اس بار تمہیں جاگنا ہی پڑے گا مسلمانو

0
0

 

 

پروفیسر اسلم جمشید پوری

ٓآج کل ہمارے ملک ہندوستان میںانتخابات کا دور ہے ۔دو مرحلوں ۱۹؍اپریل اور ۲۶ ؍اپریل کے انتخابات کا عمل پورا ہو چکا ہے۔ان مرحلوں میں تقریباً ۲۰۰ سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا چکے ہیں ۔پورے ہندوستان میں باقی بچے مرحلے ۷ مئی ،۱۳ ؍مئی ،۲۰ ؍مئی،۲۵ ؍مئی اور یکم؍جو ن کوووٹ ڈالے جائیں گے ۔۴ ؍جون کو گنتی اور نتیجے کادن ہے ۔اس دن سبھی پارٹیوں اور ووٹ بینکوں کو اپنی قدر و قیمت کا پتہ چل جا ئے گا۔یعنی بی جے پی ،کانگریس ،ایس پی ،بی ایس پی ،آر جے ڈی ،جنتا دل (ایس)،ترنمول کانگریس ،نیشنل کانگریس ،نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی ،شیو سینا ،اے آئی ڈی ام کے،ڈی ایم کے ،اے آی ایم ایم ،اور دیگر جماعتوں اور ہندووں ،مسلمانوں ،دلتوں ،آدی واسیوں ،گوجروں ،جاٹوں ،ٹھاکروں ،یادووں ،کسانوں وغیرہ کے دعووں کا فیصلہ ہو جائے گا ۔
۲۰۱۹ کے پارلیا مانی انتخاب میں بی جے پی کو بڑی فتح نصیب ہو ئی تھی ۔بی جے پی نے مسلسل دوسری بار اپنے دم پر سرکار بنائی تھی ۔آپ کو یاد ہوگا کہ اُس وقت بی جے پی نے مسلم ووٹوں کو بے اثر اور بے وقعت کر دیا تھا۔بی جے پی جیسی قومی پارٹی نے یہ دکھا دیا تھا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں،اور ان کے بغیر بھی بی جے پی سرکار بنا سکتی ہے۔ صل میں بی جے پی نے ملک کی اکثریتی آبادی کو مذہب کے نام پر مرکوز کیا۔ایودھیا میں بابری مسجد انہدام سے لے کر اب تک اسے کسی نا کسی طور ایشو بنائے رکھا ، اور اکثریت کے دل میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کو نہ صرف کم ہونے دیا بلکہ نفرت کی چنگاری کو پھونکوں سے ہوا دیتے رہے ۔انہیں یہ احساس بھی کرایا کہ مسلمانوں کو بے وقعت اور چوتھے درجے کا شہری صرف وہ بنا سکتے ہیں۔اس ملک میں ہمارے کچھ ہندو بھائی ان کی باتوں میں آجاتے ہیں اور بہک کر مسلامانوں کے خلاف کام کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔
آزادی کے وقت مسلمانوں کی کل آبادی ۶ کروڑ کے آس پاس تھی جو آج بڑھ کر تقریباً ۳۰ کروڑ ہو چکی ہے ۔جس میں بیس بائیس کروڑ ووٹر ہیں ۔اس لحاظ سے پارلیا منٹ میں ۸۰ کے آس پاس مسلم ممبر ہونے چاہیے۔مگر افسوس کہ مسلمانوں میں اتحاد ہے نہ مجاہدانہ کردار کہ اپنے غیر مسلم بھائیوں کا دل جیت سکیں۔یہی نہیں پورے ہندوستاں میں کیرل کو چھوڑ کر ایک بھی پارلیمانی سیٹ ایسی نہیں جہاں مسلم امیدوار صرف مسلم ووٹوں کے دم پر فتح حاصل کر سکے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے مسلمان ملک کی دوسری پاٹیوں کی طرف دیکھتا ہے اور خام خیالی میں یہاں تک ان سے توقع یا امید رکھتا ہے کہ وہ اس کو سیاست کا حصہ دار بنائیں گی ۔یہ ایک حسین خواب سے زیادہ کچھ نہیں ۔ملک کی دیگر پارٹیاں مسلمانوں کاووٹ حاصل کرتی ہیں اور کامیابی بعد مسلمانوں کو ہی آنکھیں دکھا تی ہیں۔ملک کی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھتی ہیں۔مسلم ایم پی اور ایم ایل اے بھی فتح یاب ہونے بعد مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔وہ اپنی اپنی پارٹی میں مسلمانوں کے کسی مسئلے پر آواز بھی نہیں آٹھاتے۔ہائی کمان سے اُس سلسلے میں بات بھی نہیں کرتے ۔
آزادی کے ۷۵ برسوں میں مسلمانوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو آزمالیا ہے ۔یہ تو سبھی پارٹیاں قبول کرتی ہیں کہ مسلمان کا پلڑا جدھر جھکے گا ،اس کی فتح ہو گی ۔لہٰذا سبھی جماعتیں مسلمانوں کا ووٹ تو چاہتی ہیں ،مگر مسلمانوں کے مسائل کو حل کر نے کو تیار نہیں۔بہت زمانے تک مسلمان کانگریس کے ووٹ بینک بنے رہے ۔ملایم سنگھ یادو کا ساتھ دیا ۔لالو یادو کو فتح دلائی ۔مائی کا تصور زندہ کیا ۔نتیش کمار کا ساتھ دیا۔مایاوتی کا ساتھ نبھایا۔ممتا کے شریک رہے ۔مسلمانوں کو ساتھ دینے کے عوض کیا ملا ۔وزیروں کے چند عہدے ،کمیشنوں کی صدارت،کچھ اداروں کی باگ ڈور، فسادات ،بابری مسجد کی شہادت ،ہجومی تشدد،گوشت کی دکانیں ،ہوٹل اور گوشت کے ایکسپورٹ پے قد غن ،ذلت اور دوسری قوموں کی نفرت ۔یہ چند تحفے ہیں جو مسلمانوں کو اب تک ملے ہیں۔جو پارٹی بابری مسجد کے انہدام کو باعث ِ فخر سمجھتی ہے ،اسی کی گذشتہ دس سال تک حکومت ،ساتھ ہی ساتھ ۳۷۰ کا خاتمہ ،تین طلاق ،مدرسوں پر لٹکتی تلوار ،حجاب پر پابندی ،مسجدوں کے لائوڈاسپیکروں پر اعتراض،ذبیحہ پر ہنگامہ ،سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر ایف آئی آرجیسے تحائف ۔جبکہ اکثریتی فرقے کو ہر طرح کی آزادی ۔کانوڑ یاترا کے دوران شہروں کی سڑکیں ہی نہیںشاہراہیں بھی کئی دن کے لئے بند۔ان سڑکوں پر چلنے والا تمام ٹریفک اور کانوڑ یاترا کے وقت راستے میں پڑنے والی گوشت کی دکانیں اور ہوٹل دس پندرہ دن کے لئے بند۔
بی جے پی کو اچھی طرح پتہ تھا کہ مسلمان ان کو کبھی ووٹ نہیں کرے گا۔یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کچھ فی صد ووٹ ان کو ملتے رہے ہیں ۔بی جے پی ہمارے اندر موجود نا اتفاقی اور اتحاد کے بحران کا فائدہ اٹھا تی ہے ۔بظاہر اس نے راشٹریہ مسلم منچ بنا رکھا ہے ۔میزائل مین اے جے پی عبد الکلام ،سید شہنواز حسین ،مختار عباس نقوی ،نجمہ ہپت اللہ ،وغیرہ کو عہدے دیے تا کہ مسلمانوں کو قریب کیا جا سکے اور ان کے ووٹ حاصل کئے جا ئیں۔یہی نہیں بی جے پی نے مسلم ووٹوں کو بے حیثیت بنا دیا ،مسلمانوں نے جس کو ووٹ دیا اس کو ہار نصیب ہوئی ۔
مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ایک تو خود کی پارٹی بنائیں اور ایمانداری سے کام کرتے ہوئے غیر مسلم عوام کا دل جیتیں۔اپنا اخلاق و کردار ایسا بنائیں کہ غیر بھی اپنا سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔اے آئی ایم ایم جماعت موجود ہے جس کے سربراہ اویسی ہیں ۔جو ہمیشہ مسلمانوں کے مسائل پر بولتے ہیںاور قومی پارٹی بننے کی راہ پر ہیں۔بہار میں اسمبلی انتخاب میں اے آئی ایم ایم کو چار نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔مہاراشٹر کے بلدیاتی چنائو میں بھی اس کو کامیابی ملی تھی۔پورے ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف اویسی ہی آواز اٹھاتے ہیں۔آج پورے ملک میں اس جماعت کی شاخیں موجود ہیں۔کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بھی مضبوطی سے انتخاب لڑ تی ہیں۔کیرل کی مسلم لیگ پورے ہندوستان میں زور آزمائی کرتی رہی ہے ۔آسام کی یو ڈی ایف اپنے علاقے میں تو مضبوط ہے ،کبھی کبھار باہر بھی کا میابی پا چکی ہے ۔پیس پارٹی بھی ایک بار یو پی میں اسمبلی کی چار سیٹیں نکال چکی ہے ۔مسلمان ان مسلم پارٹیوں کو فتح و شکست کی پرواہ کئے بنا ووٹ دیں۔مسلمانوں کا ووٹ ایک طرف جائے گا تو اس کا وزن بھی ہوگا ۔اور کبھی نہ کبھی کامیابی بھی ملے گی ۔کامیابی اور ناکامی تو اللہ کے ہاتھ ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے ایسے امید واروں کو یک مشت ووٹ دیں جو سیکولر مزاج کا ہو اوربی جے پی کو ہرانے کی طاقت رکھتا ہو ۔جس پارٹی کو آپ کا ووٹ جائے ،اس کو مسلمانوں کا یک طرفہ ووٹ جائے تا کہ اس کو یہ احساس رہے کہ مسلمانوں نے اسے بھاری تعداد میں ووٹ کیا ہے ۔ہار کے بعد بھی وہ آپ کا ممنون رہے گا۔ایسے امید وار ہر صوبے میں الگ الگ ہوں گے ۔مسلمانوں کے ساتھ ایک دھوکہ اور ہو رہا ہے ۔کچھ سیاسی جماعتیں مسلم امیدوار کے سامنے مسلم امید وار اتارتی ہیں تا کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہو جائیں اور بی جے پی کو اس کا فائدہ ہو ۔ایسی جماعتیں درپردہ بی جے پی کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان امید وار نہیں ہوتا ۔ایسی نشستوں پر کچھ جماعتیں جان بوجھ کر مسلم امیدوار کھڑا کرتی ہیں تاکہ مسلم ووٹ میں بٹوراہ ہو اور بی جے پی کو فائدہ ہو ۔ایک اور اہم بات اس بار الیکشن کمیشن نے اس بات کا خاص کیال رکھا ہے کہ جمعہ کے دن انتخاب رکھے جائیں گے۔یہ بھی بی جے پی ایک چال ہے کہ جمعہ کے دن مسلمان کثیر تعداد میں ایک آدھ گھنٹے کے لئے مسا جد میں ہو تا ہے ۔اس دن انتخاب رکھنے سے مسلم ووٹوں کا فی صد کم ہو گا۔
آخری بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی صورت حال بہت مخدوش ہے ۔اگر تیسری بار بھی یہی حکومت آجائے گی تو مسلمانوں کی زندگی حرام ہو جائے گی ۔مذہب پر چلنا آسان نہیں ہو گا ۔
مدارس ،مساجد ،کاروبار سب پر حملہ ہو گا ۔ ملک ہندو راشٹر ہو جائے گا ۔شرعی قوانین یعنی مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کی جائے گی ۔ای ڈی کے نام پر کسی کوبھی گرفتار کر لیا جائے گا ۔مسلمانو! اگر تمہیں آنے والی ذلت اور رسوائی سے بچنا ہے تو عقل و فہم کا استعمال کرو ۔آپس میں اتحادو اتفاق قائم کرو ۔اللہ کے دامن کو مضبو طی سے تھام لو ۔ایک پارٹی ،ایک امیدوار کو جم کر ووٹ کرو ۔فتح و شکست اللہ پر چھوڑ دو ۔اپنے ووٹ کی طاقت کا احساس کرانے کا وقت ہے ۔سیاسی جماعتوں کو پتہ چلے کہ آج بھی مسلمان کے ووٹ کی اہمیت ہے ،وہ جس پارٹی یا امیدوار کو ووٹ کریںتو اس کی قسمت بدل جائے گی ۔اور اگلی بار سبھی سیاسی جماعتیں مسلم امید وار مناسب تعداد میں اتاریں گی ساتھ ہی مسلم سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر نے کی غلطی نہیں کریں گی ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا