اقراء فاؤنڈیشن کی طرف سے جموں میں اردو کے تحفظ اور فروغ پر تقریب منعقد

0
0

اقلیتی آبادی میں اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اردو کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا جائے:مقررین
لازوال ڈیسک
جموں؍؍اقراء فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام جموں میں ایک اہم اجتماع میں جموں و کشمیر کے اردو مصنفین، شاعروں اور اسکالرز نے اردو زبان کے فروغ کے لیے حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ وہیںممتاز اردو سکالر پروفیسر قدوس جاوید نے تقریب کی صدارت کی۔ اس تقریب میں اردو کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اسکول، کالج کی سطح پر اس کے فروغ کے حوالے سے خطاب کیا گیا۔وہیںمعزز شرکاء میں پروفیسر قدوس جاوید، خالد حسین، ولی محمد اسیر، پروفیسر اسد اللہ وانی، ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی, پروفیسر مشتاق احمد وانی، امین بانہالی، خورشید کاظمی، انجینیر رشید احمد فانی، غلام احمد خواجہ (ریٹائرڈ ڈی سی)، محمد اسلم قریشی (ریٹائرڈ ڈی سی)، تنویر اقبال ملک (کے اے ایس)طارق علی رضا، فوزیہ نسیم مغل۔ ڈاکٹر شاہدہ پروین، پروفیسرڈاکٹر محمد مقیم، غلام قادر، صداقت ملک، چوہدری محمد شبیر (ریٹائرڈ ایس ایس پی)، ڈاکٹر ارشد ولی اور شبیر راتھر شامل تھے۔تاہم مقررین نے تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو 1889 میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دور میں سرکاری زبان بن گئی تھی، یہ فیصلہ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ نے کیا تھا۔ جموں و کشمیر کے متنوع لسانی منظرنامے پر زور دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کی الگ الگ ثقافتیں اور زبانیں ہیں، مقررین نے بتایا کہ کس طرح اردو کو بطورِ ربطہ زبان اور سرکاری زبان کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ اردو بولنے والوں کی گھٹتی ہوئی تعداد پر دانشور طبقے نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا اور نئی تعلیمی پالیسی سے اردو کے اخراج پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ اقلیتی آبادی میں اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اردو کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ان خدشات کو دور کرتے ہوئے مقررین نے اردو اسکولوں کے معیار کو بڑھانے کے لیے اقدامات تجویز کیے، جس میں مقامی شمولیت اور حکومتی پالیسیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جموں و کشمیر میں اردو کی بقا کا سبب مذہبی صحیفوں، اخبارات اور زمین، محصول، عدالتوں اور ایف آئی آر کے سرکاری ریکارڈ میں اس کے استعمال کو قرار دیا جا سکتا ہے۔دانشوروں نے جموں و کشمیر میں اردو اسکولوں کے معیار اور ماحول میں بہتری لانے پر زور دیا اور جموں کشمیر کے ایسے اسکول جہاں پر اْردو اْساتذہ کی آسامی نہیں ہے،فوری طور سے آسامیاں مہیا کی جایں،اور جہاں پر خالی آسامیاں ہیں وہاں پر اْردو اْساتذہ کو تعینات کیا جاے، اس کے علاوہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں اردو اسکول قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جہاں اردو بولنے والی آبادی کافی ہے۔ انہوں نے اسکول اور کالجوں کی سطح پر اردو اساتذہ کی کم ہوتی تعداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اردو کو ایک اہم مضمون کے طور پر اہمیت دینے پر زور دیا۔ ولی محمد اسیر نے اردو کی ترویج و ترقی کے لئے سرکاری اور عوامی حلقوں پر تلقین کی کہ اسکی ترقی اشتراک سے ممکن ہے۔ دانشوروں نے جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اور لینگویجز میں جموں میں اردو سیکشن قایم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ریاست جموں و کشمیر کی مجوزہ کونسل برائے فروغِ اْردو کو عملی جامہ پہنایا جائے۔اپنے صدارتی خطبہ میں پروفیسر قدوس جاوید نے جموں کشمیر کی یونیورسٹیوں میں تقابلی زبان کے مطالعہ کا شعبہ جات کا قیام عمل میں لانے پر زور دیا۔ پروفیسر قدوس جاوید نے اردو مزید کہا کہ اردو کا ایک سیکولر کردار رہا ہے اور یہ بر صغیر کی زبان ہے۔ پروگرام کی نظامت تحریک اردو کے صدر شاہد سلیم میر نے کی اور اظہار تشکر شبیر راتھر صدر اقراء فاؤنڈیشن نے پیش کیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا