اسلام میں زبردستی دوسروں کے مذہب کی تبدیلی ممنوع ہے

0
0

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
کسی کافر کو جبراً مسلمان بنانا جائز نہیں ہے۔اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہو چکی ہے،اس کے دلائل و براہین بیان ہو چکے ہیں پھر کسی کو جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا،جس کا سینہ کھلا ہوا دل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خود بخود اس کا والہ و شیدا ہو جائے گا،ہاں اندھے دل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ؟کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہیں کرنی چاہئے۔
ہر انسان کسی نہ کسی دین کی پیروی ضرور کرتا ہے لیکن ہر دین صراط مستقیم نہی ہوتا۔جو دین اللہ تعالی کے طرف سے آیا ہے وہی دین صراط مستقیم ہے اور اس دین کا نام اسلام ہے،یہ دین حق ہے،باقی سبھی ادیان باطل ہیں اور اس کی پیروی میں کوئی نجات نہیں ہے۔ بعض لوگ دوسروں کے مذہبی عقائد و رسوم کے مجموعہ کے لیے لفظ دین کا استعمال پسند نہیں کرتے، ان کا ماننا ہے کہ لفظ دین کا اطلاق صرف اسلام پر ہی ہوتا ہے،لیکن قرآن مجید کے چند آیتوں سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالی نے دوسروں کے مشرکانہ عقائد و مذہبی رسوم کے لیے بھی لفظ دین ہی استعمال کیا ہیاسی طرح پیغمبر یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر کے بادشاہ کے دین کے لیے ِ یعنی بادشاہ کا دین استعمال ہوا۔ اہل کتاب یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کے دین کے لیے لفط دین ہی استعمال ہوا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اہل کتاب اپنے دین کے معاملے میں دھوکے میں پڑے ہیں، وہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو دوزخ کی آگ بس گنتی کے چند دن چھوئے گی۔ یہ جو کچھ گھڑتے رہے ہیں اس نے ان کو ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا ہین تمام ادیان میں جو دین اللہ تعالی کو محبوب اور پسندیدہ دین ہے وہ ہے اسلام کیونکہ اس دین کا بانی و موجد خود اللہ تعالی ہی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ (اور جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب بنے گا تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ جتنے بھی ادیان ہیں ان سبھوں کا بانی انسان ہیں۔مثلاً جین دھرم کا بانی مہاویر سوامی،بدھ دھرم کا بانی گوتم بدھ اور اسی طرح سکھ دھرم کا بانی گرو نانک ہیں۔ان ادیان ہیں جو خدا کا تصور موجود ہے اور عبادات کے جو طور طریقے پایے جاتے ہیں وہ اللہ تعالی کے بتائے ہوئے نہیں ہیں۔انسانوں کا بنایا ہوا ادیان ان کے چند دل پسند آرزوؤں اور ان کے چند دلفریب خوابوں کا ایک مجموعہ ہے۔اس کے برعکس اسلام میں جواللہ کا تصور ہے اسے خود اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کے واسطہ سے بتایا ہے، اس میں جو بھی عبادات کے طور طریقے ہیں سب اللہ تعالی کا ہی بتایا ہوا ہے،اسلام کے جتنے بھی احکام ہیں وہ سب اللہ تعالی کے طرف سے جاری کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہر انسان کے نجات کا دارومدار اسلام ہی ہے۔ کوئی اور دین اختیار کر کے انسان آخرت میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے نبیوں اور رسولوں کو اسی دین اسلام کو دیکر انسانوں کے پاس بھیجا۔تمام رسولوں نے لوگوں کو توحید کی تعلیم دی اور شرک سے بچنے کی تلقین کی اور انہیں بتایا کہ یہ دنیاوی زندگی ایک عارضی زندگی ہے جو موت کے آنے پر ختم ہوتی ہے اور پھر ایک وہ دن آئے گا جب تمام انسان دوبارہ زندہ کیے جانے گے اور وہ اپنے پروردگار کے رو برو حاضر ہوں گے اور ان میں سے ان لوگوں کو جزا دی جائے گی جنہوں نے رسولوں کی باتوں پر ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے رسولوں کی نافرمانی کی انہیں سزا دی جائے گی۔جب رسولوں نے اپنے اپنے قوم میں دین اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو اس دین کی قبولیت کے لیے اپنے قوم کے لوگوں کے ساتھ زبردستی نہیں کی۔دین کی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے ان کے ساتھ جبر و ظلم نہیں کیا گیا۔دین کی باتوں کو منوانے کے لیے نہ ہی طاقت کا استعمال کیا گیا،بلکہ پیغمبروں نے اللہ تعالی کے وجود پر،توحید کے اثبات میں اور قیامت کے برپا ہونے کی ثبوتوں اور شہادتوں کو پیش کیا۔انہیں دین کی باتوں کو دلائل سے سمجھایا گیا،انہیں بتایا گیا کہ شرک کے حق میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی سند نہیں ہے۔ارشاد باری تعالی ہی: ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھا دیں گے کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں جس کی اس نے کوئی بھی دلیل نازل نہیں کی ور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے وہ ظالموں کا بہت بْرا ٹھکانا ہے
دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے رسولوں کو جن اوصاف سے متصف کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔رسولوں کو مبشر و منظر کہا گیا۔انہیں ہادی اور مذکر کہا گیا۔انہیں واعظ اور ناصح کہا گیا۔سب سے بڑھ کر خود رسول اللہسے اللہ تعالی نے کہا کہ آپ داروغہ نہیں ہیں۔لَستَ اللہ تعالی حضور سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں کہ اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں۔آیت کا معنی یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے۔تو ان پر افسوس اور رنج و غم نہ کر اگر یہ ایمان نہ لائیں تو تو اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کردے گا؟آپ جسے چاہے راہ راست پر لا نہیں سکتے۔یہ تو اللہ کے قبضے میں ہے،آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہم خود لے لیں گے،آپ تو نصیحت کردینے والے ہیں۔ان پر داروغہ نہیں۔جسے چاہے راہ راست دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے۔ایک جگہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا: وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا تو کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اللہ کی نظر میں ہے۔یعنی اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا اور اس کی ہدایت کے لیے اس کے اندر شر او خیر کو فرق کرنے کی تمیز دی؛اس کے اندر اخلاقی حساس پیدا کیا،اسے عقل و بصیرت دی،پھر انبیاء اور رسولوں کو بھیجا گیا،الہامی کتابیں نازل کی گئی،اسے ایمان لانے پر خوشخبری دی گئی اور انکار کی صورت میں اسے عذاب الہی سے ڈرایا اور دھمکایا گیا اور بتا دیا گیا کہ ایک ہی دین ہے جسے قبول کرنا ہے اور وہ ہے دین اسلام اور بالاخر انسان اپنے کسب،آزادی اور اختیار سے مومن اور کافر ہو گیے۔اس پورے عمل میں انسان کے ساتھ کہیں بھی زبردستی نہیں کی گئی۔کسی کے بھی گردن پر تلوار رکھ کر مومن نہیں بنایا گیا۔ہاں اتنی بات انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخاطبین سے ضرور کہا کہ اگر وہ ایمان نہیں لایے گے تو انہیں دنیا میں سزا دی جائے گی اور آخرت میں تو سزا ملنا ہی ہے۔سور? آل عمران آیت نمبر 56 میں اللہ تعالی نے کافروں کو عذاب دنیا اور عذاب آخرت دونوں کی دھمکی دی ہے:تو جن لوگوں نے کفر کیا ان کو سخت عذاب دوں گا،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں دو طرح کے اسلام کے انکار کرنے والے لوگوں کا ذکر فرمایا۔ایک وہ جو اسلام کو قبول کرنے کے بعد اسلام سے مرتد ہو گیے اور دوسرے وہ لوگ جو ساری زندگی کفر میں گزار دی اور کافر ہو کر ہی مرے۔دونوں طرح کے لوگوں کے لیے اللہ تعالی نیآخرت میں ایک ہی سزا بیان کی ہے۔
پہلا طبقہ کے لوگوں کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا۔
اللہ ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور (پہلے) اس بات کی گواہی دے چکے کہ یہ پیغمبر برحق ہے اور ان کے پاس دلائل بھی آگئے اور اللہ بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت ہو۔ہمیشہ اس لعنت میں (گرفتار) رہیں گے ان سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دے جائے گی۔(سور آل عمران, آیت نمبر 86 سے 88)۔دوسرا طبقہ کے متعلق یہ حکم فرمایا گیا۔جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے وہ اگر (نجات حاصل کرنی چاہیں اور) بدلے میں زمین بھر کر سونا دیں تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ (سور ال عمران، ایت نمبر 91)۔اس لیے اللہ تعالی نے مومنوں کو یہ تنبیہ کی کہ موت کے انے تک اسلام کو کبھی بھی نہ چھوڑے :مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا (سور آل عمران ایت نمبر 102)۔خود انبیاء علیہم السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ مرتے دم تک اسلام پر جمے رہنا اور ایمان کی حالت میں مرنا۔ابراہیم اور یعقوب علیہم اسلام نے اپنے بیٹوں کو جو وصیت کی اس کا ذکر قرآن مجید میں ہے:اور یہی وصیت کر گیا ابراہیم اپنے بیٹوں کو اور یعقوب بھی کہ اے بیٹو بیشک اللہ نے چن کردیا ہے تم کو دین سو تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔کیا تم موجود تھے جس وقت قریب آئی یعقوب کے موت جب کہا اپنے بیٹوں کو تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد بولے ہم بندگی کریں گے تیرے رب کی اور تیرے باپ دادوں کے رب کی جو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق ہیں،وہی ایک معبود ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔(سور البقرۃ، آیت 132 اور 133)۔
کتاب اللہ میں ایک مقام پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائ۔اے رب نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب تو ہم کو ہدایت کرچکا اور عنایت کر ہم کو اپنے پاس سے رحمت تو ہی ہے سب کچھ دینے والا،(سور آل عمران، ایت نمبر 8) اللہ تعالی کا ارشاد ہے:ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اللہ کے رسولوں کی اصل ذمہ داری صرف حق کو واضح طور پر پہنچا دینا ہے اور جب یہ کام ہوچکا،حق باطل سے بالکل الگ ہو کر سامنے آگیا،تو وقت کے رسول کی جو ذمہ داری ہے وہ پوری ہوچکی۔اب ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جن پر حجت تمام ہوچکی ہے۔وہ چاہیں تو ایمان لائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر اڑے رہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں جبرِ فطری کی راہ نہیں اختیار فرمائی ہے بلکہ لوگوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی بخشی ہے۔اللہ تعالی نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں یہ طریقہ نہیں اختیار فرمایا ہے کہ وہ اپنی مشیت وقدرت کے زور سے لوگوں کو ہدایت پر چلا دے یا گمراہی کی طرف ہانک دے۔اس کے برعکس اس نے یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے کہ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے حق اور باطل دونوں کو اچھی طرح واضح کردیتا ہے،پھر جو لوگ حق کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو راہ حق اختیار کرنے کی توفیق ارزانی کرتا ہے اور جو لوگ باطل کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو اس کے لیے ڈھیل دے دیتا ہے۔دین کی دعوت کیسے دی جائے گی،اس کے اصول طریقے اور آداب کیا ہونگے،ان تمام باتوں کو اللہ تعالی نے سورہ النحل ایت نمبر 125 میں بتا دی ہے۔
(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔مراد یہ ہے کہ دین کے داعی کو دعوت کا کام حکمت اور بصیرت سے کرنی چاہیے۔واعظ کا بیان ایسا ہو جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو اس کے شکوک و شبہات دور ہوں اور مخاطب یہ محسوس کرے کہ آپ کی اس میں کوئی غرض نہیں صرف اس کی خیرخواہی کے لئے کہہ رہے ہیں۔اگر دعوت میں کہیں بحث ومناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحث بھی اچھے طریقہ سے ہونا چاہئے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا