اتراکھنڈ کے دیہی علاقوں کے اسکولوں کا حال: اسکول ہیں مگر استاد نہیں

0
0

مونا خلجونیا

اسکول ایک ایسی جگہ ہے، جہاں بچوں کی سماجی ترقی تیزی سے ہوتی ہے۔ وہ اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ گھل مل کر چیزوں کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں۔ اسکول میں بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت تیز رفتاری سے بڑھتی ہے۔ وہ ارد گرد کے ماحودل سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انہیں ہر روز کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی لیے حکومت اسکولوں میں زیادہ سے زیادہ تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کرتی ہے۔ لیکن ملک میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں اساتذہ کی بہت زیادہ کمی ہے۔ خاص طور پر ملک کے دیہی علاقوں میں یہ صورتحال بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے کئی سکول ہیں جہاں اساتذہ کی درجنوں آسامیاں کئی سالوں سے خالی پڑی ہیں اور پورا سکول ایک دو اساتذہ کے سہارے چل رہا ہے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ دفتری کام وقت پر مکمل کریں۔ایسے میں آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی حالت میں وہ کیسے پڑھا رہے ہو نگے؟پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے کئی دیہی علاقوں میں چلنے والے سرکاری اسکولوں کی یہی حالت ہے۔ ریاست کے باگیشور ضلع کے گروڈ بلاک سے 27 کلومیٹر دور لمچولا گاؤں میں واقع گورنمنٹ جونیئر ہائی اسکول اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں چھٹی سے دسویں جماعت تک پڑھانے کے لیے صرف 2 اساتذہ موجود ہیں۔ا سکول میں بچوں کی کل تعداد 80 ہے جن میں 40 لڑکے اور 40 لڑکیاں ہیں۔ بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان دونوں اساتذہ کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ دفتری کام وقت پر پورا کریں۔ ایسے میں یہاں کا تعلیمی معیار کیا ہوگااس چیز کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسکول کی ایک طالبہ کماری گیت جسے اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے، کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں پچھلے کئی سالوں سے صرف دو اساتذہ ہیں اور وہی ہمیں تمام مضامین پڑھاتے ہیں۔ صرف دو اساتذہ ایک ساتھ تمام کلاسز کو نہیں سنبھال سکتے۔ جس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔اسکول میں ٹیچر نہ ہونے کا درد بیان کرتے ہوئے سابق طالبہ کماری مہیشوری کہتی ہیں کہ”میں نے اس اسکول میں دسویں جماعت تک پڑھائی کی ہے، تب بھی یہاں صرف دو ہی ٹیچر تھے۔ ہم ہر مضمون کا مطالعہ نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے میں ہمیں سائنس اور سوشل سائنس کے مضمون کو سمجھنا بہت مشکل لگتا تھا“۔ وہ بتاتی ہیں کہ ”میں نے ہائی اسکول میں سیکنڈ ڈویژن حاصل کیا۔ اگرا سکول ہمیں بورڈ کے امتحانات کے لیے پوری طرح تیار کر لیتا تو شاید ہم بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ پورے سکول کو صرف دو اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ تو وہ ہمیں بورڈ کے امتحانات کی تیاری کیسے کرائنگے؟ گاؤں کے لوگوں نے محکمہ تعلیم میں احتجاج بھی کیا کہ اس اسکول میں کم از کم 5 اساتذہ ہونے چاہئیں، لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ جس سے ہمارے مطالعے اور نتائج متاثر ہوتے ہیں۔“ کماری کویتا اور کماری روپا، جویہاں دسویں جماعت کی طالبات ہیں، کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمارے بورڈ کے امتحانات چل رہے ہیں۔ا سکول میں سبجیکٹ وائز ٹیچرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ا سکول میں صرف دو ٹیچر ہیں، اگر کوئی بیمار ہو جائے تو ایک ہی ٹیچر آتا ہے، ایسی حالت میں ہم اتنا پڑھتے ہی نہیں جتنا پڑھنا چاہیے، کیونکہ کورس ہی مکمل نہیں ہوتا۔ ہم اتنے نمبر نہیں لاپا رہے کہ مستقبل میں کسی اچھے کالج میں داخلہ لے سکیں کیونکہ فیصد اچھے ہوں گے تو مستقبل اچھا ہو گا۔ اسکول میں ٹیچر کی عدم موجودگی سے بچوں کے والدین بھی پریشان ہیں۔ ایک والدین پشکر رام کا کہنا ہے کہ پچھلے 6 سالوں سے گاؤں کا اسکول صرف دو اساتذہ کی مدد سے چل رہا ہے۔ نہ بچے اچھی طرح پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی سکول کا نظام ٹھیک چل رہا ہے۔ اصل مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچے بورڈ کے امتحانات میں بیٹھے ہوں اور ان کا سلیبس بھی مکمل نہ ہو۔ ہم اپنے بچوں کو ہر ممکن طریقے سے پڑھاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں کوئی اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ٹیوشن دے سکیں۔ ہم نے کئی بار اپنے گاؤں آنے والے افسران سے بات کی اور ان سے تمام مضامین کے اساتذہ کی تعیناتی کی درخواست بھی کی لیکن آج تک کوئی استاد نہیں آیا۔اسکول ٹیچر پرکاش کمار کا کہنا ہے کہ”میں یہاں پچھلے 7 سال سے کام کر رہا ہوں اور تب سے صرف ہم دو ٹیچر ہی یہاں موجود ہیں۔ ہمارے لیے اتنے بچوں کو سنبھالنا اور اسکول میں نظم و ضبط برقرار رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔“پرکاش کمار کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ ہم دونوں مل کر ہر کلاس میں بچوں کو تمام مضامین پڑھاتے ہیں، لیکن اگر کوئی بیمار ہو جائے یا کوئی ضروری کام ہو جائے، تو اکیلا ایک استاد ساری کلاسز نہیں سنبھال سکتا۔ ہماری جماعت میں ایک پرنسپل بھی نہیں ہے۔ اسکول میں پرنسپل کا کام بھی سنبھال رہا ہوں، ہمارے لیے بچوں کی پڑھائی، ان کے کورسز، آفس کا کام دیکھنا اور ڈیپارٹمنٹ کی میٹنگز میں شرکت کرنا بہت مشکل ہے۔
ایک طرح سے ہم ہی استاد ہیں، ہم ہی پرنسپل ہیں،ہم ہی اسکول کے چوکیدار ہیں اور ہم ہی اسکول کے کلرک بھی ہیں۔“ اس سلسلے میں گاؤں کے سرپنچ پدم رام کا کہنا ہے کہ ”میں نے اس اسکول کی بہتری کے لئے ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جو ایک گاؤں کا سرپنچ اپنی سطح پر کر سکتا ہے۔ میں نے اپنے گاؤں کے اسکول میں اساتذہ کے مناسب انتظام کے لیے بلاک سے لے کر ضلعی محکمہ تعلیم کو درخواست دی ہے۔ اساتذہ آتے بھی ہیں، مگر ایک ماہ میں ہی وہ اپنا ٹرانسفر کرا لیتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ہمارے گاؤں میں صرف دو ٹیچرز ہیں جس کی وجہ سے بچوں کا مستقبل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ تاہم، محکمہ تعلیم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ لمچولا گاؤں کے اس اسکول میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ کیسے ختم کیا جائے؟ اگر جلد فیصلہ نہ کیا گیا تو اس کے اثرات آنے والے وقت میں نتائج پر نظر آئیں گے جو یقیناً خوشگوار نہیں ہوں گے۔ (چرخہ فیچر)
9350461877

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا