشیا اور ترکی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں کم عمر میں حج کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔تاہم اس کے بر عکس انڈیا، پاکستان ، بنگلہ دیش وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں سے زیادہ تر لوگ حج کی ادائیگی کا ارادہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ عمر کے آخری پڑائو پر ہوتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات بھی ہیں۔ ایک تو معاشی طور پر فعال نہ ہونا۔ دوسرا روایتی طور پر یہ سوچ کر انتظار کرنا کہ جب تمام چیزوں سے فارغ ہوجائیں گے تب حج کے لیے روانہ ہوں گے۔ جس کی وجہ سے عام طور جسمانی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں اور کافی مشکلات و دشواریوں سے حج کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔تاہم دھیرے دھیرے یہ روایت اب تبدیل ہورہا ہے اور نوجوانوں میں حج کے فرائض پورا کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو ان کی اللہ کے ساتھ وفاداری اور اطاعت کی علامت ہے۔ اس سنت کی پیروی کرنے سے مسلمانوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرز زندگی اور اللہ کی رضا کی اہمیت کا شعور ہوتا ہے۔ عید الا ضحی رب کریم کے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کی یاد ہے جب آپ نے مسلسل تین راتیں عالم خواب میں قربانی کا حکم پا کر اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر اللہ کے حکم سے چھری رکھ دی تھی۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو جنت سے دنبہ لے جانے کا حکم دیا اور اسے حضرت علیہ السلام کی جگہ ذبح کرایا۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس سنت ابراہیم کو ہمیشہ کے لیے قائم فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ’ ہم نے قربانی ہر امت کے لیے مقرر فرمائی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسم (پاک) ان بے زبان جانوروں پر ذبح کرتے وقت جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے ‘۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا کہ ’ اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ۔ وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تمہارے دلوں میں خوفِ الٰہی اور تقویٰ موجود ہے۔
قربانی کی ادائیگی کے لیے چار شرائط کا ہونا لازمی ہے۔مسلمان ہونا، آزاد ہونا ، مقیم ہونا اور خوشحال ہونا۔اگر کسی نے قربانی کی جگہ زندہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کر دی تو یہ جائز نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ احمق لوگوں نے اپنے نظریات کو پیش کرتے ہوئے اوٹ پٹانگ باتیں کہیں ہیں جو مذہبی نقطہ نگاہ سے غلط ہے۔ مثلاً ایک پوسٹ میںیہ کہا گہا کہ’ قربانی کے ساتھ ساتھ چیریٹی بھی کریں‘۔ اسی طرح کا ایک اور پوسٹ قربانی کے حوالے سے نظر سے گزرا کہ ’ انسان اپنے اندر کا جانور مار کر قربانی کریں‘۔مجھے ایسے پوسٹ دیکھ کر حیرانی کے ساتھ افسوس بھی ہوا ۔ کیوںکہ ان لوگوں نے اپنے ذاتی نظریات کو مذہب سے جوڑ کر ایک غلط کام کیا ہے۔بات یہیں تک نہیں تھی بلکہ ان لوگوں کے غیر ذمّہ دارانہ بیان سے غیر مسلموں نے ان کی خوب واہ واہی کی جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
قربانی کی اہمیت اسلام میں بہت زیادہ ہے جو مسلمانوں کی روحانی پاکیزگی میں مدد دیتی ہے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ یہ عمل مسلمانوں کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور انہیں اپنی زندگی میں اللہ کے احکام کی پیروی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ” اللہ کو نہ تو ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ” (سورۃ الحج:37)اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد تقویٰ اور اللہ کی محبت کو بڑھانا ہے۔
دنیا بھر میں مسلمان عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرتے ہیں ۔ اس موقع پر جانور جیسے گائے، بکری، بھیڑ، یا اونٹ قربان کیے جاتے ہیں اور گوشت اپنے عزیز و اقارب ، دوستوں اور خصوصاً غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، جس سے معاشرتی فاصلوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔۔قربانی کے گوشت کی تقسیم مسلمانوں میں اخوت اور مساوات کو بڑھاتی ہے۔ قربانی کرنے والے مسلمان قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک حصہ اپنے گھر کے لیے ، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے، اور تیسرا حصہ غریبوں اور محتاجوں کے لیے تقسیم کئے جاتے ہیں۔
قربانی کا یہ عمل نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی اور تعاون کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اس طرح قربانی مسلمانوں کو اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلاتی ہے۔میں آپ تمام لوگوں کو عیدا لا ضحیٰ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔اللہ سے دعا گو ہوں کہ پورے عالم میں مسلمانوں کو محفوظ رکھے اور پوری دنیا پر اللہ رحم فرمائے۔
fahimakhteruk@yahoo.co.uk
www.fahimakhteruk.com